جانوروں سے محبت کی آڑ میں انسانوں کو خطرے کے حوالے کرنا دانش مندی نہیں
ہوتا ہے شب وروز تماشہ مرے آگے جانوروں سے محبت کی آڑ میں انسانوں کو خطرے کے حوالے کرنا دانش مندی نہیں
ڈاکٹر غلام زرقانی
چیئر مین حجاز فاؤنڈیشن ، امریکا
گذشتہ ہندوستان کے سفر میں بذریعہ سڑک جمشیدپور سے چائباسہ ایک پروگرام میں شرکت کے لیے جانا ہوا۔واپسی میں خاصی تاخیر ہوگئی اور اقامت گاہ پہنچتے پہنچے رات کے ایک بج گئے ۔
صبح چوں کہ حجاز فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام’ حجاز اکیڈیمی ‘کے نام سے ایک عظیم الشان درس گاہ کے سنگ بنیاد کے جلسے میں جانا تھا، اس لیے ہمارے بعض احباب نے مشورہ دیا کہ ساتھیوں کو فلاں موڑ کے کنارے اتار دیا جائے ، وہ بہ آسانی وہاں سے پیدل اپنی رہائش گاہوں تک چلے جائیں گے ۔ اس طرح مجھے اپنے مستقرتک پہنچنے میں قدرے کم تاخیر ہوگی۔ بات مناسب تھی
اس لیے میں خاموش رہا کہ اتنے میں ایک صاحب سابقہ حادثہ کی روداد سنانے لگے ۔ وہ کہتے ہیں کہ دو تین ہفتوں پہلے رات کے دوبجے کسی پروگرام سے واپس ہورہے تھے ۔ مرکزی شاہراہ پر اتر کر ہم دونوں پیدل چلنے لگے کہ اتنے میں کئی آوارہ کتوں نے ہم پر منظم حملہ کردیا۔ ایک ہم پر دائیں جانب سے لپکتا اور دوچاربائیں جانب سے ۔ ہم ڈرے سہمے چیختے چلاتے کہ وہ بھاگ جائیں ، لیکن تھے وہ بہت ’باہمت‘، اس لیے وہ کسی طور ہمیں چھوڑ نہیں رہے تھے ۔
حقیقی تصوف اسلام کی سچی تصویر ہے
ہمارے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹ گئے ، سڑک کے کنارے روانی آب کے لیے بنائی گئی نالی میں جب کتے گرتے توغلاظت کے چھینٹے دامن تک پہنچ جاتے ۔ بہر کیف، چیخ وپکار کی آواز سن کر کسی شخص کی آنکھ کھل گئی اور وہ لاٹھی لے کر مدد کے لیے آپہنچا توہماری جان میں جان آئی۔ یہ سنتے ہی میں نے ڈرائیور سے کہا کہ آپ سب کو اُن کے گھر کے سامنے اتاریں ، خواہ اس میں وقت کتنا ہی کیوں نہ لگ جائے۔
بات آئی گئی ختم ہوگئی ، تاہم اِدھر دوچار مہینوں میں اخبارات کے دوش پر میں نے کئی حادثات کی رودادیں پڑھی ہیں اور سماج ذرائع ابلاغ پر کئی چھوٹی چھوٹی کلپ بھی دیکھی ہے ۔ ایک کلپ میں دیکھا کہ سڑکوں پر ٹہلتے ہوئے کتے بچوں پر حملہ کرتے ہیں اور انھیں شدید نقصانات پہنچارہے ہیں ۔
کہیں یہ دیکھا کہ آوارہ گھومتے ہوئے بیل چھوٹے بچے پر ٹوٹ پڑے ہیں ، اور کہیں یہ دیکھا کہ گائے اپنی سینگ پر ایک بوڑھی عورت کو اٹھاکر فضا میں بلند کرتی ہے اوردھڑام سے نیچے پھینک دیتی ہے اور پھر اسے دیوار کے ساتھ ڈھکیل کر ضرب بھی لگاتی ہے ۔
