تعلیم لڑکیو ں کا بھی حق ہے مگر

Spread the love

تعلیم لڑکیو ں کا بھی حق ہے مگر !

آقاے انعام دار ،مدینے کے تاجدار ،احمد مصطفی ﷺکا فرمانِ عالی شان ہے ’’طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ومسلمۃ‘‘اس کا اردو ترجمہ کچھ اس طرح سے ہوتا ہے ’’علم ِ دین حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے ‘‘یہاں جو غور کرنے والی بات ہے وہ یہ ہے کہ اسلام نے کبھی عورتوں کی تعلیم کو لیکر کوئی ایسا حکم نہیں دیا کہ جس سے کوئی اسلام پر عورتوں کو تعلیم سے روکنے کی تہمت لگا سکے ۔بے شک تعلیم حاصل کرنا ہر ایک انسان کا اپنا حق ہے جس سے کو ئی بھی نہیں روک سکتا ۔

معارضین ومخالفین اسلام اکثراوقات طرح طرح کی جھوٹی خبریں اڑاتے ہوئے نظر آتے ہیں جس میں اسلام کو بد نام کرنے کی حتی الامکان کوشش مشمول ہوتی ہے مگر پھر انہیں جب منہ توڑ جواب مل جاتا ہے تو پھر وہ خاموش ہو جاتے ہیں مگر وہ ہار نہیں مانتے بلکہ پھر ایک نئی سازش کے ساتھ لوٹتے ہیں بس انہیں ہی کی سازشوں میں سے ایک سازش یہ ہے کہ انہوں نے عام لوگوں میں اس بات کو عام کیا ہے کہ اسلام نے عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے سے روکا ہے حالاں کہ ایسی کوئی بات نہیں ۔

ایک بات یاد رکھیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ حصول علم کا طریقہ بدلتا رہا ہے کبھی گھروں میں کسی بڑے سے تعلیم حاصل کرنے کا زمانہ تھا تو کبھی چند ہم عمرکے ساتھ ایک جگہ جمع ہو کر تعلیم حاصل کرنے کا زمانہ تھا تو کبھی نظام مکتب توکبھی اسکول اور کالج کا زمانہ تھا اور اب تو جامعات کا زمانہ ہے ۔

دنیا بھر میں تقریبا ۲۹۲۵۷جامعات ہیں جو مختلف علوم وفنون کے لیے قائم ودائم ہیں ۔ حقوق نسواں سے کئی حقوق ایسے ہیں جو ہمیشہ سے ہی تنازعات کے شکار رہتے ہیں مثلا مسئلہء حجاب ،مسئلہ طلاق اور مسئلہ تعلیم وغیرہ جن میں تعلیم کا مسئلہ کچھ زیادہ ہی زور پکڑ چکا ہے چونکہ پڑھائی ہی سے آج کے زمانے کا گزارا ہے تو بس یہی ایک بڑی وجہ ہے جس کی بنا پر عورت ذات میں بھی انقلاب تعلیم کا جذبہ دکھائی دیتا ہے ۔

یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ اسلام نے کبھی بھی عورتوں کو تعلیم دینے سے نہیں روکا بلکہ ہر کسی ابھارا ہے ۔مگر ایک خاص طبقے کے لوگ جان بوج کر اسلام کی ساخت خراب کرنے میں لگے ہیںا ور یہ چاہتے ہیں کہ اسلام کو کیسے نہ کیسے کر کے بدنام کیا جائے اس سے بھی بڑھ کر ایک ہتھیار یہ ہے کہ کیوںنہ اسلام کے ماننے والوں کو ہی اسلام کے مخالف کھڑا کر دیا جائے کیونکہ ایسا کرنے سے اسلام میں جلد ہی پھوٹ پڑ سکتی ہے مگر شاید انہیں اس بات کا علم نہیں کہ …

وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے … آج ہمارے معاشرے میں ہوتا کچھ یوں ہے کہ لوگوں کو تعلیم سے اتنی رغبت نہیں دکھائی دیتی ہے ۔

کیوں کہ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اپنے بچوں کو کام میں لگائے اور دو چار پیسے نکلیں تاکہ گھر کا خر چہ چل سکے حالانکہ یہ ایک مجبوری بھی ہے مگر ایک حد تک احمقانہ فکر بھی ہے مجبوری اس لیے کیونکہ غربت کا بول بالا ہے ہر کوئی پیسہ کمانا چاہتا ہے اور احمقانہ اس لیے کہ اگر تعلیم پوری کر لی جائے تو کمانے کے ذرایعے اور بھی وسیع تر ہو سکتے ہیں تو کیونکہ تھوڑی مشقت کے بعد آسانی کا راستہ اختیا ر کیا جائے ۔اب کچھ لوگ جو پڑھائی پر توجہ دیتے بھی ہیں وہ اپنے لڑکوں کی تعلیم دیکھتے ہیں اور لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں سوچنا گوارا بھی نہیں کرتے اور انہیں پس پشت ڈال دیتے ہیں جو کہ ایک افسوس ناک بات ہے ۔

کہیں دور کی نہیں بلکہ میں اپنے گاؤں ہی کی مثال دیتا ہوں جہاں لڑکیوں کی تعلیم بس اتنی ہوتی ہے کہ انہیں کیسے بھی قرآن پڑھنا سکھا دیا جاتا ہے جو کہ ایک اچھی پہل ہے مگر بات یہ ہے کہ کیا انہیں اعلی تعلیم حاصل کرنے کا حق نہیں ؟کیا انہیں زندگی میں کسی بڑے عہدے پر فائز ہونے کا خواب نہیں دیکھنا چاہئے ؟کیا انہیں تعلیم شدہ زندگی گزارنے کا حق نہیں ہے ؟جس طرح کا حق لڑکوں کو ہے بے شک اسی طرح تعلیم حاصل کرنے کا حق لڑکیوں کو بھی ہے ۔اب ہمارے گاؤں میں شاید ہی ۲ یا ۳ لڑکیا ایسی ہونگیں جو اسکو ل اور کالج تک پہنچ پائی ہیں ورنہ تو لڑکیوں کے حق میں بس اتنی سی بات آتی ہے کہ انہیں گھر کا کام کرنا اور شادی کر کے اپنی زندگی گزارنا ہے ۔

لوگ اپنی لڑکیوں کے بارے میں بہت مشکل سے ہی یہ بات سوچتے اور قبول کرتے ہیں کہ انہیں بھی پڑھنے کا حق ہے …مگرکیوں؟اس سوال کا ایک بہتر جواب یہ ہے کہ اکثر دیکھنے کو یہ ملا ہے کہ جب بھی لڑکیاں پڑھ لکھ کر کامیاب ہو جاتی ہیں تو انکے تیور بدل جاتے ہیں وہ خود کو کسی اور کے نیچے رکھنا پسند نہیں کرتیں ،کسی اور کی بات قبول کرنا اپنی شان میں گستاخی سمجھتی ہیں اور یہی ایک مسئلہ ہے جس کی بنا پر لڑکیوں کی تعلیم کو ایک عیب کے سوا کچھ اور نہیں سمجھا جاتا ہے ۔ایک مسئلہ یہ بھی ہے جو کہ اکثر گاؤں میں رہنے والوں کو پیش آتا ہے وہ ہے لڑکی کی شادی چونکہ گاؤں دیہات میں لڑکیوں کی شادی خاصہ جلدی کر دی جاتی ہے جو کہ مانعِ حصول تعلیم ثابت ہوتی ہے اور ان کی پڑھائی وہیں ختم ہو جاتی ہے کیونکہ شادی شدہ لڑکی کا تعلیم حاصل کرنا آج بھی ایک عیب تسلیم کیا جاتا ہے جو کہ غلط ہے ۔

اور بھی چند مسائل ہیں جو عورتوں کے لیے مانعِ تعلیم ہوتے ہیں یاد رہے آج کل کا زمانہ یعنی زمانے کے لوگ بہت ہی آزادانہ خیال کے ہیں ہر کوئی اپنی مکمل آزادی چاہتا ہے اسے مذہب کے اوامر ونواہی سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑتا ،لوگوں نے مذہب کو ایک بوجھ سمجھنا شروع کر دیا ہے اور انہیں ایسا لگتا ہے کہ مذہب ان کی زندگی میں خلل پیدا کرتا ہے جو کہ غلط ہے ۔

جب لڑکے اور لڑکیاں ایک ہی اسکول میں ایک ساتھ پڑھتے ہیںتو چند مسائل پیدا ہوتے ہیں جن کو روکنا محال ہے جیسے کہ لورلیشن یعنی ایک دوسرے سے محبت اور محبت کی بات اتنی خراب سمجھی جاتی ہے جتنی کہ نالی میں گری ہوئی کوئی شیء اور وہ ہے بھی کیونکہ اسلام اس بات کی قطعی اجازت نہیں دیتا مگر آج کل یہ ہمارے معاشرے میں عام ہو چکا ہے ۔

اب سمجھنے کی بات اتنی سی ہے کہ اپنے لڑکوں کی طرح لڑکیوںکو بھی تعلیم دینے چاہئے مگر چند شرائط ووضوابط کے ساتھ کیونکہ یہی وہ طریقے ہیں جن سے ان مسائل کا حق مل سکتا ہے ۔اب کا زمانہ ذرا نہیں بلکہ بہت زیادہ دشوار ہے ہر کوئی فتن وشرر میں ڈوبتا جارہا ہے گناہوں سے بچنا جیسے محال ہوتا جارہا ہے ۔آپ نے ان دنوں ایک مسئلہ دیکھا یا سنا ضرور ہوگا جسے ہم ’’ارتداد ‘‘کہتے ہیں جس کا معنی ہے کسی مسلمان کا اسلام سے رو گردانی کرلینا ایک ایسی بیماری ہے جس کا حکم قتل ہے مگر صر ف ان ممالک میں جہاں شریعت نافذ ہو ۔

آج کل تعلیم ہی وہ سبب ہے جس کی وجہ سے ارتداد کا راستہ کھلا ہوا ہے یہ احمقانہ کام اکثر طور پر عورتوں سے ہی صادر ہوتا ہے کیونکہ انہیں بہلا نا اور پھسلانا مردوں سے زیادہ آسان ہے اور یہی وجہ ہے کہ دشمنان دین اسلام نے عورتوں کو حربہ بنا لیا ہے اور انہیں اسلام سے روگردانی کرانے کے لیے محبت جیسے ہتھیار کا استعمال کرتے ہیں اب ان سب میں تعلیم کا کیا قصور ہے یہ بھی ایک بڑا سوال ہے ۔

یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

آپ فرض کیجیے آپ کے گھر میں ایک لڑکی ہے آپ نے اسے گاؤں یا شہر کے کسی مکتب میں قرآن کی تعلیم دی اور پھر بڑی ہونے پر اس کی شادی کردی اوروہ اب اپنے گھر کی ہوگئی اور اسی حالت میں اس نے اپنی زنگی مکمل کر لی تواس صورت میں نہ آپ کو کوئی مسلہ ہوا اور نہ کسی اور …

دوسری طرف اگر آپ نے آپنی بیٹی کو اسکول یا کالج روانہ کر دیا وہ دن بھر گھر کے باہر رہتی ہے اور تعلیم حاصل کرتی رہتی ہے اورپھر چند سالوں کے بعد آپ کو خبر ملتی ہے کہ آپ کی بیٹی فلاں لڑکے کے ساتھ مست ومگن ہے اوراس سے ہی شادی کرنا چاہتی ہے جو کہ ایک ایسی خبر ہے

جو ایک لمحے میں پھیل جاتی ہے اورپھر اس کے بعد آپ کی پریشانی بجا ہے مگر کریں تو کیا کریں بس ایسے حالات میں ایک ہی بات سوجھتی ہے کہ کتنا اچھا ہوتا اگر میں اپنی بیٹی کو تعلیم کے لیے اسکول یا کالج بھیجا ہی نہ ہوتا بس اس کے بعد ایک کی وجہ سے ہزاروں کا دماغ بدل جاتا ہے اور وہ اپنی لڑکیوں کو تعلیم دینے سے کتراتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس مسئلہ کا حل اپنی لڑکیوں نہ پڑھا کر نہیں بلکہ ان کی بہترین تربیت کرنے سے ہوتی ہے جیسا کہ بہت سی لڑکیاں اپنی تعلیم بھی مکمل کرتی ہیں اور ان سب چکروں میں پڑنے سے حتی الامکان پرہیز بھی کرتی ہیں ۔

تو اس بات کا خلاصہ اورم الحاصل بات اتنی سی ہے کہ ہمیں اپنی لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کو تعلیم دلانی ہے مگر چنداحتیاطی اقدامات کے ساتھ مطلب یہ کہ تعلیم بھی حاصل ہو جائے اور کوئی مسئلہ بھی نہ پیدا ہو یعنی کہ لڑکیوں کی تعلیم ایک جگہ اور ان کی تربیت ایک جگہ انہیں اسکول بھیجے مگر ان پر نظر رکھیں انہیں ساتھ میں اسکول لے جائیں اور ساتھ ہی واپس لے کر آئیں انہیں حجاب کی پابندی کرائیں اور انہیں غلط سنگت میں پڑنے اور اجنبیوں سے بچنے کی ہدایات دیتے رہیں تاکہ ان کی زندگی اور آپ ساتھ ہی ساتھ آپ کی بھی پرسکون رہے اور آپ کو کسی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔

یاد رہے تعلیم جس طرح لڑکوں کا حق ہے با لکل اسی طرح لڑکیوں کا بھی حق ہے اور کسی کی حق تلفی کرنا حرام ہے اور قابل مواخذہ ہے۔اللہ ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

سیف علی شاہ عدمؔ

متعلم جامعہ دارالہدی الاسلامیہ

3 thoughts on “تعلیم لڑکیو ں کا بھی حق ہے مگر

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *