کہاں ہے میرا بھارت میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں

Spread the love

تحریر: محمد جنید رضا :: کہاں ہے میرا بھارت میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں

کہاں ہے میرا بھارت میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں

وہ بھارت جس کے امن و امان کی مثال دنیا بھر میں دی جاتی تھی۔ جس کی گنگا جمنی تہذیب سارے عالم میں امن و امان کا پیغام دیتی رہی۔ یہ گاندھی کا غیر متشدد ملک مانا جاتا رہا۔

اس ملک کے دستور کو امبیڈکر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دنیا کا یہ واحد ملک ہے، جس میں ہر دھرم کے لوگوں کے لیے جگہ ہے۔مختلف تہذیب اور متعدد زبان کے بولنے والوں کے لیے یہاں کھلی آزادی ہے کہ وہ اپنے اپنے مذہب مذہب اور روایات پر عمل کریں۔

اور اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔ یہی ہندوستانی جمہوریت کی خوبصورتی ہے۔ ہمارے یہاں تمام مذاہب کے لوگ اپنی اپنی روایات کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں اور آزادی کے ساتھ اپنے تہوار مناتے رہے ہیں۔

ان بزرگوں نے انگریزوں کے ظلم و ستم کو برداشت کیا اور ہمیشہ اس ملک کی آزادی میں نبرد آزما رہے۔اس دیش کو انگریزوں کے شکنجے سے آزاد کرانے کے لیے ہمارے بزرگوں نے ایک عرصہ دراز تک ان ظالم انگریزوں کے خلاف باقاعدہ مہم چلائی ہے۔انگریزوں نے ان کی تحریکوں اور مہمات کو کچلنے کے لیے، جو کچھ بن پڑا،کیا۔

اس کے جواب میں ہمارے بزرگوں نے اپنی جانوں کو گنوانا تو قبول کیا، مگر اس پیارے چمن ہندوستان کو کسی بھی ظالم کے ہاتھوں برباد ہوتے ہوئے گوارا نہ کیا۔

 

جب انگریز اس ملک سے چلے گئے، تو حکومتوں کے الٹ پھیر اور سیاسی پارٹیوں کے تغیر و تبدل نے حکومت اور اقتدار کے لالچ میں اس ملک کی سیاست میں سیکڑوں نشیب و فراز واقع ہوئے۔ مفاد پرست پارٹیوں نے اقتدار کی کرسی سنبھالتے ہی اپنی حکمرانی انگریزوں کے طرز پر چلائی۔

یہ بات الگ ہے کہ دستور ہند کا قیام ہو چکا تھا۔ لیکن یہاں کے لوگ انگریزوں کی صحبت میں رہ کر ان سے منفی سیاست (پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو) سیکھ چکے تھے۔ اسی لئے آزادی سے اب تک سیکڑوں دنگے رونما ہو چکے۔ دستور تو بن چکا ہے

لیکن عدلیہ اور حکومت خود ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جس کے ہاتھ لاکھوں انسانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ قانون کے رکھوالے خود جانبدار ہوگئے۔ کمزوروں کو قانون کے ذریعے پھنسا دیا جاتا ہے جبکہ اہل اقتدار کو اس کے چور دروازے سے نکال دیا جاتا ہے۔

مجھے حیرت ہورہی ہے یہاں کے نظام حکومت کو دیکھ کر، جو جتنا بڑا مجرم ہوتا ہے۔ اس کو اتنا ہی اعلی منصب دیا جاتا ہے۔ یہ ملک کی بربادی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

اس ملک کی بربادی میں سب سے زیادہ آر ایس ایس کے ہاتھ کالے ہوئے جس نے یہاں کے ہندؤوں کو مسلمان اور دوسری اقلیتوں کے خلاف زہر بھر بھر ان کے خلاف کر دیا۔

حالاں کہ خود ان کا حال یہ ہے کہ اپنے ہم مذہبوں کو جو پنڈت کے علاوہ ہیں۔ ان کو منحوس اور گرا ہوا سمجھتے ہیں۔ اور چھوت اچھوت پر کامل یقین رکھتے ہوئے، ان کو اپنے آپ سے دور رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ مندروں میں ان کو گھنٹہ بجانے تک کا حق نہیں دیتے۔ نہ ہی ان کو اونچی جگہ پر بیٹھنے کا استحقاق ہوتا۔

ان کے مطابق دلتوں کو تعلیم حاصل کرنے کا حق نہیں ہے۔ کہ یہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اقتدار پر قابض نہ ہوجائیں،بابا صاحب صاحب نے اسی بھید بھاؤ کو دیکھ کر ہندو دھرم کو چھوڑ کر بودھ دھرم کو اپنایا۔

یہ بات ان لوگوں کو بہت چبھتی ہے کہ ہم ایسے انسان کے بنائے ہوئے قانون پر کیوں عمل کریں جو خود ہماری ذات سے نیچا ہے۔

اسی وجہ سے یہ دستور ہند کو ختم کرکے اپنا من چاہا قانون نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ جس سے ہندؤں کے علاوہ تمام مذاہب کے لوگوں کو یہاں سے نکال سکیں۔

لیکن اگر ایسا ہوا تو ہندو خود محفوظ نہیں رہ سکیں گے جیسا کہ دلتوں کی یہاں کچھ عزت نہیں۔ ان کو یہ اپنے نوکر اور خادم کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔اگر ایسا ہوا تو پھر وہی پرانا ظلم و ستم سے بھرا ہوا دور لوٹ آے گا۔

تو ضروری ہے کہ ایسے قانون کے ساتھ ساتھ ایسی ذہنیت کا خاتمہ کریں جو ہندوستان کے آئین کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ لوگوں کے درمیان بیداری لانے کی ضرورت ہے۔

تعلیمی مہم زور و شور سے چلانے کی ضرورت ہے تاکہ علم والے ایسے اندھ بھکتوں کی کردار کشی کر سکیں۔ اور آئین اور ملک کا تحفظ کر سکیں۔ پرانےبھارت کو پا سکیں گے جس کی تلاش ہے۔

محمد جنید رضا

اسلامک اسکالر، بریلی

2 thoughts on “کہاں ہے میرا بھارت میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *