جہیز اور ہمارا معاشرہ

Spread the love

جہیز اور ہمارا معاشرہ


اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے.اعتقادات ہوں یا عبادات, معاملات ہوں یا عقوبات زندگی کے ہرشعبہ میں اسلامی تعلیمات مشعل راہ ہیں.اسلام نے زندگی کے جملہ شعبہ جات کے لیے نظام اعتدال وتوزان پیش کیاہے.شریعت اسلام کااحاطہ زندگی کے کسی زاویے یا زمانے تک محدود نہیں, بلکہ اس میں پوری انسانی زندگی کے لیے توسع ہے.یہی قانون اسلام ہے جس پر عمل پیراہوکرانسان اپنی دنیوی واخروی زندگی سنوارسکتاہے,
مگر حیف صد حیف !ہمارا مسلم معاشرہ اسلامی تعلیمات سے معرا نظر آتا ہے ,اس معاشرے کو مغربی تہذیب وتمدن نے اپنی چپیٹ میں لے لی ہے. ہمارے معاشرے کی رگ وپے میں خود غرضی ,ناجائز منفعت پرستی ,غیبت وچغلی,جھوٹ وفحش گوئی ہر طرح کی برائیاں گھر کرگئی ہیں.انہی برائیوں میں ایک برائی “زنا”ہے.زنا کے اسباب میں ایک اہم سبب ہمارے معاشرے میں مروجہ رسم جہیز ہے,جس کی وجہ سے بہت ساری لڑکیاں غربت وافلاس کی وجہ سے رشتۂ نکاح کے بندھن میں نہیں بندھ پاتی, پھر اپنی عفت وپارسائی کا سودا کر بیٹھتی ہیں.رسم جہیز ہمارے سماج کے کےلیےزخم ناسور سے کم نہیں ہے.جہیز کے نام پر مسلم بیٹیاں جس طرح ہراساں کی جارہی ہیں وہ ہر کس وناکس سے ظاہر وباہر ہے.اسی وبال جہیز کی وجہ سے سینکڑوں مسلم بیٹیاں گوں ناگوں مصائب وآلام سے دوچار ہیں.علی الصباح اخبار بینی کی جائے تو جلی حرفوں میں دلخراش واقعات آپ کو ملیں گے کہ فلاں جگہ کم جہیز لانے کی بنا پر بدن پر تیل ڈال کر آگ لگادی گئی,تو فلاں مقام پر گلاگھونٹ کر قتل کردیاگیا اور فلاں جگہ انسان نما بھیڑیوں کے مظالم سے تنگ آکر بے قصور ولاچار عورت نے خود ہی موت کے پھندے کو گلے لگالیاہے.آئے دن ایسے روح فرسا واقعات رونماہورہے ہیں اور بنت حوا کی نسل کشی کا یہ سلسلہ زورپکڑتا جارہاہے.اور یہ بڑے قلق وافسوس کی بات ہے کہ روزبروز جہیز کا مطالبہ بڑھتاجارہاہے, جس کی وجہ سے نکاح حددرجہ مشکل امر بنتاجارہاہے,نکاح ایک پاکیزہ رشتہ ہےجس کی ترغیب قرآن وحدیث میں دی گئی ہے.چناں چہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اے نوجوانو!تم میں سے جو نکاح کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کی طاقت رکھتاہے,اسے نکاح کرلینا چاہیے کیوں کہ نکاح نگاہ کو نیچارکھتاہےاور شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے(یعنی نظر کو بہکنے سے اور جذبات کو بے لگام ہونے سے بچاتاہے)اورجونکاح کی ذمہ داریوں کو پوری کرنے کی قوت نہیں رکھتاہے,اسے چاہیے کہ شہوت کا زور توڑنے کے لیے وقتافوقتا روزہ رکھ لیاکرے”(بخاری شریف)
اسی طرح دوسری جگہ سرورکائنات صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے نکاح کی اہمیت وفضیلت کو اجاگر کرتے ہوئے نکاح کو نصف ایمان قرار دیاہے.جیساکہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:”جب کوئی بندہ رشتۂ زوجیت سے منسلک ہوجاتاہےتو وہ نصف ایمان کو مکمل کرلیتاہے.”
آج کے دور میں اس مقدس رشتہ کو بے غیرت خاندانوں اور نوجوانوں نے نفع جوئی اور زور طلبی کا ایک کاروبار سمجھ لیاہے.
آخر جہیز کی حرص کیوں؟
ہر ادنی واعلی سے عیاں ہے کہ مہنگائی اپنے عروج وفراز پر ہے پسماندہ طبقہ کودووقت کی روٹی کے لیے ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں,اور ان کے گھروں میں بہن بیٹیاں بن بیاہی صرف اس لیے بیٹھی ہیں کہ ان کے ولیوں کے پاس خطیر رقم نہیں کہ جہیز دےکر رشتۂ ازدواج سے منسلک کریں.غورکرنے کا مقام یہ ہے کہ آخر جہیز کی حرص کیوں ہے؟اس کے تعلق سے علامہ احمد مصباحی صاحب قبلہ حرص کی وجہ تحریر کرتے ہوئے بیان لکھتے ہیں:ملاحظہ کیجیے!”ہمیں یہ غورکرنا ہوگاکہ جہیز کی کمی کی وجہ سے عورتوں کو ستانے والے جوانوں اور خاندانوں میں یہ حریصانہ طبیعت اور ظالمانہ جرأت کیسے پیدا ہوئی اور اس کے اسباب وعوامل کیا ہیں؟جوابا مختصر لفظوں میں یہ کہاجاسکتاہے کہ حریصانہ طبیعت حب دنیا کی پیداوار ہے..اور ظالمانہ جرأت دین سے دوری کا نتیجہ ہے–بلکہ جارحانہ حدتک حب دنیا بھی دین سے دوری اور اس کے اصول ومقاصدسے بے تعلقی کا ہی شاخسانہ ہے.”اس کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ جو اہل دولت ہیں وہ اپنی دولت کے نام ونمود کی خاطریا لڑکی اورداماد سے بےپناہ محبت کی نمائش کی خاطربذات خود اور بلامطالبہ اتنا دے ڈالتے ہیں کہ متوسط طبقہ کی ساری دولت وجائیداد کی مالیت لگائی جائے تو اس کے برابر نہ ہو,ان حضرات کا دیکھ کر دوسرے بھی زیادہ سے زیادہ جہیز دینے کی فکر کرتے ہیں اور اسی کو عزت وعظمت خیال کرتے ہیں اور نہ دینے میں اپنی بے عزتی اور حقارت محسوس کرتے ہیں.(جہیز اور ہمارا معاشرہ)
جہیز کی شرعی حیثیت جہیز کی شرعی حیثیت طشت ازبام کرنےسے قبل جہیز کی تعریف وتقسیم ملاحظہ کریں!
جہیز کا لفظ عربی زبان سے منقول ہوکر آیاہے,معنی ہے: اسباب فراہم کرنا ,اہل اردو اس کا اطلاق اس سامان اور نقد پر کرتے ہیں جوشادی بیاہ کے موقع پر لڑکوں کو والدین اور اس کے میکے والوں کی جانب سے دیاجاتاہے.
عصر حاضر میں مروجہ جہیز کی دونوعیتیں ہیں .پہلی نوعیت :وہ سازوسامان جس کو باپ اپنی مالی حیثیت اور صواب دید کے مطابق بلاکسی جبرواکراہ کے خوشدلی کے ساتھ اپنی بیٹی کورخصتی کرتے وقت دیاکرتاہے.
دوسری نوعیت وہ سازوسامان یا نقد جس کو لڑکے گارجین شادی سے قبل یا شادی کے بعد شادی کی شرط قرار دے کر وصول کرتے ہیں اور لڑکی کا باپ بہ جبراہ واکراہ اس کو ادا کرنے کا پابند ہوتا ہے,(ایضا)
ہمارے معاشرے میں جہیز کا اطلاق اس معنی میں زیادہ ہوتا ہے.جہیز کی پہلی قسم جسے باپ ازراہ شفقت بلاجبرواکراہ اپنی بیٹی کو رخصتی کے وقت دیتاہے ,جائز ہے.بشرطیکہ حد اعتدال سے متجاوز نہ ہو,اس کے جواز کے تئیں جہیز فاطمی کو بطور سندپیش کیاجاسکتاہے.لیکن جہیز کی دوسری قسم کی شریعت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ,جسے ایک نحیف وناتواں باپ اپنی بیٹی کو طوعا وکرہادیتاہے,اور یہ کئی ایک فسادات ومنکرات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے فاسد وناجائز ہے.
چند فسادات ومنکرات درج ذیل ہیں :.پہلافساد:یہ جہیز ہندو سماج کی اختراع ہے.جس کی بنا عورت کی تحقیر وتذلیل پر ہےجو اسلامی نقطۂ نظر کے متصادم ہے.
دوسرافساد:یہ جہیز بالجبر وصول کیاجاتاہے,لہذا یہ ظلم صریح اور باطل طریقے سے کسی کا مال کھانے کے دائرے میں آئےگا.اور شریعت اسلامیہ میں ظلم وتعدی اور باطل طریقے سے کسی کا مال کھاناسخت حرام ہے,قرآن واحادیث میں اس کے تعلق سے شدید وعیدیں وارد ہوئی ہیں. چناں چہ اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتاہے:”اے ایمان والو!آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے نہ کھاؤ,لین دین باہمی رضامندی سے ہونی چاہیے اور نہ اپنے آپ کو قتل کرو,بے شک اللہ تعالی تم لوگوں پر مہربان ہے.”
تیسرافساد:اسی طرح لڑکی کے باپ سے اس قسم کا جہیز اور شادی کی شرط پر متعینہ رقم رشوت کے خانہ میں آتی ہے ,رشوت خور کے بارے میں بھی سخت وعیدیں وارد ہیں.رشوت لینے والا رشوت دینے والا دونوں گنہگار ہیں.چناں چہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:رشوت لینے والادینے والادونوں جہنمی ہیں.
چوتھافساد: یہ کہ جہیز کی وجہ سے نکاح میں تاخیر ہوتی ہے جوکہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے.اورسنت نبوی میں رکاوٹ پیداکرنا سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے قطع تعلق کرنے کےمرادف ہے.جیساکہ سرورکائنات صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”نکاح میری سنت ہے جو میری سنت سے اعراض کرے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں”.
انسدادی تدابیر مذکورہ کلمات سے یہ متحقق ہوگیا کہ ہمارے معاشرے میں مروجہ جہیز سرتاپاشناعت وقباحت کی جڑہے لیکن اس کی انسدادی تدابیر کیا ہوسکتی ہیں ,اس کی روک تھام کے لیے معاشرے میں دینی ماحول پیداکرکے اسلامی احکام کی عظمت واہمیت قلوب واذہان میں اتارنا ضروری ہے.اس بات کو دل ودماغ میں راسخ کیا جائے کہ مومن کی سرخروئی اور کامیابی اسی میں ہے کہ خدا کی قائم کی ہوئی حدود کے اندر رہ کر جائز وبہتر طور پر اپنی دنیا بھی خوشحال بنائے اور آخرت بھی سنوارے.نوجوان نسل میں خیشیت الہی پیدا کی جائے ,متاع دنیا اور ثواب آخرت سے لاتعلقی کو قطع کیاجائے,اس پر طرہ یہ کہ یہ ذہین نشیں کرایاجائے کہ نکاح ایک پاکیزہ رشتہ ہے جو نسل انسانی کی حفاظت وبقااور انسان کے فطری جذبات کی مناسب تحدید کے لیے وضع ہوا ہے.اس لیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکی کے دین دیکھ کر نکاح کرنے کاحکم دیا ہے نہ کہ مال,خوبصورتی اور خاندان کر,کیوں کہ دولت وثروت ,حسن وجمال اور حسب نسب پرمبنی رشتہ فتنہ میں مبتلا کرسکتاہے,لیکن دیندار عورت ہرمحاذ پر شوہر کی فرمانبردار اور وفاداری کرے گی.ایک اچھامعاشرہ تشکیل پاتاہے.
باری تعالی سے دعاہے کہ ہمارے مسلم نوجوانوں میں سمجھ عطافرمائے اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق نکاح کرنے کی توفیق عطافرمائے.آمین!بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم
*ازقلم *:نرگس خان رضویہ سیوان*

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *