آزادی کے امرت مہوتسو میں حقیقی آزادی شامل ہو

Spread the love

آزادی کے امرت مہوتسو میں حقیقی آزادی شامل ہو

(محمد قاسم ٹانڈؔوی=09319019005)

آزادی؛ غلامی کی ضد ہے، اور یہ طے ہےکہ غلامانہ زندگی کسی بھی طبقہ اور برادری میں پسندیدہ نگاہوں سے نہیں دیکھی گئی دور اور حالات خواہ کیسے بھی رہے ہوں؛ بلکہ جن افراد و طبقات پر غلامی کے بادل اپنی چادر تانے رہتے تھے، ان کو بھی اپنی زندگی اجیرن محسوس ہوتی تھی، اور وہ جس سماج و معاشرہ کا حصہ ہوتے تھے، وہاں خود کو اکیلے اور تنہا محسوس کیا کرتے تھے؛ کیونکہ وہ سب وہاں کی تمام فلاحی مراعات سے محروم کر دئے جاتے تھے۔ جبکہ آزادی ایک فطری شئی اور ہر طبقہ کے نزدیک پسندیدہ ترین عمل ہے۔

خود ہمارے دین اسلام نے اس طرف توجہ دلائی ہے اور قرآن و حدیث میں واضح طور پر غلامی کے سدباب میں احکام نازل فرمائے گئے ہیں۔ دین اسلام میں تو فرد و شخص کی غلامی کو ہی پسند نہیں کیا گیا، چہ جائے کہ کسی ملک، کسی برادری یا پورے ایک سماج کو غلام و یرغمال بنا کر اس پر اجارہ داری قائم کی جائے؟

ہر شخص مذہبی اعتبار سے آزاد پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنے اسی اعتبار سے جینا چاہتا ہے۔ چنانچہ عظیم مجاہد آزادی اور آزاد ہندوستان کے اولین وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزادؒ نے اس سلسلے میں یہ رائے قائم کرنے کے بعد رقم طراز ہوتے ہیں کہ: “اسلام کسی حال میں بھی جائز نہیں رکھتا کہ مسلمان آزادی کھو کر زندگی بسر کریں، انھیں مر جانا چاہیے یا آزاد رہنا چاہیے۔ تیسری راہ اسلام میں کوئی نہیں ہے”۔

حقیقت یہی ہے کہ اسلام غلامی کو کسی طور روا رکھتا ہی نہیں اور نہ ہی اس کی تعلیمات میں یہ گنجائش ہے کہ اگر سوئے اتفاق کوئی قوم اور برادری اس آفت ناگہانی میں مبتلا ہو جائے تو وہ اس سے چھٹکارا حاصل کرنے اور طوق سلاسل کو اپنے گلے سے نکالنے کی راہیں تلاش کرنا بند کر دے، نہیں؛ بلکہ اسے غلامی کے خلاف ہر ممکن کوشش و جستجو کرنے کا حکم ہے۔

اپنے وطن سے محبت اور غلامی کی زندگی کو ناپسند جانتے ہوئے ہمارے اکابر و اسلاف انگریزوں کے خلاف میدان جنگ میں کودے تھے، جہاں انہوں نے ہر طرح کی قربانیاں پیش کیں اور ایک طویل عرصے تک انگریز قوم سے پنجہ آزمائی کرتے رہے۔ جس میں سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں جانیں نہیں گئیں تھیں؛ بلکہ وطن کے ہر خطے اور علاقے سے ہمارے لوگوں نے آزادی کی اس جنگ میں میں حصہ لیا اور بےشمار جانوں کو نذرانہ پیش کیا تھا۔

جن کی تفصیل و وضاحت کےلیے مکمل کتابیں لکھی گئی ہیں اور ایک ایک واقعہ کو ان میں نقل کرکے پختہ دلائل کے ساتھ اس بات کو ثابت کیا گیا ہے کہ: ملک کی آزادی ہمارے انہیں اکابر و بزرگوں کی مرہون منت ہے اور یہ کہ جنگ آزادی کی پوری تاریخ ہمارے ہی اکابر و علماے  کرام کے خون سے اٹی پڑی ہے نیز یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر اس وقت انگریزوں کے خلاف ہمارے اکابر اور مسلم عوام میدان جنگ میں نہ کودے ہوتے اور میدان کارزار گرم نہ کیا ہوتا تو لوگوں کی غلامانہ زندگی کا یہ دورانیہ ابھی اور کتنا طویل ہوتا

 

اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے؟ اس لیے کہ برٹش گورنمنٹ کا دائرہ اختیار وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا تھا اور انگریز قوم پورے براعظم ایشیا پر اپنی حکمرانی کا سورج طلوع ہوتا دیکھنا چاہتی تھی، جبکہ اس کی حکومت کا سورج اس وقت بھی غروب نہیں ہوتا تھا۔

ایسے نازک ترین اور سنگین حالات میں ہمارے اکابر خود کو کمربستہ کرتے ہیں اور اللہ کی مدد و توفیق کا یقین اپنے دلوں میں جماتے ہیں اور اپنے ایمانی لہو کی تپش سے میدان جنگ کو گرماتے ہیں۔ تقریبا ڈھائی پونے تین سو سال انگریزوں کو ناکوں چنے چباتے ہوئے اور اپنے قیمتی جان و مال کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے آج ہی کے دن انتھک کوششوں کے بعد (15/اگست/1947 کو) اس ملک کو آزادی نصیب ہوئی تھی۔

بہر کیف! ہمارے ملک کی آزادی کو 75/سال ہو گئے ہیں، جو ملک کے تمام باشندوں کےلیے فخر کی بات ہے۔ فخر کی اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمارے ملک کی حکومت نے اس سال آزادی کا جشن منانے کےلیے اسے “امرت مہوتسو” کے عنوان سے موسوم و منسوب کیا ہے۔

اس سنہری موقع پر حکومت نے ایک خاص مہم اور تحریک کا آغاز کرتے ہوئے ‘ہر گھر ترنگا، ہر ہاتھ ترنگا’ کا نعرہ بھی دیا ہے یعنی 13 سے 15/اگست تک ہر دوکان و مکان کی چھت پر قومی پرچم لہرا کر اس جشن کو منایا جائے، شہر و دیہات میں ریلیاں نکالی جائیں اور ہر شخص کو اس جشن میں شامل کر اسے ملکی آزادی کے تئیں بیدار و باخبر کیا جائے۔

جب کہ موقع یوم آزادی کا ہو یا یوم جمہوریہ کا ہمارے ملک میں یہ دونوں ایام پہلے ہی سے ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی سبھی بلاتفریق مذہب و ملت مل جل کر پوری شان و شوکت کے ساتھ قومی پرچم اپنے مکان، دوکان اور خاص خاص مقامات پر لہراتے آ رہے ہیں۔

ملک کا ہر باشندہ ان دو دنوں کو کسی مذہبی تہوار سے کم نہیں سمجھتا اور وہ پورے جوش و خروش کے ساتھ بغیر کسی سرکاری اعلان و اطلاع اور تحریک و مہم کے مناتا آ رہا ہے۔ مگر تعجب ہے ان لوگوں پر جو آج جشن آزادی کو “امرت مہوتسو” کی شکل میں منانے پر اسے اعلان و تحریک کے ذریعہ گھر گھر پہنچانے کی بات کر رہے ہیں

جب کہ اسی طبقہ اور برادری سے تعلق رکھنے والوں نے قومی یکجہتی کو عام کرنے، گنگا جمنی تہذیب کو برقرار رکھنے اور ملک میں امن و امان کا پیغام دینے والے اسی سہ رنگی جھنڈے کو 60/سال تک قبول نہیں کیا اور قومی پرچم کی مخالفت صرف اس لیے کی گئی کہ اس کو ترتیب و تیار کرنے والی “بیگم ثریا طیب” ایک مسلم خاتون تھیں

