والدین کی اطاعت کا پھل

Spread the love

1998 میں ، میں میکنیکل ٹیکنالوجی میں ڈپلومہ کر چکا تھا اور نوکری کی تلاش جاری تھی اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے نوکری مل بھی گئی اور نوکری کے فوراً بعد ہی میری شادی کر دی گئی ،زندگی کی آسائشیں جمع کرنے کے لیے ہم نے بھی تگ و دو شروع کر دی ۔ کچھ ہی عرصے کے بعد سعودی عرب سے ایک اسٹیل انڈسٹری کے لیے کچھ نوکریوں کااشتہار آیا تو ہم نے بھی قسمت آزمائی کا سوچا۔

کہاں 35 ہزار روپے اور کہاں ڈیڑھ دو لاکھ روپے یہ سوچ کر ہم نے بھی اپلائی کرنے کا ارادہ کیا دیگر کو لیگز نے بھی ہمیں برانگیختہ کیا بھئی کوشش کرنے میں کیا حرج ہے ۔


ہمیں اندازہ تو تھا کہ ہمیں گھر سے اجازت نہیں ملے گی ،پھر بھی ہم نے گھر میں بات کی تو ہمارے تمام اندیشے سچ ثابت ہوئے ، اکلوتے بیٹے کو باہر ملک جانے کی اجازت دینا بہت مشکل بلکہ ناممکن فیصلہ تھا کہ وہ مجھے کچھ دیر اپنی آنکھوں سے دور نہیں رہنے دینا چاہتے تھے چہ جائیکہ کسی دوسرے ملک ۔

والد صاحب نے نہایت شفقت سے سمجھایا کہ دیکھو ! جو تمہارے نصیب میں ہے وہ تمہیں مل جائے گا۔تم اس کے لیے پریشان نہ ہو ۔


ان کی شفقت ومحبت کی وجہ سے میں نے باہر جانے کا ارادہ مکمل طور پر اپنے ذہن سے حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا۔
دن گزرنے لگے ،پھر میں نے بی اے کیا ڈبل ایم اے کیا ، ایم فل کر ہی رہا تھا کہ کہ لیکچرار شپ ہو گئی ، پی ایچ ڈی مکمل ہوا اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اسسٹنٹ پروفیسر بھی ہو گیے ۔


کبھی کبھی ماضی کی پوری فلم آنکھوں کے سامنے چلنے لگتی ہے اس وقت جو فیصلہ والدین کی خوشنودی اور ان کی محبت میں کیا تھا وہ 100 فیصد درست ثابت ہوا،والدین کی دعا اولاد کے حق میں قبول ہوتی ہے کسی مرشد کے پاس جانے کی حاجت نہیں ۔

زندگی میں دین کی خدمت کی ایک سعادت یہ بھی ملی کہ بچوں کے لیے دینی ادب لکھا ا ور یہ ہی زندگی کا نصب العین بن گیا، یہ کام نہ صرف نسلوں کے لیے ہے بلکہ خود اپنے لیے اور والدین کے لیےبھی صدقہ جاریہ کا سبب ہو گا ان شاء اللہ ۔
آج شاید میں سعودی عرب کی کسی اسٹیل انڈسٹری میں زندگی کی آسائشیں تو تلاش کر لیتا لیکن جو عزت ،مقام ملا وہ کبھی حاصل نہیں ہوتا ۔
آج کے نوجوان سے چند باتیں عرض کروں گا سب کے حالات ایک جیسے نہیں ہوتے باہر جانا ضروری ہے تو ضرور جائیے والدین کی اجازت سے جائیے دوسری اہم بات آج کے جدید دور میں جب وڈیو کالنگ کی سہولت ہےاپنے والدین کو ایک کال روزانہ ضرور کیجیے والدین شاید پیسوں کے بغیر جی لیں لیکن آپ کے بغیر جینا ان کےلیے روز مرنے جیسا ہو جاتا ہے ۔


ایک اور اہم بات اگر آپ کے والدین باہر ہیں یا وہ باہر رہے ہیں تو ان کی قدر کیجیے انہوں نے آپ کی زندگی کی آسائشوں کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا کوشش کیجیے ان کو آپ کی ذات سے کوئی تکلیف نہ پہنچے اب یہ بڑھاپے کی حدود میں ہیں ۔


آپ کی چھوٹی سی بات ،تھوڑا سا منفی رویہ ان کو شدید تکلیف دےگا اس کا اولین نقصان تو آپ کو یہ ہو گا کہ آپ کی آخرت بھی خراب ہوجائے گی اور دوسرا نقصان دنیا کا یہ ہو گا کہ کل آپ بھی یہ سب دیکھیں گے کیونکہ ایک بات تو طے ہے کہ آپ ایک کتاب لکھتے ہیں ’’ والدین سے آپ کا سلوک ‘‘ اور اس کتاب میں آپ نے کیا لکھا ہے یہ پڑھ کر آپ کی اولاد آپ کو سنائے گی ۔


اپنی نسلِ نو خصوصاً نئے والدین سے کہوں گا ذرارکو! کچھ دیر کے لیے سوچو تم ابھی نئے نئے والدین بنے ہو کیسا لگتا ہے جب یہ ننھا سا وجود جنم لیتا ہے تمہاری کیفیت کیا ہوتی ہے جب یہ بولنا شروع کرتا ہے تم کیسا محسوس کرتے ہو جب یہ چلنا شروع کرتا ہے ،لمحہ بہ لمحہ تمہیں زندگی سرور دیتی ہے ۔پھر جب یہ بڑا ہو جائے اور تم پر چلّائے تو تمہیں کیسا لگے گا؟ کچھ دیر کا احساس تمہیں والدین کی نافرمانی سے بچا لے گا۔
اللہ کریم ہم سب کو والدین سے محبت کرنے اور ان کی نافرمانی سے بچنے کی توفیق عطا فرماۓ۔آمین


اسمٰعیل بدایونی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *