اللہ کا شیر
اللہ کا شیر
تحریر: غلام مصطفےٰ نعیمی ، روشن مستقبل دہلی
نامہ بر بہ کمال ادب سامنے کھڑا تھا۔نہایت احترام کے ساتھ دعوت نامہ پیش کیا۔انکار ممکن تھا مگر خلاف مروت مانا جاتا کہ بلانے والے نے بصد احترام دعوت نامہ بھیجا تھا۔شاہانہ استقبال ہوا۔قیام کا بہترین بندوبست تھا، انتظار کی گھڑیاں گزرتے دیر نہیں لگی
یہاں تک کہ وقت ملاقات قریب آگیا۔ہوشیار باش کی آواز گونجی اور دربار میں موجود ہر شخص کا سر احترام سلطان میں جھکتا چلا گیا۔جھکے ہوئے سروں کے جلو میں شاہانہ تمکنت کے ساتھ والی سلطنت تخت شاہی پر متمکن ہوا۔ہرکاروں نے شیخ کی بارگاہ میں عرض کی؛ والی سلطنت آپ کو یاد فرماتے ہیں۔
شیخ نے ایک نگاہ قریب کھڑے لوگوں پر ڈالی۔چہروں کے بدلتے تاثرات کسی انہونی کے خیال سے پَل پَل بدل رہے تھے۔خاموش ماحول میں بھی دھڑکنوں کا شور صاف سنائی دے رہا تھا۔انجانے خوف سے دل بیٹھے جارہے تھے لیکن اس مرد قلندر نے شاہی پیغام سنا اوربہ کمال اطمینان چلنے کے لیے کھڑے ہوگئے۔پاؤں میں لغزش نہ چہرے پر خوف!
ہمیشہ کی طرح ایک دل آویز مسکراہٹ کے ساتھ چاہنے والوں کو دیکھا۔نہ جانے اس مسکراہٹ میں کون سا جادو تھا کہ دھڑکتے دلوں کو قرار آگیا۔خدا جانے اُن آنکھوں میں کون سی تاثیر تھی کہ خوف سے لرزاں طبیعتیں پر سکون ہوگئیں۔نگاہوں سے نگاہیں ملیں تو فلسفہ عشق کی مدّھم سی آنچ روح میں اترتی چلی گئی اور دلوں کو قرار آگیا۔
اب سارے محبین اس فلسفے کو سمجھ چکے تھے جس کی بنا پر شیخ مطمئن تھے، اور وہ فلسفہ عشق تھا: یہ تو راہ شوق جنون ہے، اسے راحتوں کی سزا نہ دے کہ وہ عشق بھی کوئی عشق ہے،جو اذیتوں میں مزہ نہ دے
والی سلطنت اپنے تخت پر براجمان ہے۔ فاصلہ چند قدموں کا تھا مگر درمیان میں ایک ایسا دروازہ بنایا گیا تھا جس میں سر جھکا کر ہی داخل ہوا جاسکتا تھا۔یوں بھی شاہ کے سامنے سر جھکانا دربار کا معمول تھا۔لوگ منتظر تھے کہ شاہانہ جلال سے گھبرا کر شیخ سرنگوں ہوجائیں گے۔بس اسی نظارے کے انتظار میں ایک ایک ساعت ان کے لیے بھاری ہورہی تھی۔خدا خدا کرکے شیخ اس دروازے تک پہنچے، ایک نگاہ ڈالتے ہی سمجھ گئے کہ سر جھکائے بغیر آگے جانا ممکن نہیں ہے مگر فلسفہ خودی سر چڑھ کر بول رہا تھا:
وہ اور ہیں جو شاہ کی تعظیم کو جھکیں
جھک جاؤں در پہ غیر کے وہ سر نہیں ہوں میں
سب کی نگاہیں اس مرد قلندر پر تھیں، آخر اس مرد خدا نے دروازے میں اپنا پاؤں رکھا بدن کو قدرے نیچے اور سر کو اٹھائے ہوئے داخل دروازہ ہوگئے۔یہ نظارہ دیکھ کر سلطان کی تیوریاں چڑھ گئیں۔آج تک کسی نے شہنشاہ کے سامنے پاؤں دکھانے اور سر اٹھانے کی جرأت نہیں کی تھی لیکن آج ایک فقیر نے درباری روایات کو پاؤں تلے روند دیا تھا۔بادشاہ نے غضب ناک لہجے میں کہا:
اتنی بڑی گستاخی !
شیخ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے سامنے سجدہ ریز ہونا سلطنت کی قدیم روایت ہے، خیر چاہو تو سر جھکا کر سر بچا لو ورنہ انجام اچھا نہیں ہوگا۔”
مصاحبین سوچ رہے تھے کہ اب شیخ کو جائے فرار نہیں ملے گی اب تو سر جھکانا ہی پڑے گا مگر اچانک شیخ کی پر جلال آواز گونجی:
“سلطان! یہ سَر صرف خدا کے آگے جھکتا ہے، اُس کے سوا دنیا میں کوئی ایسی طاقت پیدا نہیں ہوئی جو فقیر کے سر کو بندے کے سامنے جھکنے پر مجبور کر سکے۔”
شیخ کی آواز میں عجیب سا جلال تھا، تیور بدل چکے تھے۔اہل دربار نے نگاہ اٹھا کر دیکھا مگر شخصیت کے رعب نے نگاہیں جھکانے پر مجبور کردیا۔ادنی سی گستاخی پر قتل کرانے والا جہانگیر جیسا طاقت ور حاکم بھی عاجز وساکت ہو کر رہ گیا۔
جانتے ہیں دربار شاہی میں والی سلطنت کو ٹھوکروں پر رکھنے والا مرد خدا کون تھا؟؟
یہ مرد مومن، امام ربانی، مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندی علیہ الرحمہ تھے۔
جن کے فاروقی جلال نے ملت اسلامیہ کو اس وقت سہارا دیا جب تیموری جاہ وجلال کے پیکر شہنشاہ نورالدین سلیم المعروف جہاں گیر نے خود کو سجدہ تعظیمی کرانا شروع کیا۔اس کے غیر شرعی اقدامات کچھ اس طرح تھے:
🔸 سجدہ تعظیمی کا رواج
🔹ذبیحہ گاؤ پر پابندی
🔸 مساجد کی بے حرمتی
🔹مذہبی تعلیم کی ممانعت
🔸جزیہ کی منسوخی
🔹مختلف مذہبی احکام پر پابندیاں
جہاں گیری فتنے کے خلاف امام ربانی نے علم تجدید بلند کیا۔رگوں میں فاروقی خون تھا اس لیے شخصیت میں وہی جاہ وجلال تھا جو ان کے مورث اعلیٰ کی شناخت وپہچان تھا۔جہانگیر نے قید وبند کے ذریعے آواز دبانے کی کوشش کی مگر وہ مجدد ہی کیا جو تجدید دین سے پھر جائے آپ نے سنت یوسفی ادا کرتے ہوئے جیل ہی کو جائے تبلیغ بنا دیا۔
شیخ مجدد کی عزیمت نے جہانگیر کے نخوت وغرور پر کاری ضرب لگائی یہاں تک کہ اُس نے آپ کی رہائی کا حکم دیا اور آپ سے معافی کا خواست گار ہوا۔جلال فاروقی جمال میں بدل گیا، معاف کیا اور غیر شرعی رسومات کے مٹانے کا حکم دیا۔بادشاہ نے بسر وچشم قبول کیا اور اُسی وقت سجدہ تعظیمی کو یکلخت منسوخ کر دیا گیا۔
ذبیحہ گاؤ کا فرمان جاری ہوا۔
خود بادشاہ نے اپنے ہاتھ سے ایک گائے ذبح کی۔
دربار کے قریب ہی عالی شان مسجد تعمیر ہوئی۔
دینی مکاتب ومدارس کی اجازت ہوئی۔
جزیہ پھر سے نافذ کیا گیا۔
شہر شہر قاضی ومحتسب مقرر ہوئے۔
جملہ خلاف شرع قانون رد کئے گئے۔
_آج کچھ بے فیض خانقاہی اور آوارہ مزاج صوفی جہانگیر کی اتباع میں سجدہ تعظیمی رائج کرنے میں لگے ہیں۔کاسہ گدائی لئے حکمرانوں کی چوکھٹ پر جبیں سائی کرتے ہیں۔مشرکین کی خوش نودی کے لیے ہولی کھیلتے ہیں۔روافض سے یاریاں نبھاتے ہیں۔بدعتوں کو فروغ دینے میں جی جان سے جٹے ہیں۔اصحاب رسول پر سب وشتم کرتے ہیں، طرفہ تماشا یہ کہ شیخ مجدد کا نام لے کر امیج پالش کرنے کی ناکام کوشش بھی کرتے ہیں تاکہ ان کی کج روی اور فکری آوارگی پر پردہ پڑا رہے۔لیکن وہ بھول رہے ہیں کہ امام ربانی کا قلمی سرمایہ ختم ہوا ہے نہ ان کے فکری وارثین!
اچھی طرح یاد رکھیں!
🔹رافضیوں کے رد میں سب سے پہلی کتاب “رد روافض” مجدد الف ثانی ہی نے لکھی۔
🔸 سجدہ تعظیمی کی پر زور مخالفت کی۔
🔹فضیلت شیخین کی تبلیغ فرمائی۔
🔸 اہل بیت اور اصحاب رسول کی تعظیم کو لازمی قرار دیا۔
🔹کافروں سے موالات کو سختی سے منع کیا۔
🔸 معبودان ہنود کے ماننے کو باطل قرار دیا۔
🔹گستاخان رسالت سے نرمی کو مداہنت اور منافقت قرار دیا۔
🔸 بدمذہبوں کی صحبت سے بچنے کا حکم دیا۔
یہ سب شیخ مجدد کے وہ کارنامے ہیں جن کی بنیاد پر آپ کو مجدد کہا گیا۔جن کی تبلیغ وترسیل کے لیے امام ربانی وقت کے طاقت ور سلطان تک سے ٹکرا گئے تھے۔جو کام آپ کی تجدیدی خدمات کا بنیادی حصہ ہیں آج اُنہیں کاموں کی مخالفت کرنے والے آوارہ مزاج خود کو شیخ مجدد سے منسوب کرنے میں ذرا غیرت محسوس نہیں کرتے۔اگر شیخ مجدد اِس زمانے میں ہوتے تو ان آوارہ مزاج صوفیوں اور بے فیض خانقاہیوں کا “فاروقی علاج” فرماتے۔
آج ہمارے امام ربانی، مجدد الف ثانی کے وصال کو 410 سال ہونے کے آئے لیکن ان کی فکر آج بھی متلاشیان حق کے لیے مینارہ نور بنی ہوئی ہے۔ان کی تربت آج بھی خیر وبرکت کا منبع ہے۔ان کی تصنیفات آج بھی ملت اسلامیہ کی پاسبانی کا فریضہ انجام دے رہی ہیں۔روح اقبال آج بھی ہمیں یہ پیغام سنا رہی ہے:
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نَفس گرم سے ہے گرمی احرار
وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہبان
اللہ نے بر وقت کیا جس کو خبر دار
Pingback: شدید نامناسب علیہم الرحمہ ⋆ اردو دنیا تحریر: غلام مصطفےٰ نعیمی
Pingback: ناموس رسالت اور فکر سرواں ⋆ غلام مصطفےٰ نعیمی