اسلام ہی سچا دین کیوں
تحریر: سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی پرنسپل : دارالعلوم محبوبِ سبحانی کرلا ویسٹ ممبئی اسلام ہی سچا دین کیوں ؟ قسط پنجم
اسلام ہی سچا دین کیوں
قرآنِ مقدس کی پیش گوئیاں:
گزشتہ صفحات میں بتایا جا چکا ہے کہ اللہ عز وجل کی کتاب ’’قرآنِ مقدس ‘‘نے، مُنکرِینِ اسلام کوتقریباً بیس ہزار چیلنجز کے جوابات پیش کرنے کی دعوت دی ہے ، وہ آج تک اُن میں سے کسی ایک چیلنج کا بھی جواب نہ دے سکے ، نہ ہی آئندہ دے سکیں گے۔
قرآنِ مُبین کا یہ اِعجاز دینِ اسلام کے بر حق ہونے کا واضح و بیِّن ثبوت ہے۔اِس کلامِ الٰہی نےجس طرح ’’جنت و دوزخ ، حساب و کتاب،جزا و سزا ‘‘ وغیرہ اُمورِ آخرت کےحقائق سے پردے اُٹھا کر انسانوں کو اُن سے آگاہ کیا ہے اور اُنھیں تہِ دل سے تسلیم کرنے پر ایمان کی بِنا[ بنیاد] رکھی ہے ، اِسی طرح قیامت سے قبل رونما ہونے والے بہت سے واقعات و حادثات کی بھی خبر دی ہے ۔ انھی کو’’قرآنِ مقدس کی پیش گوئیوں‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مومن ہونے کے لیے انھیں بھی تسلیم کرنا فرض و ضروری ہے۔
پیش گوئی کا آسان مفہوم ہے ’’کسی واقعہ کو قبل از وقت بیان کردینا‘‘۔منکرینِ اسلام[ دینِ اسلام کی حقانیت کو تسلیم نہ کرنے والے] اگر تعصُّب کا عینک اُتار کر،قرآنِ حکیم کی پیش گوئیوں میں غور کرلیں تو یقیناًخلوصِ دل سے اس کے کلامِ الہی ہونے کا اعتراف کریں گے ؛ کیوں کہ آج تک اس کی ایک بھی پیش گوئی کوغلط ثابت نہیں کیا جا سکا ہے ۔ قرآنِ مجید نے جو کہا وہی ہوا اور جس چیز کے بارے میں جیسی خبر دی وہ اُسی طرح رو نما ہوئی یا آئندہ ہوگی۔کچھ پیش گوئیوں کی صداقت صحابۂ کرام کے مقدس دور میں ظاہر ہوئی ، کچھ کی دورِ تابعین میں اور کچھ کی بعد کے اَدوار میں
کچھ آج سچ ثابت ہو رہی ہیں اور جو بچی ہیں وہ آئندہ ضرورصحیح ثابت ہوں گی۔آج کا ترقی یافتہ انسان اگرچہ بہت کچھ کر سکتا ہے ؛مگر وہ قرآنِ حکیم کی کسی بھی پیش گوئی کو غلط ثابت نہیں کر سکتا ۔ اب ذَیل میں چند پیش گوئیاں درج کی جا رہی ہیں جو آج کے اِس تیرہ و تاریک ماحول میں بھی انوار و تجلیات کی خیرات تقسیم کر رہی ہیں۔
[۱] کلامِ الٰہی کے کئی ایک نام ہیں ۔ اس کا سب سے معروف نام ’’قرآن‘‘ ہے ۔ خود خالقِ کائنات اللہ عز وجل نے اپنے کلام کو متعدد بار قرآن سے تعبیر فرمایا ہے ۔مثلاً سورۂ یوسف میں فرمایا: ۔(سورۂ یوسف ، آیت نمبر ۲:)ترجمہ:بے شک ہم نے اِس قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا ہے ، تاکہ تم اس کو سمجھ سکو۔
قرآنِ مقدس کا یہ نام ہی اس کے کلامِ الٰہی اوراسلام کے دینِ برحق ہونے کا روشن ثبوت پیش کر رہا ہے۔ اگر کوئی کٹر دشمنِ اسلام بھی ،اسلامی تاریخ اور کلمۂ قرآن میں غور و فکر کر لے تو شرحِ صدر کے ساتھ پکار اُٹھے گا کہ یہ کسی انسان کا نہیں ؛ بلکہ اللہ ربُّ العالَمین کا اُتارا ہوا کلام ہے ، بشرطیکہ وہ حق پسند ہو ۔
وہ اِس طرح کہ ’’قرآن‘‘ مبالغے کا صیغہ ہے ، اس کا معنٰی ہے ’’ بہت پڑھی جانے والی کتاب‘‘۔
قارئینِ کرام جانتے ہیں کہ جس وقت قرآنِ پاک نازل ہو رہا تھا،اس وقت مسلمانوں کی تعداد انتہائی قلیل تھی ؛بلکہ اسلام کے ابتدائی کئی سالوں تک گنتی کے چند مسلمان رہے ، جس کے سبب قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے والوں کی تعداد بہت مختصر تھی ۔