جن کا تین الگ الگ رنگوں میں ڈیزائن کیا ہوا یہ قومی پرچم آج بھی ملک میں امن و سلامتی کی جڑیں مضبوط کرنے میں مدد کرتا ہے، یہ ترنگا جھنڈا باہمی اتحاد و اتفاق کو فروغ دینے میں آج بھی معاون ہے، ہم آہنگی، قومی یکجہتی اور ملک میں برسوں سے جاری اقدار و روایات کی عکاسی و منظر کشی کرنے والا یہ قومی پرچم ایک لاجواب و بےمثال علامت کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔

مگر مخالفت کرنے والوں کو اس عظیم پرچم کی یہ مذکورہ خوبیاں ایک آنکھ نہیں بھاتیں اور فرقہ پرست طاقتیں مسلسل ملک کے اس قومی پرچم کی توہین و پامالی کرتے پائی گئیں۔

کاش! جس طرح آج گھر گھر ترنگا جھنڈا لہرانے کی باتیں کی جا رہی ہیں اور جیسے آج آزادی کا امرت مہوتسو منایا جا رہا ہے، یہی چیز گذشتہ 75/سالوں میں ہمارے حکمرانوں نے سمجھ لی ہوتی اور جیسے آج آزادی کے جشن کو بلاتفریق مذہب و ملت منانے کی تاکید کی جا رہی ہے۔

ٹھیک ویسے ہی ہمارے اکابر علماے کرام کی پیش کردہ قربانیوں کو یاد کیا جاتا اور اپنی محفلوں میں ان کا تذکرہ کیا جاتا، قومی و ملکی سطح پر جس اعزاز و اکرام کے وہ مستحق تھے، اسی اعزاز و اکرام سے انہیں نوازا جاتا تو یہ بات ہماری خوشی کو دوبالا کرنے والی ہوتی۔

سات دہائیوں سے مسلسل ہمارے اکابر اور مسلم قائدین کی قربانیوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے، جبراً تاریخ کو داغدار و مسخ کرکے ہماری شاندار ماضی کو دھندلا اور مکدر کیا جارہا ہے، کبھی تو تعلیمی اداروں اور ان میں جاری نصاب میں دھاندلی سے کام لیا جاتا ہے تو کبھی ان کے ذریعہ تیار کردہ عظیم و یادگار عمارتوں کے نام کو تبدیل کرکے ان کے ماننے والوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے

زعفرانی اداروں کی خفیہ پلانننگ اور سوچی سمجھی سازش کے تحت ملک کے ماحول کو ایک خاص رنگ میں رنگنے اور یہاں کی جمہوریت کو ایک خاص مذہب کی شناخت میں بدلنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

جس طرح انگریزوں نے تجارت کے بہانے ہمارے اس ملک میں قدم رکھا تھا اور پھر وہ آہستہ آہستہ اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے تھے، ویسے ہی آج ملک میں فرقہ واریت کا ننگا ناچ اور آگ و خون کا کھیل کھیلا جا رہا ہے؛ تاکہ یہاں کے جغرافیہ کو بدلا جاسکے اور ملک پر مکمل ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کی اجارہ داری قائم کی جاسکے۔

ایسے آزادی کا جشن اور آزادی کا امرت مہوتسو ایک دم بےمعنی ہو کر رہ جاتا ہے، امرت مہوتسو منانے والوں کو چاہیے کہ پہلے وہ اپنی نیتوں کا کھوٹ دور کریں اور من میں جو مسلم مکت بھارت کا خواب سجایا ہوا ہے، اس کی کوششیں ترک کریں؛ تبھی ہم آزادی کا حقیقی جشن منانے والے کہلائیں گے اور اسی وقت آزادی کا یہ کیسا “امرت مہوتسو” ہے؟ ۔

لوگوں کی سمجھ میں آتا ہے۔

(mdqasimtandvi@gmail.com)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *