اللہ راہ حق کا مسافر بناے رکھے

Spread the love

خیال خاطر

میں ذاتی طور پر ایسے خطیبوں/ سوشل میڈیائی کیڑوں کو فتین ہی نہیں بلکہ خود ان کی اپنی عاقبت بربادی کے لیے محروم القسمت جری بھی مانتا ہوں، جو اپنے زور بیان/ خود ساختہ نکات/ فتنہ انگیز افکار سے اہل سنت کے بیچ نئے قسم کا افتراق بوتے ہیں:

(الف) ہمارے اسلاف کرام نے بڑی دیدہ وری اور دینی حکمت غامضہ کے تحت امت کے لیے آزمائش بن سکنے والے جن مباحث کو کتابوں کے صفحات میں دفن رہنے دیا، یہ نو سکھیے ان بحثوں کو کرید کر یہ باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں گویا وہ بڑے محقق ہیں جبکہ سچی بات یہ ہے کہ وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر بڑے فتین ہیں

(ب) اس بات پر اللہ تعالیٰ کا بے پناہ شکر بجا لایا جانا چاہیے کہ محض فضل خداوندی سے ہمیں نہ صرف اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ملا بلکہ وہ دین کامل ملا جس کی کوئی نظیر نہیں۔ ایسے دین کے پیروکاروں کو اپنے تفردات و امتیازات جتانے سے کہیں زیادہ اس دین کامل پر عمل کر کے خود کو سرخرو کرنا چاہیے۔جو اس خاص مزاج سے ہٹ کر کسی بھی جذبے سے مغلوب ہوں گے، ممکن ہے محروم ہوں۔

(ج) یہ امت مسلمہ کا عمومی شرف رہا ہے کہ وہ کیسی ہی کوتاہ عمل سہی لیکن اپنے اسلاف کرام سے رشتہ مودت میں کم زور نہیں رہی، خواہ وہ اسلاف حضرات اہل بیت کرام کی شکل میں رہے ہوں، یا حضرات صحابہ و تابعین،

پھر صدیوں کو نوازنے والے بعد کے علما و مشائخ اور اہل اللہ کے روپ میں۔یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ کسی کا ذاتی مذاق طبع یا ترجیحی میلان کسی خاص وجہ سے کسی خاص طبقے کے ساتھ کم یا زیادہ ہو اور اسی وجہ سے کسی کے یہاں کسی کا ذکر کم یا زیادہ ہو،

لیکن اس فطری نفسیاتی رجحان طبع کو سمجھے بغیر کسی کے سر یہ الزام دھر دینا کہ آپ کے دل میں فلاں طبقے کی محبت نہیں، نہ صرف بدگمانی کی انتہا ہے بلکہ اہل ایمان پر کھلا بہتان بھی ہے، جس کا اللہ کی بارگاہ میں جواب دینا ہوگا۔

میں اس بات کی توضیحی مثال کے طور پر اپنا ذاتی رجحان پیش کرنا چاہوں گا:میری طبیعت میں حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ سے غایت محبت ہے

لیکن الحمد للہ -صد بار الحمد للہ- بھول کر بھی کسی کے لیے دل میں کوئی میل کچیل نہیں اور نہ ہی دور کے بھی واہمے میں کوئی ایسا خیال کہ معاذ اللہ اس ذاتی میلان طبع کی وجہ سے کسی اجماعی ترتیب، یا درجہ فضیلت کے ساتھ چھیڑ خانی ہو، خدا نخواستہ -صد بار نخواستہ

اگر ایسا کچھ ہوتا تو شاید یہ نفسانیت کا اثر، شیطان کا وار اور شریعت پر طبیعت کو ترجیح دینے کا نتیجہ ہوتا۔

جب کہ میری اپنی فہم کے مطابق ایسا شاید محض اس لیے ہے کہ میری طبیعت میں قیادت پسندی اور داعیانہ مزاج کا اسلامی فروغ ہے اور مجھے ذاتی طور پر ایسا لگتا ہے کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی طبیعت کا سانچہ بھی کچھ ایسا ہی تھا

لیکن اگر میں اپنے ذاتی رجحان کو شریعت پر ترجیح دیتے ہوئے ان کی تفضیل کی کوشش کروں یا جن کے مزاج میں ایسا نہیں ان پر لعن طعن یا شک کرنے لگوں بلکہ میں تو یہ مانتا ہوں کہ اگر دوسروں کی خدمات پر ان کی خدمات کو بھی ترجیح دینی لگوں تو نہ میں صرف ظالموں میں ہوں گا بلکہ شریعت اسلامیہ کے ساتھ چھیڑ خانی کرنے والے بد باطنوں میں بھی شمار ہوں گا جس کی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بڑی سخت باز پر ہو سکتی ہے میں نے خلاف مزاج یہ ذاتی مثال محض اس لیے پیش کی ہے کہ ممکن ہے اس سے بہتوں کو اپنا قبلہ فکر درست کرنے کا موقع ملے اور عصر حاضر کی نو پید ذہنی آزمائشوں کو فرق مراتب کا شعور ہو۔ اللہ توفیق خیر بخشے اور ہمیشہ رائے حق کا مسافر بنائے رکھے۔ا

للہ کرے! اسلامی کیلنڈر کا یہ پہلا مہینہ ہمارے لیے تنازع لفظی، خانہ جنگی اور ایک دوسرے کا گریبان چاک کرنے کا نہیں، حضرت امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشن کو پہچان کر دل سے اپنانے اور عملاً کچھ کرنے دھرنے کا سبب بنے، ورنہ

بھلے کسی کی محبت و عداوت کے بہانے ہی سہی

لڑنے کا ہنر تو دوسرے جان دار بھی جانتے ہیں۔

خالد ایوب مصباحی شیرانی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *