علامہ یٰسین اختر مصباحی قائدِ اہل سنت کے خطوط کی روشنی میں
علامہ یٰسین اختر مصباحی قائدِ اہل سنت کے خطوط کی روشنی میں
( طفیل احمد مصباحی )
اہل سنت و جماعت کی عظیم اور مرکزی دانش گاہ جامعہ اشرفیہ ، مبارک پور کے فرزندانِ عالی وقار میں علما و مشائخ ، فقہا و محدثین ، مصنفین و مفکرین اور مناظرین و قائدین کی جو جماعت ابھر کر سامنے آئی
ان میں قائدِ اہل ، مناظرِ اسلام ، رئیس القلم حضرت علامہ ارشد القادری اور رئیس التحریر حضرت علامہ محمد یٰسین اختر مصباحی رحمھما اللہ الباری کی حیثیت متعدد جہتوں سے منفرد و ممتاز ہے ۔ جامعہ اشرفیہ ، مبارک پور کے ان دونوں فرزندوں میں بڑی مناسبت اور فکری ہم آہنگی پائی جاتی ہے ۔ دونوں ایک ہی میکدے کے بادہ خوار تھے ۔
ایک ہی گلشن ( باغِ فردوس ) کے مہکتے گلاب تھے ۔ دونوں استاذ بھائی تھے اور جادۂ دعوت و تبلیغ کے پُر عزم مسافر تھے ۔ عاجزی و خاکساری اور شانِ بے نیازی میں دونوں بے نظیر تھے ۔ ایک رئیس القلم تھے اور دوسرے رئیس التحریر ۔ دونوں اسلامی ادب کے نمائندہ و ترجمان اور مذہبی صحافت کے معزز رکن تھے ۔ دونوں آفاقی ذہن و دماغ کے مالک اور وسعتِ فکر و نظر کے حامل تھے ۔
ہاں ! عمر ، تجربہ اور سینئرٹی اور جونیئرٹی کے فرق کے ساتھ دونوں میں ایک بڑا فرق یہ تھا کہ ایک کی نظر انفس و آفاق پر تھی اور دوسرے کی نظر بر صغیر پاک و ہند پر ۔ ان دونوں بزرگوں نے اپنے خامۂ اعجاز رقم سے امتِ مسلمہ کے قبلۂ فکر و نظر درست رکھنے ، مسلمانوں کے حقوق کی بازیابی اور ان کی بر وقت رہنمائی و نمائندگی میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ افسوس کہ ان دو مقتدر ہستیوں میں سے اول الذکر ( حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ ) کی زیارت کا شرف راقم کو حاصل نہ ہو سکا ۔
البتہ ان کی گراں قدر تحریرات اور بیش قیمت کتب و رسائل کے مطالعے سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ۔ حضرت قائدِ اہل سنت کی ادبیت سے لبریز تحریر اور ان کے مخصوص اسلوبِ تحریر نے ہزاروں افراد کی طرح راقم کو بھی بیحد متاثر کیا ہے ۔
جس وقت یہ فقیر ماہنامہ اشرفیہ ، مبارک پور کا مدیر تھا ، اس دوران آخر الذکر ( علامہ یٰسین اختر مصباحی ) سے ملاقات اور بذریعۂ موبائل رابطہ کا شرف حاصل رہا ۔ حالاتِ حاضرہ کی بھر پور عکاسی کرنے والے ان کے بیش بہا ” اداریوں ” نے راقم کو بڑا فائدہ پہنچایا ۔
آج تک حافظے میں یہ بات موجود ہے کہ زمانۂ طالب علمی ( جماعتِ خامسہ ) میں محبِ گرامی حضرت مولانا امتیاز احمد وارثی کلکتوی نے طلبۂ جامعہ اشرفیہ ، مبارک پور کی طرف سے نکلنے والے جداریہ ” پیغامِ اسلام ” کا مجھے مدیرِ اعلیٰ بنا دیا ۔ اداؔریہ پورے رسالہ کی جان اور مجلہ کی روح ہوا کرتا ہے اور مدیرؔ ، رسالے کا سب سے حسّاس فرد اور بیدار مغز انسان ہوتا ہے
