انتخابات میں ضمانت ضبط کی روایت
انتخابات میں ضمانت ضبط کی روایت
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
ہمارے جمہوری ملک ہندوستان میں انتخابات کی بڑی اہمیت ہے، امیدوار کا انتخاب پارٹیاں سوچ سمجھ کر کرتی ہیں، کبھی مذہب کے نام پر تو کبھی ذات پات کی بنیاد پر امیدوار کا انتخاب کیا جاتا ہے
بہت سارے امیدوار انتخاب لڑنے کے معاملہ میں بالکل سنجیدہ نہیں ہوتے وہ اپنے نام کی تشہیر کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں، بعض وہ ہوتے ہیں جو صرف اس لیے کھڑے ہوتے ہیں کہ بعد میں کسی پارٹی سے پیسہ لیکر اپنی امیدواری بیچ دیںگے اور کسی کو حمایت دیدیںگے، خرید بکری کا یہ عمل ہر سطح پر ہوتا ہے، ان غیر سنجیدہ اُمیدواروں کی وجہ سے انتخابی کمیشن کو سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے
جس زمانہ میں ووٹ بیلٹ پیپر سے ہوا کرتا تھا، اس زمانہ میں ان غیر سنجیدہ اور آزاد امیدواروں کی وجہ سے کبھی جہازی سائز کا بیلٹ پیپر چھپوا نا پڑتا تھا، اور کبھی بیلیٹ پیپر اچھا خاصہ فولڈ ر ہوجاتا تھا۔ اب جب کہ ای وی ایم سے ووٹ ڈالے جاتے ہیں، اس میں بھی ان غیر سنجیدہ امیدواروں کے لیے جگہ بنانی پڑتی ہے، ان کا انتخابی نشان ڈالنا پڑتا ہے
اس وجہ سے بھی پریشانیاں بڑھتی ہیں، اس کا حل شروع سے ہی یہ نکالا گیا کہ ہر امیدوار سے متعینہ رقم ضمانت کے نام پر لی جائے، یہ ضمانت کی رقم اس کی سنجیدگی کو متعین کرنے کے لیے ہوا کرتی ہے، لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات میں ضمانتی رقم کا تذکرہ ریپرزنٹو آف پپلز ایکٹ1951 اورنائب صدر سے متعلق ضمانتی رقم کا تذکرہ پریسیڈنٹ اینڈ وائس پریسیڈنٹ الیکشن ایکٹ 1952 میں موجود ہے، ان دنوں پارلیامنٹ کے امیدواروں سے پچیس ہزار روپے لیے جاتے ہیں
اگر امید وار ایس سی، ایس ٹی زمرہ کے ہوں تو ان کی ضمانت کی رقم عام طبقات کے امیدواروں کے مقابلے نصف ہوجاتی ہے، یعنی انہیں اپنی امیدواری کے وقت ضمانت کے نام پر ساڑھے بارہ ہزار روپے جمع کرنے ہوتے ہیں۔ اسمبلی انتخاب میں امیدواری کے لیے یہ رقم عام طبقات کے لیے دس ہزار اور ایس سی ایس ٹی امیدواروں کے لیے صرف پانچ ہزار ہے
وزیر اعظم من موہن سنگھ کے دور حکومت میں اس وقت کے چیف الیکشن کمیشن ٹی ایس کرشنا مورتی نے انتخابات میں شفافیت لانے کے لیے کچھ تجاویز پیش کی تھیں، ان کی تجویز کے مطابق ہی ضمانت کی رقم میں اضافہ ہوا، ورنہ پہلے یہ رقم لوک سبھا کے لئے دس ہزار اور اسمبلی کے لئے پانچ ہزار ہی ہوا کرتی تھی، صدر جمہوریہ کے انتخاب میں ضمانت کی رقم تمام امیدواروں کے یکساں طورپر پندرہ ہزار روپے ہوا کرتی ہے۔
یہ رقم بہت زیادہ نہیں ہے، لیکن اس رقم کا ضبط ہونا تو ہین کی بات سمجھی جاتی ہے، عام بول چال میں اس کو ’’ضمانت ضبط‘‘ ہونا کہتے ہیں، ضمانت ضبط ہونے کے لیے اصول مقرر ہے کہ اگر امیدوار نے کل صحیح رائے دہندگی (ووٹ) کاچھٹا حصہ یعنی 16.66 حاصل نہیں کیا تو اس کی ضمانت ضبط ہوجائے گی
فرض کیجئے کہ کسی سیٹ پر صحیح ووٹ ایک لاکھ پڑے اور پانچ امیدواروں نے 16666 ووٹ حاصل کیے تو سب کی ضمانت ضبط ہوجائے گی، یہ اصول صدر اور نائب صدر جمہوریہ کے انتخاب پر بھی نافذ ہوتا ہے، جو امیدوار ووٹ کا چھٹا حصہ حاصل کرپاتے ہیں ان کی ضمانت کی رقم واپس کردی جاتی ہے
اسی طرح اگر ووٹنگ سے پہلے امیدوار سفر آخرت پر روانہ ہوگیا تو بھی اس کی ضمانت کی رقم واپس کردی جاتی ہے، امیدوار نے نامزدگی واپس لے لی تو بھی یہ رقم الیکشن کمیشن واپس کردیتا ہے
گذشتہ چند انتخابات میں ضمانت ضبط ہونے والے امیدواروں کی تعداد کثرت سے بڑھی ہے، سیاسی پارٹیوں کے انتخاب اور الائنس کی وجہ سے آزاد امیدواروں کے ووٹوں کی تعداد گھٹتی جا رہی ہے اور ان کی جیت کا تناسب بھی اعشاریہ میں چلا گیا ہے، اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ غیر سنجیدہ امیدوار جیت کے لیے نہیں ہار نے یا ہرانے کے لیے لڑتے ہیں،ا س لیے وہ بڑی رقم خرچ نہیں کرنا چاہتے، وہ گھر گھر جا کر پرچار بھی نہیں کرتے، بعض دفعہ ان کے پاس وسائل کی بھی غیرمعمولی کمی ہوتی ہے اور ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ قاعدے سے اپنی تشہیر کر سکیں، اتحاد کی سیاست میں زیادہ تر مقابلے دو طرفہ اور کبھی کبھی سہ طرفہ ہوا کرتے ہیں، ایسے میں آزاد امیدوار کو نیچے پائیدان پر بھی جگہ نہیں ملتی اور وہ اپنی ضمانت گنوا بیٹھتے ہیں۔
پارلیامنٹ کے دو انتخاب منعقدہ 2014اور 2019کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ بہار میں 2014میں 84.35فی صد امیدواروں کی ضمانت ضبط ہوئی تھی، ان میں قومی سیاسی پارٹیوں کے پینتالیس (45)ریاستی سطح کی پارٹی کے چوبیس(24)رجسٹرڈ پارٹیوں کے (274)اور آزاد امیدواروں میں سے ایک سو انہتر (169)شامل تھے، 2019کے انتخاب میں یہ تعداد قومی، ریاستی اور رجسٹرڈ سیاسی پارٹیوں کے امیدواروں میں کم ہوئی تھی، لیکن آزاد امیدواروں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا تھا، جائزہ کے مطابق قومی سیاسی پارٹی کے تینتالیس (43)، ریاستی سطح کی پارٹی کے ایک (01)رجسٹر ڈدلوں کے دو سو بہتر (272)اور آزاد امیدواروں میں دو سو تین (203)کی ضمانت ضبط ہوگئی تھی۔
2014میں بہار کے پارلیمانی انتخاب میں چھ سو سات (607)آزاد اور مختلف رجسٹرڈ دَلوں کے امیدوار میدان میں تھے، ان میں مردوں کی تعداد پانچ سو ساٹھ (560)اور سینتالیس (47)خواتین تھیں، ان میں چار سو چھہتر(476)مرد اور چھتیس (36)عورتوں نے ضمانت کھوئی تھی، مردوں میں ضمانت ضبط ہونے کا تناسب 85فی صد اور عورتوں میں 76.60 رہا
2019میں چھ سو چھبیس(626)آزاد اور غیرسنجیدہ امیدواروں نے پرچہ? نامزدگی داخل کیا، مرد پانچ سو چھپن (556)اور عورتیں ستر(70)تھیں، ان میں سے پانچ سو چھیالیس (546)امیدوار اپنی ضمانت بچا نہیں پائے، ان کا اوسط 87.22فی صد رہا، چار سو اٹھاسی مرد اور انٹھاون عورتیں (82.86)فیصدکو یہ ذلت اٹھانی پڑی۔
اب ایک نگاہ ضمانت ضبطی کے حوالے سے بہار اسمبلی انتخابات پر بھی ڈالتے چلیں، اسمبلی انتخابات پارلیامانی انتخاب کے ایک سال بعد یعنی 2015اور 2020میں ہوئے تھے، بہار اسمبلی کے لیے چونتیس سو پچاس آزاد امیدوار میدان میں تھے۔ 3177مرد اور 273عورتیں تھیں، ان میں سے 2935امیدواروں یعنی 85 فیصد کی ضمانت ضبط ہوئی، جن میں مردوں کی تعداد 2714(85.43)اور عورتوں کی تعداد221 (80.95)فی صد رہی، 2020میں آزاد امیدواروں کی تعداد بڑھ کر 3733ہو گئی، جن میں 3362مرد اور تین سو ستر عورتیں تھیں۔3205 (85.86) امیدواروں کی ضمانت ضبط ہوئی۔ 2902 (86.32)مرد اور 302 (81.62)عورتیں تھیں۔
اس جائزہ سے واضح ہوتا ہے کہ پارلیامنٹ کی بہ نسبت اسمبلی انتخابات میں غیر سنجیدہ اور آزاد امیدواروں کی تعداد بڑی ہوتی ہے، ضمانت کی اس چھوٹی رقم کے ضبط ہوجانے سے ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، لیکن انتخابی کمیشن کو انتظام وانصرام میں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کا حل دو ہے ایک تو یہ کہ زر ضمانت میں اس قدر اضافہ کیا جائے کہ غیر سنجیدہ امیدوار پرچہ نامزدگی داخل نہ کریں، دوسرا حل یہ ہے کہ جس طرح ووٹر بیداری مہم پر انتخابی کمیشن توجہ دے رہا ہے، اسی طرح اس کو روکنے کے لیے بھی مثبت اقدام کرے تاکہ یہ سلسلہ مزید دراز نہ ہو۔
جھوٹ کی مَنڈی
Pingback: ممتاز احمد خان اردو کے سچے خادم تھے، اردو والے اپنا محاسبہ خود کریں ⋆ اردو دنیا