امام احمد رضا فاضل بریلوی ایک نظر میں
امام احمد رضا فاضل بریلوی ایک نظر میں
ازقلم : مفتی محمد شمس تبریزقادری علیمی
امام احمدرضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی ولادت باسعادت: شہر بریلی ،محلہ جسولی میں ۱۰/شوال المکرم ۱۲۷۲ھ مطابق 14/ جون 1856ء ، بروز شنبہ ظہر کے وقت ہوئی۔
آپ کا پیدائشی نام ’’محمد‘‘ اور تاریخی نام ’’المختار‘‘ہے۔جد امجد حضرت مولانا شاہ رضا علی خان نے ’’ احمد رضا‘‘ تجویز فرمایا۔
والدبزرگ وار:
حضرت مولانانقی علی خان اوردادا:حضرت مولانا شاہ رضا علی خان ہیں۔ آپ کی تعلیم کاآغاز اس طرح ہواکہ بزرگوں کے طریقے کے مطابق بسم اللہ خوانی کی رسم ادا کی گئی۔ اور دولت کدہ پرہی آپ نے ایک مولوی صاحب سے ناظرہ قرآن مکمل فرمایا۔
آپ کواللہ تعالیٰ نے ایسی ذہانت عطافرمائی کہ جس استاذ کے پاس ابتدائی کتب پڑھاکرتے تھے ایک دومرتبہ دیکھ کرکتاب بند کر دیاکرتے اورجب سبق سناتے توحرف بحرف لفظ بہ لفظ سنادیاکرتےتھے۔ روزانہ یہ حالت دیکھ کراستاذ سخت تعجب کیاکرتے ۔
ایک دن استاذ بول پڑے کہ’’ احمد میاں ! یہ تو بتاؤ کہ تم آدمی ہو یاجن ؟ کہ مجھ کو پڑھاتے دیر لگتی ہے مگر تم کو یاد کرتے دیر نہیں لگتی‘‘؟ آپ کی ذہانت کا عالم یہ تھاکہ استاذ سے کبھی چوتھائی کتاب سے زیادہ نہیں پڑھی، ایک چوتھائی کتاب استاذ سے پڑھنے کے بعد بقیہ تمام کتاب خود ہی یاد کرکے سناد یاکرتے تھے۔
صرف ساڑھے تین سال کی عمر شریف میں ایک بزرگ سے فصیح وبلیغ عربی زبان میں گفتگو کی۔ ۱۲۷۶ھ/مطابق ۱۸۶۰ء/ میں چار سال کے ہوئے تو آپ نے ناظرہ قرآن ختم کرلیا۔
۱۲۷۸ھ/مطابق ۱۸۶۲ء/ بارہ ربیع الاول عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پرچھ سال کی عمر میں آپ نےایک بڑے مجمع میں سامعین کے روبرو پہلا خطاب فرمایا۔ ’’ہدایۃ النحو‘‘ علم نحو کی مشہور درسی کتاب کی عربی شرح آٹھ سال کی عمر مبارک ۱۲۸۰ھ/ مطابق ۱۸۶۴ء/ میں لکھی ۔عمر کے آٹھویں سال ۱۲۸۰ھ/ مطابق ۱۸۶۴ء/میں وراثت کاپہلافتویٰ تحریر فرمایا۔
دس سال کی عمر۱۲۸۲ھ/مطابق ۱۸۶۶ء/ میں ’’مسلم الثبوت‘‘ پرحاشیہ قلمبند کیا۔صرف تیرہ سال دس مہینے کی عمر شریف ۱۲۸۶ھ/ مطابق ۱۸۶۹ء/ میں آپ نے جملہ علوم وفنون درسیہ سے فراغت حاصل کی جس کے بعددستار فضیلت عطا کی گئی۔ اوراسی سال،۱۴/شعبان المعظم ۱۲۸۶ھ/ مطابق ۱۸۶۹ء/ میں مسند افتا کی ذمہ داری باضابطہ طور پر آپ نے قبول فرمائی۔
تقریباً بیس سال کی عمر ۱۲۹۱ھ/مطابق ۱۸۷۴ء/ میں افضل حسین کی بڑی لڑکی ارشاد بیگم سے عقد مسنون ہوا۔
جن سے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی سات اولادیں ہوئیں۔ دولڑکےاورپانچ صاحبزادیاں ۔(۱)بڑے لڑکے حضرت مولانا حامد رضا خان ،المعروف حجۃ الاسلام کی ولادت ربیع الاول، ۱۲۹۲ھ/ مطابق۱۸۷۵ء/ میں ہوئی (۲)اورچھوٹے صاحبزادےحضرت مولانا مفتی مصطفیٰ رضا خان معروف بہ مفتی اعظم ہند۲۲/ذی الحجہ ۱۳۱۰ھ/ مطابق ۱۸۹۲ء/ میں پیداہوئے۔
خداداد صلاحیت وقابلیت کی بناپرآپ نے تمام علوم نقلیہ وعقلیہ میں مہارت تامہ حاصل کرلیں۔علوم طریقت ومعرفت کے حصول کے لیے جمادی الاول ۱۲۹۴ھ / مطابق ۱۸۷۷ء/ میں والد بزرگ وار کے ہمراہ مارہرہ شریف حاضر ہوئے اور سیدنا سرکار آل رسول احمدی رحمۃ اللہ علیہ کی شرف بیعت سے مشر ف ہوئے اور اسی محفل میں پیرومرشد برحق نے تمام سلاسل کی اجازت وخلافت عطافرمائی ۔
آپ پہلی مرتبہ ۱۲۹۶ھ/ مطابق ۱۸۷۸ء/ میں حج بیت اللہ وزیارت روضۂ رسول اللہ سے مشرف ہوئے۔اسی سفر حج کے موقع پر ۱۲۹۶ھ/ مطابق ۱۸۷۸ء/ میں مکہ معظمہ میں آپ کوضیا الدین احمد کالقب دیاگیا۔۱۳۲۰
ھ/مطابق ۱۹۰۲ء/ میں “المعتمد المستند” کی تصنیف وجود میں آئی۔ ۱۳۲۲ھ/ مطابق ۱۹۰۴ء/ میں ایک عظیم علمی وفقہی انسائیکلو پیڈیا ’’فتاویٰ رضویہ ‘‘کی شکل میں منصہ شہودپر ظاہرہوا۔تشنگان علوم نبویہ کے لیے ۱۳۲۲ھ/مطابق ۱۹۰۴ء/ میں دارالعلوم منظر اسلام کی بنیاد ڈالی گئی۔ذی القعدہ ۱۳۲۳ھ/ مطابق ۱۹۰۵ء/ میں دوسری مرتبہ حج کے لیے تشریف لے گئے۔
صفر المظفر ۱۳۲۴ھ/مطابق ۱۹۰۶ء/ میں قیام مکہ کے دوران علم غیب مصطفیٰ ﷺ سے متعلق بدعقیدوں کے اعتراضات کے مدلل جوابات’’الدولۃ المکیہ‘‘کی صورت میں وہ بھی حالتِ بخار میں صرف دس گھنٹے میں تصنیف فرمائی۔۱۳۲۴ھ/مطابق ۱۹۰۶ء/ میں ہی ’’حسام الحرمین‘‘ تصنیف کی گئی۔ ۱۳۳۰ھ/مطابق ۱۹۱۱ء/ میں قرآن مقدس کاایمان افروز ترجمہ ’’کنزالایمان‘‘ منظر عام پرآیا۔
آپ نے اپنی قیمتی زندگی کا سارا حصہ اسلام کی حمایت ،مسلک اہل سنت کی ترویج واشاعت اور علوم وفنون کی خدمت میں گزاردیا۔آخر وہ ساعت موعود آگئی جس کاہر نفس کو انتظارہے۔ سن عیسوی کے اعتبار سے ۶۵/سال اورباعتبارسن ہجری ۶۸/برس کی عمر میں بروز جمعہ،بوقت: ۲/ بج کر ۳۸/منٹ پر، ۲۵/ صفر المظفر ۱۳۴۰ھ مطابق نومبر ۱۹۲۱ء کو یہ عاشقِ رسول داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اپنے خالق سے جاملے۔
(بحوالہ:حیات اعلیٰ حضرت،ماہنامہ المیزان کاامام احمد رضانمبر ،سیرت اعلیٰ حضرت)
ازقلم: مفتی محمد شمس تبریزقادری علیمی
(.ایم.اے.) مدارگنج، ارریہ. بہار۔
مجاہد انقلاب حضرت مفتی عنایت احمد کاکوروی علیہ الرحمہ
معزز علماے اہل سنت سے مودبانہ گزارش
مجاہد آزادی علامہ فضل حق خیر آبادی
جنگ آزادی 1857ء کا روشن باب : قائد انقلاب علامہ فضل حق خیرآبادی
جنگ آزادی میں علماے کرام کی سرگرمیاں
جنگ آزادی میں مسلمانوں کی حصہ داری
شمالی ہندوستان کے خطئہ روہیل کھنڈ کی ممتاز و روحانی
شخصیت حضرت حافظ شاہ جمال اللہ نقوش پارینہ
Pingback: امام احمد رضا اورجلسہ وعرس میں عورتوں کی شرکت ⋆ اردو دنیا از:شمس تبریز علیمی
Pingback: تحفظِ ناموس رسالتﷺ کے لیے اعلیٰ حضرت نے مثالی خدمت انجام دی ⋆ اردو دنیا
Pingback: بد مذہبوں سے دوری کیوں ضروری ہے ⋆ فرحان المصطفے نظامی