کثرت سے مسلم لڑکیاں مرتد کیوں ہو رہی ہیں

Spread the love

کثرت سے مسلم لڑکیاں مرتد کیوں ہو رہی ہیں ؟

بکثرت مسلم خواتین کے ارتداد کو سمجھنے کے لیے محض ایک یا دو سیمپل سروے پر اکتفا نہ کرکے larger range sample پر سروے اور تحقیق و تجزیہ کیا جائے تو ارتداد کے درجنوں اسباب و عوامل سامنے آتے ہیں۔ ایسا نہیں کہا جاسکتا ہے کہ اس کی واحد وجہ اسکول کالج کی مخلوط تعلیم ہے، یا اس کی وجہ جہالت و غربت ہے ، یا دیہات کا دیہی ماحول اور پسماندہ طرز زندگی ہے، یا شہری کلچر اور اس کی آزادانہ فکر ہے۔ یا اس کی وجہ ایسی سختیاں اور پابندیاں ہیں جس کو قید و بند کی زندگی سے تشبیہ دی جا سکتی ہے وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سب اور اس طرح کے اور جو بھی وجوہات ہو سکتی ہیں، وہ سب کے سب ارتداد کے عوارض تو ضرور ہیں، لیکن ان میں سے ایک بھی اصل وجہ نہیں ہیں۔ اس واقعے کو ہی لے لیں کہ ایک مسلم خاتون جو لڑکیوں کے مدرسے سے فارغ تھی اور ایک عالم دین کی بیوی تھی اور وہ اپنے ہی شوہر کے ایک غیر مسلم دوست کے ساتھ مرتد ہو کر فرار ہوگئی۔ تو آخر اس کی اصل وجہ کیا ہے ؟ ضرورت ہے کہ اہل فہم و دانش اور قائدین دین و ملت غور و فکر کرکے اس کی اصلی وجہ دریافت کریں اور پھر اس کی سد باب کے لیے کوئی مستقل لائحہ عمل تیار کریں۔ تاہم اس معاملے میں ناقص معلومات کے باوجود ناچیز کی سمجھ یہ ہے کہ اس کی اصل وجہ قرآن وسنت کی صحیح تعلیم و تربیت کا نہ ہونا اور مسلم گھروں میں آزادانہ کلچر اور بے دینی ماحول کا حاوی ہونا ہے۔ قرآن وسنت کی صحیح تعلیم و تربیت ہم اپنے بچوں کو نہیں دے پا رہے ہیں- ہم نے نمازوں کی نیتوں اور کچھ مسنون دعاؤں کو ہی مکمل دینی تعلیم سمجھ لیا ہے – جب کہ اصل دین عقیدۂ توحید و رسالت اور مرنے کے بعد قبر و حشر کے معاملات کا عقیدہ ہے – پھر جزا اور سزا کے طور پر جنت و دوزخ کے راسخ عقیدہ کے ساتھ سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور سنت صحابہ پر عمل کرنے کی عملی تربیت کا نام ہے۔ یہ وہ بنیادی عقائد و معاملات ہیں جسے ہر مسلم بچے بچیوں کو نہ صرف یہ کہ فراہم کرنا ہمارا ملی اور دینی فریضہ ہے، بلکہ بطور مشن عملی اقدام کرنا لازمی ہے۔گھروں میں دینی ماحول کو برقرار رکھنے کے لیے ایک مسلم گارجین مردو خواتین کو کم از کم اتنا ضرور کرنا چاہیے کہ ہر وقت گھروں کے اندر اللہ و رسول اور اولیاء و صالحین کا تذکرہ کرتے رہیں، بات بات پر اپنے بچوں کو دینی واقعات و امثال سناتے رہیں، ہر دن گھروں میں بچوں کے ساتھ بیٹھ کر چند منٹ ذکر و اذکار کی مجلس ضرور سجائیں۔ وقتا فوقتاً گھروں میں محفل درود اور درس قرآن کا اہتمام کریں۔ گھروں میں روزے اور نماز کا ماحول بنائیں اور اپنے بچوں کو اس کی ترغیب دیں۔ وقتاً فوقتاً محفل حمد و نعت اور تلاوت کا اہتمام اور ایسے نیک و مخلصین کی دعوت کا اہتمام کریں جنہیں دیکھ کر آپ کے بچوں کے اندر بھی دینی جذبہ پروان چڑھے۔ گھر کے اندر نماز و تلاوت کی جگہ مخصوص بنائیں اور اس میں ہر وقت مصلی بچھاکر رکھیں اور قرآن پاک کے علاوہ اوراد وظائف اور ضروری مسائل کی کتابیں سجا کر رکھیں۔ کوشش کریں کہ روز مرہ کی زندگی میں آپ کے بچوں کے اندر روحانی اور دینی مزاج پروان چڑھتا رہے اور بزرگوں اور اسلاف کی محبت ان کے قلب و روح میں سرایت کرتا رہے۔ اگر آپ اپنے اسلاف کی زندگی کا مطالعہ کریں گے تو یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ان کے گھروں میں لازما نظر آئیں گی، اور اسی کی برکت سے ان کے گھرانوں میں بچہ بچہ دین و ایمان کا پیکر ہوا کرتا تھا۔ ان میں دین بیزاری مزاج کبھی جنم نہیں لیتا تھا۔ اور آج حال یہ ہے کہ اگر آپ کسی بچے کو پوچھ لیں کہ مغرب کی آذان کب ہے؟ تو ایسا معلوم ہوگا کہ شاید اس نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں کہ اذان و اقامت کے بھی وقت مقرر ہوتے ہیں۔ شاید اسے نماز سے ہی کوئی لینا دینا نہیں رہا ہے۔ اگر پوچھ لیں کہ عشا کا آخری وقت کب تک ہے ؟ تو وہ رات کے 12 بجے بتائے گا۔ وجہ یہی ہے کہ ہم اپنے گھروں میں ان باتوں پر توجہ ہی نہیں دیتے ہیں اور ہمیشہ دنیا اور اس کے حصول پر سب کی توجہ ہوتی ہے، اور نتیجتاً مسلم بچے کے لیے دنیا پہلی ترجیح جبکہ دین و ایمان ثانوی اور معمولی شئی بن کر رہ جاتا ہے۔ ہم پابندی سے بچے کے برتھ ڈے اور دیگر رسوم کا اہتما کرتے ہیں۔ لیکن ہم مخصوص دنوں کے روزوں اور دینی و روحانی کاموں اور اسلامی اہم تاریخوں کی یاد کو بھلا دیتے ہیں۔ ہمیں لازما اسلامی اہم تاریخوں اور واقعات کا بہانہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر کوئی نہ کوئی نیک عمل، بشکل ذکر و اذکار اور دعاء و تلاوت اہتمام کرنا چاہیے تاکہ دین و ایمان کے ساتھ تعلق بنا رہے اور وجدان و روح تروتازہ ہوتے رہیں۔ مشرک اور مشرکہ سے نکاح کے بارے میں قرآن کے ہدایات ملاحظہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ ۚ وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ ۗ وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا ۚ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ ۗ أُولَٰئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ ۖ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ ۖ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ۔ (221-سورہ بقرہ)ترجمہ: مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں – اور بے شک مسلمان باندی بہتر ہے مشرکہ آزاد عورت سے اگرچہ وہ ( دولت اور حسن وغیرہ کی وجہ سے ) تم کو زیادہ اچھی لگتی ہو – اور نکاح نہ کرو مشرک مردوں سے یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں – اور غلام ایمان والا بہتر ہے – مشرک سے اگرچہ ( دنیاوی مال و دولت وغیرہ کی وجہ سے ) وہ تم کو زیادہ پسند ہو اس لئے کہ یہ ( مشرکہ عورت اور مشرک مرد ) تم کو دوزخ کی طرف بلاتے ہیں – اور اللہ تعالی جنت کی طرف اور بخشش و نجات کی طرف بلاتا ہے – اپنے حکم سے۔ اللہ تعالی نے ان احکامات کو بیان فرما دیا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ اس آیت کریمہ کی شانِ نزول تفسیر نعیمی کے الفاظ میں ملاحظہ کریں:حضرت ابو مرثد غنوی ایک بہادر صحابی تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مکہ مکرمہ بھیجا، تاکہ وہاں سے تدبیر کے ساتھ ان ضعیف مسلمانوں کو نکال لائیں جو ہجرت نہ کر سکے۔ وہاں ایک مشرکہ عورت تھی جس کا نام تھا عناق – اُسے زمانۂ جاہلیت میں اُن کے ساتھ نہایت محبت تھی اور وہ نہایت حسین اور مالدار بھی تھی۔ جب اسے ان کے مکہ آنے کی خبر ملی تو وہ ان کے پاس آئی اور وصال کی طلبگار ہوئی۔ آپ نے فرمایا: اے عناق میں مسلمان ہو چکا ہوں اور اسلام زنا سے روکتا ہے۔ تب اس نے آپ سے نکاح کی درخواست کی – آپ نے فرمایا کہ اب میں اپنے قبضے میں نہیں ہوں – نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہوں – اُن کے بغیر پوچھے تجھ سے نکاح بھی نہیں کرسکتا – جب آپ بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے تو سارا واقعہ عرض کر کے نکاح کے متعلق دریافت کیا – تب اس آیت کا پہلا جملہ ولا تنکہو الخ نازل ہوا۔ (بحوالہ تفسیر احمدی و خزائن) (۲) ایک دن حضرت عبداللہ ابن رواحہ نے کسی خطا پر اپنی حبشی باندی کو طماچہ مار دیا۔ پھر پشیماں ہو کر بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے اور یہ واقعہ عرض کیا – حضور نے اس لونڈی کے حالات دریافت کئے کہ وہ کیسی ہے ؟ آپ نے عرض کیا کہ وہ توحید و رسالت کی قائل نمازی اور روزہ دار ہے – تب حضور نے فرمایا کہ اے عبداللہ وہ تو مؤمنہ ہے – آپ نے عرض کیا رب کی قسم میں اسے آزاد کرکے اپنے نکاح میں لاؤں گا – پھر ایسا ہی کیا – اس پر لوگوں نے عبداللہ کو طعنہ دیا کہ فلاں فلاں مشرکہ عورتیں جو حسین بھی تھیں اور مالدار بھی۔ تم سے نکاح کرنے پر تیار تھی اور تم نے انہیں چھوڑ کر ایک حبشی لونڈی سے نکاح کر لیا ؟ تب اس آیت کا دوسرا جملہ “وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍ” نازل ہوا (بحوالہ: احمدی و خزائن و روح المعانی/تفسیر نعیمی-ج 2/ص 448 )مناسب اور ضرورت یہ ہے کہ ہمارے خطباء عظام , نقیبان ملت , شعراء کرام , اور آئمۂ مساجد و مبلغین اسلام مذکورہ آیت مقدسہ اور احادیث کریمہ کو جمعہ کے خطاب میں ، جلسوں میں، اور آنے والے عید الاضحٰی کی خطاب میں مؤثر انداز میں بیان فرمائیں۔ساتھ ہی اس موضوع پر اچھی طرح بیان کرنے کے ساتھ نمونے کے طور پر مرتدہ لڑکیوں کے چند سچی اور حقیقی واقعات اور ان کے بھیانک اور عبرت ناک انجام کی ویڈیوز اور آڈیوز کو واٹس ایپ ، فیسبک ، انسٹا گرام ٫ یو ٹیوب اور دیگر انٹرنیٹ کے ذرائع ابلاغ سے خوب تشہیر کی جائے۔ امام صاحب اپنے اپنے محلے اور سوسائٹی کے واٹسپ گروپ میں واقعات کی سچائی کی چھان بین کرکے نشر کریں. إن شاء الله العزیز مفید نتائج برآمد ہوں گے۔علامہ اقبال کی اس نصیحت کے ساتھ رخصت لیتا ہوں کہ: چھپا کر آستین میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں سن اے غافل صدا میری یہ ایسی چیز ہے جسکو وظیفہ جان کر پڑھتے ہیں طائر بوستانوں میںمحمد شہادت حسین فیضی9431538584

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *