اسلام سچا دین کیوں قسط ہشتم

Spread the love

تحریر: سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی عفی عنہ پرنسپل: دارالعلوم محبوبِ سبحانی کرلا ویسٹ ممبئی اسلام سچا دین کیوں قسط ہشتم ؟ {قسط :8 }

اسلام سچا دین کیوں قسط ہشتم

قرآن مقدس کی پیش گوئیاں :

[۷] مسلمانوں کے غلبے کی پیش گوئی: اعلانِ نبوت کے بعد نبی اکرم ﷺ اور آپ پرایمان لانے والوں کو بڑے مشکل حالات سے گزرنا پڑا۔ مسلمان ایک طویل [لمبے] عرصے تک کفار و مشرکین کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتے رہے۔

اُس وقت بظاہر کام یابی کی کوئی سبیل نظر نہیں آرہی تھی؛ مگر اُن نا گفتہ بہ حالات میں قرآنِ مقدس مسلمانوں کو بار بار یہ خوش خبری سناتا رہاکہ بالآخر غلبہ تمھیں ہی حاصل ہو گا اور دشمن نہ تمھیں ختم کر سکیں گے اور نہ ہی ’’اسلام ‘‘کا چراغ گل کر پائیں گے

کہیں یوں خوش خبری سنائی : (سورۂ توبہ ، آیت نمبر ۳۲:)

ترجمہ:یہ [کافر و مشرک]چاہتے ہیں کہ اپنے منہ سے اللہ کا نور بجھا دیں ،حالاں کہ اللہ اپنے نور کو مکمل کیے بغیر نہ مانے گا ، اگرچہ کافر نا پسند کریں ۔

کہیں یوں بشارت دی: ( سورۂ صف ، آیت نمبر ۸:،۹)

ترجمہ: وہ اپنے مونہوں سے [پھونکیں مار کر] اللہ کے نور[دینِ اسلام کی روشنی] کو بجھانا چاہتے ہیں اور اللہ اپنے نور کو پورا کرنے والا ہے ،خواہ کافروں کا کتنا ہی ناگوار [معلوم] ہو ۔ [ذاتِ خدا]وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ؛ تاکہ اُس [دینِ حق] کو تمام دینوں پر غالب کر دے ،خواہ مشرکوں کو کتنا ہی نا گوار ہو ۔

کہیں یوں تسلی دی : ۔(سورۂ محمد ، آیت نمبر ۳۵:)

ترجمہ: سو [اے مسلمانو!] تم ہمت نہ ہارو اور اُن[دشمنوں] کو صلح کی دعوت نہ دو ، اور تم ہی غالب رہوگے اور اللہ [کی مدد] تمھارے ساتھ ہے اور وہ تمھارے اعمال ہرگز ضائع نہیں فرمائے گا ۔قرآنِ مجید کی یہ پیش گوئیاں بالکل سچ ثابت ہوئیں اور پورا عالَم کُفر مل کر بھی اسلام کو دبا نہ سکا ۔

چناں چہ آقاے کریم ﷺ کی حیاتِ طیبہ[ مبارک زندگی] ہی میں تقریباً پوراجزیرۃ العرب قرآنِ مقدس کے انوار سے جگمگا نے لگا ، قبائلِ عرب کفر و شرک سے بیزار ہو کر اسلام کی آگوش میں پناہ گزیں ہونے لگےاور پیغمبرِ اسلام ﷺ کو شہید کرنے کا جذبہ رکھنے والے اہلِ عرب آپ کے نامِ اقدس پر اپنا تن من دھن قربان کرنے میں فخر محسوس کرنے لگے ۔

وصالِ اقدس کے بعد بھی فتوحات کا یہ سلسلہ جاری رہا اور اسلام کو ایسا نا قابلِ تسخیر غلبہ حاصل ہوا کہ تقریباً گیارہ صدیوں تک دنیا کے اکثر حصوں پر اہلِ اسلام نے نہایت کامیابی کے ساتھ حکمرانی کی۔

کیا یہ سب محض اتفاق سے ہوا ؟

نہیں ؛بلکہ صرف اِس وجہ سے کہ دینِ اسلام ہی دینِ بر حق ہے ، یہ مٹنے کے لیے نہیں؛ بلکہ باطل کو مٹانے کے لیے تشریف لایا ہے ۔

قرآنِ کریم ’’کلامِ الٰہی‘‘ ہے ، اِسے اُس ذات نے نازل فرمایاہے جس کی نگاہِ قدرت سے کائنات کی کوئی بھی شے چھپ نہیں سکتی ۔قرآنِ پاک کی اِن پیش گوئیوں کے مطابق ’’اسلام‘‘ کا غالب آنا ،اس کے حق ہونے کی روشن دلیل ہے ۔

 

[۸] جنگِ بدر میں فتح و کامرانی کی پیش گوئی: اللہ ربُّ العزت نے سورۂ روم میں ارشاد فرمایا :۔(سورۂ روم ۔ آیت نمبر ۱: تا ۶)

ترجمہ:رومی [روم کے عیسائی، ایرانی مجوسیوں سے ] مغلوب ہو گئے ، قریب کی سر زمین[ملکِ شام] میں اور وہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد عن قریب دو بارہ غالب ہوں گے ، چند سالوں میں ، پہلے[ بھی] اور بعد [بھی] حکم اللہ ہی کو زیبا ہے ، اور اس دن مومن خوش ہوں گے ، اللہ کی مدد سے ، وہ جس کی چاہتا ہے مدد فرماتا ہے اور وہ بہت غالب بے حد رحم فرمانے والا ۔

اِن آیتوں کا پس منظر یہ ہے کہ ہجرتِ نبوی سے تقریباً سات سال پہلے ، اُس وقت کی دو سپر پاور طاقتوں یعنی ایرانی اور رومی حکومتوں میں خوف ناک جنگ چھِڑ گئی ۔جنگ کی خبر جب مکۂ مکرمہ پہنچی تو مسلمانوں کی خواہش یہ ہوئی کہ رومیوں کو غلبہ حاصل ہو ، کیوں کہ وہ اہلِ کتاب اور بہت سے عقائد میں مسلمانوں کے ساتھ شریک تھے ، جب کہ کفارِ مکہ نے چاہا کہ ایرانیوں کو کام یابی ملے ،کیوں کہ وہ اُن کی طرح مشرک و بت پرست تھے ۔

سوے اتفاق کہ کافروں کی منشا کے مطابق ایرانیوں کو رومیوں پر غلبہ حاصل ہوگیا، یہ خبر مسلمانوں پر برق( بجلی) بن کر گری اورانھیں قلبی تکلیف لاحق ہوئی ، جب کہ کافروں نے شادیانے بجائے اور خوب خوشیاں منائیں ، یہاں تک کہ لاف زنی کرتے ہوئے اُنھوں نےمسلمانوں سے یہ تک کہہ دیا : رومی تمھاری طرح امورِآخرت کو مانتے ہیں ؛ لہذا وہ تمھارے بھائی ہوئے اور ایرانی ہماری طرح بت پرست ہیں ؛لہذا ہم ان کے بھائی ٹھہرے ۔

سنو!جس طرح ہمارے بھائیوں نے تمھارے بھائیوں کو شکستِ فاش دی ہے ، اگر تم نے ہم سے جنگ کی تو ہم تمھیں اس سے بد ترشکست دیں گے ۔ اس وقت اللہ ربُّ العزت نے سورۂ روم کی مذکورہ چھ آیتوں کے ذریعے مسلمانوں کویہ تسلی بخش بشارت دی کہ نَو سال کے اندر رومیوں کو ایرانیوں پر دو بارہ غلبہ حاصل ہوگا ،اس وقت تمھیں بھی عظیم فتح نصیب ہوگی اوراس دن تمام مسلمان خوشیاں منائیں گے ۔

جس وقت یہ بشارتیں دی گئیں تھیں ، اس وقت رومیوں کے غلبے کا کوئی امکان تھا نہ مسلمانوں کی کام یابی کی کوئی سبیل ؛ بلکہ مسلمانوں کو مسلسل دُھتکاراجا رہا تھا اور انتہائی ذلت کے ساتھ اُنھیں ہر جانب سے کھدیڑا جا رہا تھا ؛ مگر بالآخر وہی ہوا جس کی پیش گوئی قرآنِ مقدس نے کی تھی۔

چناں چہ نَو سالوں کے اندر حالات تبدیل ہو گئے ، اُدھر رومیوں نے شام کی سر زمین سے ایرانیوں کو مار بھگایااور اِدھر بدر کے میدان میں تین سو تیرہ مجاہدینِ اسلام نے انتہائی بے سر و سامانی کے عالَم میں،مختلف ہتھیاروں سے لیس نہایت آسودہ حال ایک ہزار تجربہ کار سورماؤں کا غرور خاک میں ملا کر، اسلام کا سرہمیشہ کے لیے فخر سے بلند کر دیا۔

ثابت ہوا کہ اسلام ’’دینِ برحق‘‘ہے اورہمارا قرآنِ مقدس اُس خدا کا نازل کیا ہوا ہے جو ہر قسم کے غلبہ و اقتدار کا مالک ہے ۔

[جاری]

تحریر: سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی عفی عنہ

پرنسپل: دارالعلوم محبوبِ سبحانی کرلا ویسٹ ممبئی

پیش کش : نور ایمان اسلامک آرگنائزیشن کرلا ویسٹ ممبئی انڈیا

18 thoughts on “اسلام سچا دین کیوں قسط ہشتم

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *