مقالہ نگاری سے متعلق کچھ اہم باتیں
مقالہ نگاری سے متعلق کچھ اہم باتیں
ہر زبان وفن کی کچھ حدود ہوتی ہیں جن سے تجاوز ناروا ہوتاہے اور ان حدود کی پاسداری حد درجہ ناگزیر ہے اس طرح کسی بھی مضمون یا مقالے خواہ چھوٹا ہو یا بڑا یا کتابی شکل اختیار کرجاۓ، کو ترتیب دینے کے لیے اس کے اصول وقواعد کی رعایت ضروری ہے۔ تاکہ مضمون کا تسلسل برقرار رہے، لفظی ومعنوی غلطی سے مصون ومحفوظ رہے، تحریر کا معیار بلند ہو، اس سے استفادہ کامل طور پر ہو۔
یہ ان لوگوں کے لیے ضروری ہے جو آۓ دن نگارشات ترتیب دیتے رہتے ہیں لیکن مقالہ نگاری یا مضمون نویسی کے اصول وقواعد سے نابلد ہیں۔
ابتدائی خامہ فرسائی کرنے والے کے لیے اس بات کو خیال میں رکھنا بے حد ضروری ہے کہ جتنا مفہوم اور مواد پیش کرنا ہو اتنے ہی لفظ بھی ہوں۔ نہ یہ کہ الفاظ زیادہ اور مفہوم کم یا اس کے برعکس یوں ہی الفاظ حسن صوری ومعنوی بھی رکھتے ہوں، مطالعہ بھی وافر مقدار میں ہو، عنوان دل چسپ ہو ۔ پھر دونوں قسم کے مضمون نگاروں کے لیے یہ بھی جاننا بے حددرجہ ناگزیر اور لازمی ہے کہ لفظ کس معنی میں استعمال ہورہاہے ؟
جیسے: ایک لفظ اکثر مترجم کتب میں دیکھنے کو ملتاہے بعض اساتذہ بھی دوران تدریس اس کا استعمال عدم توجہی کی بنا پر کرجاتے ہیں۔ عربی زبان میں کہیں کوئی لفظ “زاد یزید”کے مادے سے آتاہے تو مدرسین و مترجمین اس کا ترجمہ لفظ “زیادتی” سے کرجاتے ہیں جب کہ “زیادتی” کا استعمال اردو زبان میں ظلم کے معنی میں ہوتاہے۔ لوگ بولتے بھی ہیں : “ہم ان کی ظلم وزیادتی قطعا برداشت نہیں کریں گے۔”
اسی طرح رسم الخط کا لحاظ بھی از حد ضروری ہے۔ جیسے: لفظ “ان شاء اللہ” قدیم مطبوعہ کتابوں میں یا قدیم املا اپنا والے قلمکاروں کی تحریرں میں “ان” کو لفظ”شاء” میں ضم کرکے لکھا ہوا خوب دیکھا جاتاہے۔ جب کہ اس سے معنی فاسد ہورہاہے کیوں کہ ضم کرکے لکھنے میں یہ “انشاء” باب افعال کے مصدر کی شکل اختیار کرگیا اگرچہ لکھاری کی مراد معنئ مشیئت کی تعلیق ہی ہو۔ اب اس کا معنی ہوگیا پیدا کرنا یا تمرین بنانا جب کہ یہ معنی ہرگز مقصود نہیں۔
ایسے ہی “پتا” (الف کے ساتھ) کا معنی ہے علم جیسے: “مجھے یہ بات پتا ہے۔” یعنی معلوم ہے۔ اور “پتہ” (ہاء کے ساتھ) کا معنی ایڈریس ہے ۔ جیسے: کہاجاتاہے: ” آپ کا پتہ کیا ہے؟۔” یعنی ایڈریس کیا ہے ؟ اس کا استعمال اور کتابت بھی مقلوبی شکل میں بیشتر دیکھاجاتاہے۔
علامہ نفیس القادری امجدی ایڈیٹر سہ ماہی عرفان رضا مراداباد سے اس بات پر مشاورت ہوئی تو اس پر اتفاق راے ہوا کہ زیر نظر شمارے کے بعد بالالتزام سارے شمارے ہارڈ کاپی میں ہدیہ قارئین کیے جائیں گے لہذا اردو ادب کے کالم میں ہر شمارے میں تحریر میں سدھار پیدا کرنے کی کچھ ہدایات اور ضروری قواعد پر مشتمل قسط وار ناچیز راقم کا مضمون شامل اشاعت وطباعت کیا جاۓ گا ۔
لہذا بالتفصیل مقالہ نگاری کے اصول وضوابط ان شاء اللہ آپ ہر شمارے میں ملاحظہ کریں گے جس سے استفادہ کرکے راقم کے حق میں ضرور دعا گو ہوں گے اور جو مدارس اسلامیہ کے طلبہ مضمون نگاری میں دل چسپی رکھتے ہیں وہ ہماری تحریریں پڑھنے کے بعد یقینا ضرور حوصلہ مند ہوں گے۔
چند ماہ قبل بھی ہم نے اس سے متعلق دس قسطیں بنام “مشق مضمون نگاری” اور ” مقالہ نگاری: اصول ضوابط” ترتیب دی تھی جو کئی ایک روزناموں کی زینت بنیں اور گوگل سائٹس پر بھی اپلوڈ کی گئیں جسے پڑھ کر کئی ایک طلبہ اچھے مضمون نگار بن گئے ہیں۔ مرکزی ادارہ جامعہ منظر اسلام بریلی شریف کے کئی طلبہ آج بھی رابطے میں ہیں اور راقم سے اس بابت استفادہ کرتے رہتے ہیں۔
کام یاب مضمون نگار کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ کتابیں لکھے۔ کتابیں تو اس زمانے میں سرقہ کرکے خوب لکھی جارہی ہیں۔اگر آپ اچھے مضمون نگار نہیں ہیں تو کتاب لکھنے اور چھپوانے میں تضییع مال کے سوا کچھ نہیں۔ بعض کو میں دیکھ رہاہوں کہ ہر ہفتہ ان کی ایک دو کتاب منظر عام پر آجاتی ہے جب انھیں پڑھ کر دیکھا تو مواد سے بلکل عاری تھیں۔
بعضے مضمون نگار بھی ایسے ہی ہیں کہ ہر دن ان کی ایک تحریر آپ کے نمبر پر دستیاب ہوگی۔ کامیابی کا معیار یہ ہے کہ قارئین آپ کی تحریر یا کتاب کا انتظار کریں نہ یہ کہ پڑھ کر ڈبے میں ڈال دیں یا نظر انداز کردیں اس لیے قواعد کی رعایت اور ہدایات کی پاس داری بے حد ضروری ہے ۔ اس لیے آپ آئندہ ہر شمارے میں مقالہ نگاری کے اصول اور کچھ ہدایات ملاحظہ فرمائیں گے
از: محمد ایوب مصباحی
پرنسپل وناظم تعلیمات دار العلوم گلشن مصطفی بہادرگنج، ٹھاکردوارہ،مراداباد
رابطہ: 8279422079