اسی طرح ایک کلپ ایسی بھی گزری کہ ایک خاتون اپنی چھوٹی بچی کو اسکول لے کر جارہی ہے اور راستے میں ایک گائے نے اسے بری طرح تختہ مشق بنایا ہواہے ۔ گائے کبھی دائیں ، کبھی بائیں اور کبھی پوری قوت سے سینگ کے زور سے الٹ پلٹ کررہی ہے اور بچی چیخے جارہی ہے ۔ والدہ مدد کے لیے پکار رہی ہیں کہ اتنے میں پاس پڑوس کے لوگ گھروں سے نکل کر مدد کے لیے دوڑ پڑتے ہیں اور سخت مزاحمت کے بعدکسی طرح بچی کو گائے کی گرفت سے آزاد کرانے میں کام یاب ہوتے ہیں ۔
جہاں تک رہی بات گائے کی ، تویہ اکثریتی مذہب میں مقدس سمجھی جاتی ہے ، اس لیے شاید اس حوالے سے کچھ عرض کرنا موجودہ حالات میں مناسب نہیں ۔ تاہم اسے مقدس سمجھنے والوں کو اس قدر توکرنا چاہیے کہ وہ انسانوں کے لیے آزار نہ بن جائے ۔
یورپ وامریکا میں کہیں بھی چلے جائیں ، گائے ، بیل ، مرغی اور بکری راستے میں گھومتے ہوئے نہیں دکھائی دیتے۔ ضابطے کے مطابق لوگ انھیں اپنے احاطے کے اندر رکھتے ہیں ۔ کیا ہی بہتر ہوکہ ارباب اقتدار غور کریں اور مویشیوں کی دیکھ بھال کے لیے قابل قبول ضابطے بنائیں تاکہ اشرف المخلوقات جانوروں کے دست برد سے محفوظ رہ سکیں ۔
بہر کیف، میرے استفسار پر بتایا گیا کہ مرکزی حکومت میں سابقہ منسٹر مینکاگاندھی نے جانوروں کے حقوق کے لیے سخت ضابطے بنائے تھے، جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ جانوروں کی نگہداشت کرنے والے محکمے اب گلیوں میں پھرتے ہوئے کتوں کو پکڑیں گے اور پھر انھیں ناقابل تولید بناکر دوبارہ چھوڑ دیں گے ۔ اس طرح گذشتہ کئی سالوں سے پورے ملک میں متذکرہ ضابطے پر عمل ہورہاہے ۔
آوارہ گھومتے ہوئے کتے پکڑے جاتے اور چھوڑدیے جاتے ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کتوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی اور اب صورت حال نہایت ہی تشویش ناک ہوگئی ہے ۔
ویسے تو دن کے اجالے میں بھی گلیوں میں پھرنے والے کتوں سے راہ گیروں کی آمد ورفت متاثر رہتی ہے ، تاہم رات کے سناٹے میں جب بیسیوں کتے کسی نکڑ پر منڈلاتے پھر رہے ہوں توخوف کے مارے انسان ٹھٹک کر رہ جاتاہے ۔
کبھی تویہ باہم لڑتے ہوئے خوفناک آوازیں نکالتے ہیں ، کبھی ایک دوسرے کو دوڑاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور کبھی کسی انسان پر بھی لپک جاتے ہیں ۔آپ اندازہ لگائیں کہ ایسے حالات میں نصف شب کے سناٹے میں تنہاپیدل چلنا کس قدر دشوار ہے ؟
میں نے سنا ہے کہ کتوں کے حوالے سے متذکرہ ضابطہ اس لیے بنایا گیا ہے کہ جانوروں کے ساتھ ہمدردی کرنی چاہیے ۔ تاہم زمینی حالات کے پیش نظر یہ ثابت ہورہاہے کہ متذکرہ ضابطہ کسی طور سود مند نہیں ہے ۔
اول تویہ کہ جانوروں کی نگہداشت کے ذمہ داردن بھر بھاگ دوڑ کر آٹھ دس کتے پکڑلیں اور انھیں ناقابل تولید بناکر دوبارہ آبادیوں میں چھوڑ دیں ، تویہ کیوں کر ممکن ہے کہ کتوں کی تعداد کم ہوجائے گی ؟
کتوں کی افزائش نسل جس قدر تیزی سے ہوتی ہے، اسے نگاہ میں رکھتے ہوئے متذکرہ ضابطہ نہایت ہی فضول دکھائی دیتاہے ۔اورپھر عرض کروں گا کہ متذکرہ ضابطہ صرف کتے کے لیے کیوں ہے ؟
کیا سانپ، بچھو، مچھر، کھٹمل اور خطرناک کیڑے حیوانات میں سے نہیں ہیں ؟ اور پھر وبائی امراض پھیلانے والے چھوٹے چھوٹے کیڑے بھی تو حیوانات ہیں ، ان کے ساتھ ہمدردی کیوں نہیں روا رکھی جاتی ؟
ہونا تو یہ چاہیے کہ تمام حیوانات کے مارنے پر پابندی عائد کردی جائے ، پھر تماشہ دیکھیے کہ صورت حال کیا ہوگی ؟
بی بی سی کے اندازے کے مطابق ہر سال تقریبا ایک لاکھ لوگ سانپ کے کاٹنے سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔
اسی طرح مچھر سے تقریبا سات لاکھ لوگ لقمہ اجل بنتے ہیں اور وبائی امراض پھیلانے والے کیڑے تو قیامت صغریٰ بپاکردیتے ہیں ، جس کی مثال کووڈ کی صورت میں ہنوز ہمارے حاشیہ ذہن میں تازہ ہے ۔
صاحبو! جانتے ہیں اس طرح کے ضابطے کیوں بہ آسانی بن جاتے ہیں ؟
یہ صرف اس لیے بنتے ہیں کہ اسے بنانے والوں کو کبھی بھی اِن کے مضرات سے واسطہ نہیں پڑتا۔کیا یہ کہنے کی بات ہے کہ ’صاحبہ‘ شہرت ودولت کے اس مقام پر فائز ہیں ، جہاں انھیں اپنی کار سے اترکر پیدل چلنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ۔ ان کی کار حفاظتی دستوں کے جلو میں رہائش گاہ کے اندر تک پہنچ کر رکتی ہے۔
اے کاش وہ کبھی اپنے علاقے کی گلیوں میں چند قدم پیدل چلنے کی کوشش کرتیں ،توانھیں محسوس ہوجاتا کہ جانوروں سے محبت کی آڑ میں انسانیت کی تذلیل کسی طور مناسب نہیں ۔انھیں سمجھنا چاہیے کہ جانور انسان کے لیے ہیں ، نہ کہ انسان جانوروں کے لیے ۔ سچی بات یہ ہے کہ ایوان حکومت میں بیٹھ کر ضابطہ بنالینا بہت آسان ہے ، لیکن اس کے اجراکے بعد ممکنہ عواقب ومضرات کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے ۔
بہر کیف، ضرورت اس بات کی ہے کہ مقامی ، ریاستی اور مرکزی ذمہ داران عوامی مسائل پر توجہ دیں اور جو غلطی پہلے کی جاچکی ہے ، اسے جاری نہ رکھیں ، بلکہ دیر سے ہی سہی، اب اسے زمینی حالات وواقعات کی روشنی میں تبدیل کریں اور انسانوں کو سکون واطمینان سے رہنے کے مواقع فراہم کریں ۔
Pingback: تھوڑا سا گلہ بھی سن لے ⋆ ڈاکٹر غلام زرقانی