جس کی تحریر رسالے کی قدر و قیمت اور معنویت میں اضافہ کرتی ہے ۔ اس وقت یہ سوچ کر کہ ” اداریہ کیسے لکھا جاتا ہے اور اداریے کی نوعیت کیا ہوتی ہے ? ” ۔ علامہ یٰسین اختر مصباحی کے اداریوں کا مجموعہ ” نقوشِ فکر ” کا بالاستیعاب مطالعہ کر بیٹھا اور اس کے بعد ہی سے ان کا مداح بن بیٹھا ۔ ” نقوشِ فکر ” علامہ موصوف کی علمی صلاحیت ، تحریری مہارت ، صحافتی بصیرت ، سیاسی شعور اور ان کی بیدار مغزی کا نمونہ ہے ۔
علامہ یٰسین اختر مصباحی کو اردو کے علاوہ فارسی و عربی زبان میں بھی کمال حاصل تھا ۔ قائدِ اہل سنت حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ گاہے بگاہے کچھ رسالے اور کتابچے آپ کے پاس تعریب ( اردو سے عربی میں منتقل کرنے ) کے لیے بھیجا کرتے تھے ۔ مسند الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی مشہور تصنیف ” الفوز الکبیر فی اصول التفسیر ” کا مصباحی صاحب نے بڑا عمدہ اور سلیس اردو ترجمہ کیا ہے ۔ تقریباً آٹھ سال قبل راقم الحروف نے اس مترجم کتاب پر تبصرہ لکھ کر ماہنامہ اشرفیہ ، مبارک پور میں شائع کیا تھا ۔
جب آپ عرسِ حافظِ ملت کے موقع پر تشریف لائے اور میرے ان سے ملاقات ہوئی تو فرمایا کہ ” ترجمۂ الفوز الکبیر ” پر آپ کا تبصرہ دیکھا ، ماشاء اللہ اچھا لکھا ہے ، لیکن بزرگ اور معمر حضرات کو ” قلم کار ” کے بجائے ” صاحبِ قلم ” لکھنا چاہیے ” ۔ مصباحی صاحب کی اس نصیحت اور تنبیہ کا اثر یہ ہوا کہ بزرگ حضرات کے حق میں ” قلم کار ” جیسی ترکیب راقم بھول کر بھی استعمال نہیں کرتا ۔
در اصل ” قلم کار ” ہر ایرے غیرے لکھاڑی کے لیے بول دیا جاتا اور لکھ دیا جاتا ہے ، لیکن ” صاحبِ قلم ” میں ادب کا پہلو زیادہ پایا جاتا ہے اور یہ بزرگ حضرات کے لیے موزوں و انسب مانا جاتا ہے ۔ بہر کیف ! علامہ یٰسین اختر مصباحی اپنی جماعت کے ایک نامور عالمِ دین ، ممتاز صاحبِ قلم اور عظیم دانش ور تھے ۔
ان کی دینی و علمی و تصنیفی خدمات قابلِ قدر ہیں ۔ ” چھوٹا اپنے بڑے کو بڑا سمجھے تو یہ زیادہ اہمیت کی بات نہیں ہے ، لیکن بڑا شخص کسی بڑے آدمی کی بڑائی کو تسلیم کرے اور ان کے بڑکپن کا اعتراف کرے تو یہ بڑی بات ہے ۔ زیرِ نظر عنوان ” رئیس التحریر : رئیس القلم کے خطوط کی روشنی میں ” پر کچھ باتیں ہدیۂ ناظرین ہیں ۔
قائدِ اہلِ سنت ، رئیس القلم حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ اپنی جماعت کی اس نام ور ہستی اور اولو العزم شخصیات میں ہیں ، جنہوں نے بیک وقت مختلف محاذوں پر اکیڈمک انداز میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں ۔ ان کی ہمہ جہت دینی ، ملی ، علمی ، قلمی ، تصنیفی ، دعوتی ، سماجی ، سیاسی ، ملکی اور تنظیمی و تحریکی خدمات نے پورے عہد کو متاثر کیا ہے ۔ بیسویں صدی کے نصفِ آخر میں اکابرین کو چھوڑ کر ایسی انقلابی فکر رکھنے والی شخصیت دور دور تک نظر نہیں آتی ۔ ان کی خدمات کا دائرہ کافی وسیع ہے ۔
