اگر اردو مسلمانوں کی ہو جاۓ تو کیا ہوگا
از قلم : سیف علی شاہ عدم بہرائچی :: اگر اردو مسلمانوں کی ہو جاۓ تو کیا ہوگا ؟
اگر اردو مسلمانوں کی ہو جاۓ تو کیا ہوگا
بے شک ہندستان ایک ایسا ملک ہے جہاں پر بیشتر زبانوں الگ الگ مذہبوں کا وجودپایا جاتا ہے,مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ بنا کسی روک ٹوک کے اپنی اپنی زندگی گزارنے کا حق رکھتے ہیں
مگر جب بات آئی ہے زبانوں کی تو تو ہندوستان کی قومی زبان ہندی ہے جس سے کی کو کوئی اعتراض نہیں ہے اور بے شک ہونی بھی نہیں چاہیے
اور جب جنوبی ہندوستان کی پانچ یا چھے ریاستیں جہاں کی علاقائی زبان ہندی نہیں ہے مٽلا کیرالا,تمل ناڈ,کرناٹکا,اورآندھراپردیش وۼیرہ
ان کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوۓ دوسرے نمبر کی قومی زبان انگریزی زبان کو رکھا گیا کیوں کہ انگریزی ایک ایسی زبان ہے جسے عالمی سطح پر کافی شہرت اور لوگوں کے درمیان مقبولیت حاصل ہے
جنوبی ہندوستان کے لوگوں کو اس بات سے اعتراض تو خواب تھا مگر کرتے بھی تو اور آخر کار انہیں اس بات اور فیصلے کو ماننا پڑا۔
بات جب بھاشاؤوں کی ہو رہی تو اس بات کا پتہ لگانا اور سمجھنا بہت ضروری ہے کہ آخر ہندوستان میں بہت پرانے دنوں سے لے کر آج تک کون سی زبانوں کا قبضہ رہا یہ بات ہر کسی معلوم ہوگی کہ آریائی زبان کو ہندوستان کی سب سے پرانی زبان مانا جاتا ہے, اور اسی آریائی زبان سے مختلف قسم کے زبانوں کا وجود ہو جس میں اردو اور ہندی ہیں
بہت سارے لوگوں کی سوچ یہ ہے کہ اردو مسلمانوں کی زبان اور ہندی ہندو دھرم کے ماننے والوں کی زبان ہے حالں کہ اس سے سچائی کا کچھ لینا دینا نہیں مگر جاہلوں سے جھگڑ بھی تو نہیں سکتےہیں
اردو اور ہندی کسی بھی مذہب سے جڑی ہوئی زبانیں نہیں بلکہ یہ آزاد زبانیں ہیں,ہاں یہ بات ماننی پڑیگی کہ پہلے کے لوگوں کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت نہیں تھی مگر آج کل کے تمام لوگوں کو یہ سمجھانے کی بہت سخت ضرورت ہے
آج کل کے لوگ خاص طور پر ہندو دھرم سے تعلق رکھنے والے لوگ یہ سمجھتے ہیں اردو مسلمانوں کی زبان ہےاور ہمیں اس زبان سے کوئی تعلق نہیں ہے
آج کل لوگوں نے اپنی بھی زبان کو ترک کر دیا ہے اب وہ چاہے ہندی ہو یا اردو اب تو لوگوں نے صرف اور صرف انگریزی زبان کو ہی اپنا سب کچھ مان لیا ہے یعنی جسے انگریزی معلوم ہے وہی عزت کے قابل اور باقی زبانوں کو ماننے اور جاننے والے بھینس چرانے کے ہی لائق ہیں,زرا سا کڑوا جملہ ہے مگر سچا ہے۔
آج کل کے پرفتن دور میں جب ہر چیزوں کو ہندو مسلم نامی ترازو میں تول کر دیکھا جارہا ہے تو بھلا زبان کیسی بچیگی اب ہندو دھرم کے پیروکار نے اردو پڑھنا,سیکھنا چھوڑ دیا ہے کیونکہ انہیں اردو مسلم لگتا ہے اور ہندی پڑھتے ہیں
کیوں کہ یہ انہیں ہندو لگتا ہے”ہندوستانی قانون کے مطابق ہر شخص کو سوچنے اور اپنی راۓ رکھنی کی پوری آزادی ہے”تو اس کا مبلب یہ تھوڑی ہوتا ہے کہ آپ کچھ بھی سوچیں گے!
آپ کو ایک بات ماننی پڑیگی کہ ہندوستان کی اصلی زبان ہندوستانی ہند آریائی زبان ہے جوبھارت اورپاکستان میں مشترکہ طور پر بولی جاتی ہے
یہ زبان ہندوستانی کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔
تاریخی طور پر اسے “ہندوی” یا ریختہ بھی کہا جاتا ہے,اور ریختہ کا مطلب ہی ہندی اردو زبان کا مکس اور ملاوٹ ہے۔یہ بات بھی ماننی پڑے گی کہ حالات کیسے بھی ابھی تک مسلمانوں میں الٽر لوگوں نے ہندی کی پڑھائی کو جاری و ساری رکھا ہے,میں کہیں اور نہیں جاتا ہوں محض اپنہ بات کروں تو میں نے ہندی کسی اسکول میں نہیں سیکھی ہے بلکہ یوں ہی چلتے پھرتے اور راستوں کے بورڈس پڑھ پڑھ کر سیکھی ہے۔
آب بات کرتے ہیں اگر ان لوگوں کی سوچوں کو مان لیں اور اردو زبان کو مسلمانوں کے لیے خاص کر دیا جاۓ تو؟
تو پھر ان تمام ۼیر مسلم اردو کاتبوں کا جنہوں نے اردو ادب کو فروۼ دینے اور اس کی بقا کے لیے اپنی ساری زندگی خرچ کر دی ہے؟
تو کیا مرحوم راجندر سنگھ بیدی کو مسلمان قرار کر دیا جاۓ گا؟
کیا فراق گورکھپوری کی ساری کتابوں کو اردو سے ہندی میں بدل دیا جائے گا؟
ایسے ہی بہت سارے سوالات پیدا ہوتے ہیں مگر چھوڑوں جنہیں عقل ہی نہیں وہ جواب کیا خاک دیں گے؟۔
آپ تمام ہندوستانی بھائیوں سے ہاتھ جوڑ کر گزارش ہے کہ براۓ مہربانی کسی بھی زبان کو مذہب کے پیمانے پر ناپنے ناکام کوشش نہ کر اور جتنی بھی زبانوں کو سیکھنے کا موقعہ ملے بنا کسی روک ٹوک کے پڑھیں اور سیکھیں۔
سیف علی شاہ عدم بہرائچی
بہرائچ شریف,اتر پردیش
9004757175
Pingback: قرآن سے لا تعلقی ہی باعث بربادی ہے ⋆ سیف علی شاہ عدمؔ بہرائچی