اس کے باوجود اسے’’ قرآن‘‘ سے موسوم کیا گیا، یعنی ایسی کتاب جس کی خوب زیادہ تلاوت کی جاتی ہو، جس کو بار بار پڑھا جاتا ہو۔اِس نام سے موسوم فرما کر ہمارے رب نے یہ پیش گوئی کی کہ’’ عن قریب اِس کتاب کی تلاوت سب سے زیادہ کی جائے گی حتیّٰ کہ دنیا کی کوئی بھی کتاب اس کا مقابلہ نہ کر سکے گی ‘‘۔
اِس پیش گوئی میں یہ اشارہ بھی تھا کہ جلد ہی اسلام کا نورہر طرف پھیلے گااور اس کا پرچم دنیا کے گوشے گوشے میں لہرائے گا، یہ ،اگرچہ فی الحال ’’قرآن‘‘ کا مصداق نہیں ہے؛ مگر چند سالوں کے بعد ضرور بنےگا۔
کچھ ہی زمانہ گزرا کہ یہ پیش گوئی بالکل سچ ثابت ہوئی اور الحمد للہ آج تو غیر مسلم بھی اِس حقیقت کا بر ملااعتراف کرتے ہیں کہ کثرتِ تلاوت کے سلسلے میں دنیا کی کوئی بھی کتاب ’’قرآنِ مقدس‘‘ کے سامنے ٹِک نہیں سکتی ۔کیا یہ اس بات کی واضح دلیل نہیں کہ قرآنِ کریم کسی انسان کا نہیں ؛ بلکہ خالقِ ارض و سما اللہ عز وجل کا نازل کردہ کلام ہے اور دینِ اسلام اس کا’’ منتخب دین‘‘ ہے ؟۔
[۲] اللہ رب العزت نے فرمایا: ۔( سورۂ بقرہ ، آیت نمبر ۹۴:۔۹۵) ترجمہ:اے محبوب! آپ کہیے ! [اے یہود]اگر اللہ کے نزدیک آخرت کا گھر [جنت] صرف تمھارے لیے ہے ، لوگوں کے لیے نہیں ،تو موت کی تمنا کرو ،اگر سچے ہو ۔اور جو سیاہ کارنامے پہلے کر چکے ہیں اُن کی وجہ سے وہ ہرگز موت کی تمنا نہیں کریں گے ، اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے ۔
اِس آیتِ کریمہ میں یہودیوں کی مذمت کی گئی ہے ۔ یہ بد بخت لاف زنی کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ جنت اور اُخروی نعمتوں کے حق دار ہم ہی ہیں ، جنت ہماری جاگیر ہے ؛ کیوں کہ ہم ہی اللہ کے محبوب ہیں ۔ اُن کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی اور رب تعالیٰ نے توبیخ فرمائی کہ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو دنیا کی مشقتیں کیوں برداشت کر رہے ہو ، موت کی تمنا کیوں نہیں کرتے؟ ۔
پھر اُن کے دلوں کے بارے میں یہ پیش گوئی فرمائی کہ یہ یہودی کبھی بھی موت کی تمنا نہیں کر سکیں گے ۔
یہودی اسلام کے سخت ترین دشمن تھے ، اسلام کو ختم کرنا اُن کا مقصدِ اصلی تھا، اُسے مٹانے اور اُس کو باطل ثابت کرنے کے لیے صبح و شام سازشیں اور طرح طرح کی تدبیریں کیا کرتے تھے ۔
اُن کو چاہیے تھا کہ اِس موقع کو غنیمت جانتے، موت کی تمنا کرتے اورحضور ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں یا مسلمانوں کے پاس جاکرکہتے کہ دیکھو ! قرآن نے کہا تھا کہ ہم موت کی تمنا نہیں کریں گے ، ہم نے موت کی تمنا کر لی ہےاورقرآن کی یہ پیش گوئی غلط ثابت ہو چکی ہے ؛ لہذا اس کا جھوٹا اور دینِ اسلام کا باطل ہونا واضح ہو گیا ۔
لیکن تاریخ گواہ ہے کہ وہ موت کی تمنا نہ کر سکے اور یوں قرآن مقدس کی صداقت ثابت ہو گئی ۔ یہ قرآنِ حکیم کا عظیم معجزہ ہے کہ اُس نے مخالفین کے دلوں کے بارے میں پیش گوئی کی اور وہ قرآن کی پیش گوئی کے خلاف اپنے دلوں میں خیال تک نہ لا سکے۔
کیا دنیا میں کوئی ایسی کتاب ہے جو اپنے کٹر دشمنوں کے دلوں کے بارے میں پیش گوئی کرے اور وہ اپنے دلوں میں اس کے خلاف خیال تک نہ لا سکیں ؟ ثابت ہوا کہ قرآن ’’کلامِ الٰہی ‘‘ اور اسلام ’’سچا دین‘‘ ہے ۔
[جاری]
تحریر: سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی
پرنسپل : دارالعلوم محبوبِ سبحانی کرلا ویسٹ ممبئی
پیش کش :
نور ایمان اسلامک آرگنائزیشن کرلا ویسٹ ممبئی
Pingback: شادیوں کو خرافات سے پاک کرکے مجالس خیر کا اہتمام کریں ⋆ اردو دنیا پیرسیّد نوراللّٰہ شاہ بخاری
Pingback: شادی کا فلسفہ اور مقصد ⋆ مولانامحمد قمر الزماں ندوی