” دعوتِ اسلامی ” اور ” ورلڈ اسلامک مشن ” جیسی عالمی دعوتی تنظیم کی بنیاد رکھنے والے اس شاہین صفت عالم و قائد نے فروغِ دین و دانش اور دعوت و تبلیغ کے حوالے سے ریکارڈ توڑ خدمت انجام دی ہے ۔ حضرت قائدِ اہل سنت کے ملی درد ، جذبۂ تبلیغ ، دینی تڑپ اور امتِ مسلمہ کی فلاح و بہبود کے تئیں جذبۂ بیکراں کا نظارہ دیکھنا ہو تو ان کے مجموعۂ خطوط ” بریدِ مشرق ” کا مطالعہ کریں ۔
پاکستان کے ایک دانش ور کی رائے ہے کہ ان خطوط کو نصاب کے طور پر مدارس میں پڑھایا جانا چاہیے ، تاکہ طالبانِ علومِ دینیہ میں دعوت و تبلیغ کے پاکیزہ جذبات پیدا ہو سکیں ۔ نبیرۂ قائدِ اہل سنت ڈاکٹر خوشتر نورانی صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے بے پناہ محنت و مشقت سے ان خطوط کو جمع کر کے نئی نسل کے علما کو دعوت و تبلیغ کے حوالے سے غور و فکر کے مواقع فراہم کیے ہیں ۔ جزاہ اللہ خیر الجزاء ۔
مکتوب نگاری کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ مکاتیب اپنے اندر بڑی کشش ، جامعیت اور تاریخی و تمدنی معلومات کا خزانہ رکھتے ہیں ۔ اردو ادب کی غیر افسانوی اصناف میں خطوط نگاری اپنی بعض خصوصیات کے لحاظ سے کافی اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے ۔ مکتوب نگاری کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ اپنے اندر بڑی کشش ، جامعیت اور معلومات کا خزانہ رکھتی ہے ۔
خطوط اپنے عہد و ماحول کا آئینہ دار اور دو شخصیتوں ( مکتوب نگار و مکتوب الیہ ) کے باہمی تعلقات و مراسم کو بہتر انداز میں اجاگر کرتے ہیں ، جن سے قارئین دونوں کی فکر و شخصیت کا بخوبی اندازہ لگا لیا کرتے ہیں ۔ خطوط میں شخصیت چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہے اور اپنے جذبات و احساسات کا برملا اظہار کرتی نظر آتی ہے ۔
اس لیے سوانح نگاری و تذکرہ نویسی میں مکاتیب کی حیثیت کلیدی تسلیم کی گئی ہے ۔ وہ عظیم شخصیات جن کے فکر و فن کے بہت سارے گوشے پردۂ خفا میں ہوتے ہیں ، ان کے مکاتیب کے ذریعے ہی نمایاں ہوتے ہیں ۔ ” مکتوب نگاری کی اہمیت ” کے حوالے سے یہ اقتباس ملاحظہ کریں :
خطوط میں ہمارے لیے وہی کشش ہوتی ہے ، جو ہمارے لیے ہمارے دوستوں میں ہوتی ہے ……. ریاضی کے مسئلے ، ایمان کی نفاستیں ، افسانوں کی پرچھائیاں ، یہ سب پردے ہیں ۔ اس لیے اگر آپ اپنے ہمسایہ کی سرگوشیاں سننا چاہتے ہیں ، اسے نمایاں دیکھ کر قہقہہ لگانے کا جذبہ آپ کے دل میں ہو تو ادبی کارناموں کے بجائے اس کے خطوط کا روحانی سفر کیجیے ۔
یہ نسخہ سہل ہے ۔ خطوط میں آپ حکومتوں کا زوال دیکھیں گے ، ان میں بیمار بعض اوقات تندرست معلوم ہوں گے ، غم پسند خوش نظر آئیں گے ۔ جنھیں آپ مغرور سمجھتے ہیں ، انہیں انسان دوست پائیں گے ۔ جنہوں نے میدان فتح کیے ہیں ، ان میں گہری نسائیت ملے گی ۔ خاک کے تودوں میں جذبہ پائیے گا ۔ مردم بیزاری میں نرمی ، نزاکت اور خلوص کی آنچ ہوگی ۔
( اردو نثر کا فنی ارتقا ، ص : ۳۹۹ ، مطبوعہ : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی )
حضرت قائدِ اہل سنت کے خطوط امت مسلمہ کی ہمہ جہت پسماندگی اور جیتے جی قومی و ملی موت کا گویا مرثیہ ہے ۔ آپ کے مکاتیب خالص دعوتی نوعیت کے ہیں ۔ بیسویں صدی کے اواخر میں جماعتی صورتِ حال کیا تھی ، ملکی و عالمی سطح پر مذہبِ اسلام کی منظم دعوت و تبلیغ کے لیے کون سا طریقۂ کار اور لائحۂ عمل اپنایا جائے ، نیز ایک داعی کو کن اوصاف و خصوصیات کا حامل ہونا چاہیے ، یہ ساری باتیں آپ کے خطوط میں موجود ہیں ۔ ایک ایک مکتوب سے آپ کی جذبۂ تبلیغ ، قومی درد ، ملی فلاح و بہبود اور جماعتی شیرازہ بندی کا حال معلوم ہوتا ہے ۔
دعوت و تبلیغ کے لیے جہاں بہت سارے امور کی ضرورت ہے ، وہیں ” صحافت ” بھی ایک بنیادی ضرورت ہے ۔ اس سے پہلو تہی اختیار کر کے مؤثر دعوت و تبلیغ کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا ۔
ذیل کے مکتوب میں قائلِ اہل سنت ، یٰسین اختر مصباحی کو ” الدعوۃ الاسلامیۃ ” کے عربی ایڈیشن کی ادارت کی ذمہ داری قبول کرنے اور جدید عربی ادب میں مہارت حاصل کرنے پر زور دیتے ہیں ، تاکہ عالمی سطح پر اسلام و سنیت کی بہتر نمائندگی ہو سکے ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
مکرمی حضرت مولانا یٰسین اختر صاحب زید کرمہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
بہت دنوں سے آپ نے کوئی خط نہیں لکھا ۔ آپ سے یہ توقع تقریباً نا ممکن ہے کہ آپ سرد مہریوں کے شکار ہو گئے ہوں ۔ بہر حال مشترکہ مکتوب کے علاوہ خصوصی طور پر آپ کو مخاطب بنانے کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ ” الدعوۃ الاسلامیۃ ” کے عربی ایڈیشن کے لیے ادارت کا فرض آپ کو انجام دینا ہے اور یہ خدمت اعزازی نہیں بلکہ ہم
معقول بدل خدمت میں پیش کریں گے ۔ عربی ایڈیشن کے لیے زیادہ تر مواد آپ کو اردو ایڈیشن سے مل جائیں گے ۔ مجھے امید ہے کہ یہ خدمت آپ قبول فرمائیں گے ۔ اس کام کے شروع کرنے میں میرا خیال ہے کہ تین ماہ کا عرصہ لگ جائے گا ۔
اس درمیان آپ جدید عربی ادب میں مزید مہارت حاصل کر لیں ۔ اس سلسلے میں آپ کی ” ہاں ” کا میں شدت سے انتظار کروں گا ۔ غالباً الجامعۃ الاشرفیہ ( مبارک پور ) کے اس عظیم مفاد کو بھی آپ نظر انداز نہ فرمائیں گے کہ ” الدعوۃ الاسلامیۃ ” عربی ایڈیشن کے ذریعے الجامعۃ الاشرفیہ کی آواز سارے عرب ممالک میں پہنچ جائے گی ۔
( بریدِ مشرق ، ص : ۱۵۷ ، ادارہ فکرِ اسلامی ، نئی دہلی )
اسی طرح حضرت قائدِ اہل سنت ۲۸ / مئی ۱۹۷۵ ء کو بریڈ فورڈ ، برطانیہ سے ارسال کردہ مکتوب میں اپنی بے پناہ مصروفیات کا ذکر کرتے ہوئے وقت کے کارواں کا تیزی سے گذرنے اور ایامِ زندگانی کو غنیمت سمجھتے ہوئے دینی و ملی کاموں میں مصروف رہنے کی تلقین کرتے ہیں اور مولانا یٰسین اختر مصباحی کو لکھتے ہیں :
” اسلامک مشنری کالج ” سے متعلق اردو میں دو کتابوں کا مسودہ بھیج رہا ہوں ۔ از راہِ کرم اسے عربی زبان میں منتقل کر کے بھیج دیں ۔ اس کام میں تاخیر سے کام نہ لیں ، فوری ضرورت ہے ۔ آج کل مصروفیات کی یلغار ہے ۔ خدا ہماری مشکل کو آسان کرے ۔ آپ حضرات بھی مستعدی کے ساتھ ( کاموں میں ) دلچسپی لیجیے ۔ وقت کا کارواں ہماری بیداری کا انتظار نہیں کرے گا ۔
( بریدِ مشرق ، ص : ۱۶۰ )
قائدِ اہل سنت ، مصباحی صاحب کو اعتماد کی نظروں سے دیکھتے تھے اور اپنے ہمہ جہت دینی و ملی و تنظیمی کاز کی تکمیل کے لیے ان کو اپنا مشیرِ کار ، ہمنوا اور معتمد گردانتے تھے ۔
ان کے اداریوں کو ” فکر انگیز اور ذہن ساز اداریہ ” کہتے تھے ۔ راقم نے بہت پہلے علامہ موصوف کا یہ حقیقت آمیز جملہ کہیں پڑھا تھا کہ ” اپنی جماعت میں اداریہ یا تو میں لکھتا ہوں یا پھر آپ ( یٰسین اختر مصباحی ) لکھتے ہیں ” ۔ اسی طرح قائدِ اہل سنت ، یٰسین اختر مصباحی کی علمی و ادبی صلاحیتوں کے قائل تھے ، ان کو مزید نکھارنے اور جادۂ تبلیغ کا ایک پُر عزم مسافر بنانے کے لیے مفید مشوروں سے نوازتے تھے ۔ ان کو جدید عربی کے ساتھ انگریزی زبان سیکھنے کی تلقین کرتے تھے ۔
کیوں کہ جدید عربی ادب اور انگریزی زبان میں کمال حاصل کیے بغیر عالمی سطح پر دین و سنیت کی خدمات بحسن و خوبی انجام نہیں دی جا سکتیں ۔ نئی نسل کے علما و مبلغین کو اس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس حوالے سے قائدِ اہل سنت ، مصباحی صاحب کو کچھ اس طرح نصیحت فرماتے ہیں اور ملی فلاح و بہبود کے لیے یوں ذہن سازی کرتے ہیں :
میرے خیال میں آپ کے لیے بہتر ہوگا کہ آپ یہاں ( برطانیہ ) دو سال قیام کر کے انگریزی زبان پر عبور حاصل کر لیں ۔ اس کے بعد جی چاہے تو ایک سال کے لیے قاہرہ ( مصر ) چلے جائیں ۔ میں آپ کی رائے کا انتظار کروں گا ۔
( ایضاً ، ص : ۱۳۵ )
” آپ عربی زبان کے جدید لٹریچر کا مطالعہ جاری رکھیں ۔ مجھے امید ہے کہ انگریزی زبان کی تحصیل کے بعد آپ عالمی سطح کی ایک نمایاں شخصیت بن جائیں گے ۔ خدائے قدیر آپ کی مدد فرمائے ۔ اہل سنت کے منتخب نوجوان علما کو کسی ایک فن یا مختلف زبانوں میں درجۂ امتیاز و انفرادیت کے حصول کے لیے میں اپنے سارے ممکنہ وسائل استعمال میں لاؤں گا ” ۔
( مرجعِ سابق ، ص : ۱۳۹ )
ایک محتاط اندازے کے مطابق حضرت قائدِ اہل سنت نے مختلف اوقات میں مصباحی صاحب کو دو درجن سے زائد خطوط لکھے ہیں ، جن سے دونوں بزرگوں کے باہمی تعلقات و روابط ، جذبۂ تبلیغ ، ملی خیر سگالی اور ان کی جماعتی و مسلکی درد مندیوں کا اندازہ ہوتا ہے ۔
نیز ان مکاتیب سے یٰسین اختر مصباحی کی فکر و شخصیت کے بہت سارے پہلو اجاگر ہوتے ہیں ۔
اللہ رب العزت ان دونوں بزرگوں کی خدمات کو شرفِ قبولیت عطائے اور ان کے متعین کردہ خطوط پر نوجوان علماے کرام کو چلنے کی توفیق ارزاں فرمائے ۔ آمین !!