تنقید کے نام پر اکابرین سے بدتمیزی اور گستاخی
از: غلام آسی مونس پورنوی، تنقید کے نام پر اکابرین سے بدتمیزی اور گستاخی کی آگ اہل سنت کی فصلوں کو جلا کر کہیں راکھ نہ کردیں
تنقید کے نام پر اکابرین سے بدتمیزی اور گستاخی
محترم قارئین : آج کے دور کا ایک عجیب المیہ ہے کہ جس کو دیکھو وہ تنقید کا بے تاج سلطان بننے کو مضطرب ہے
کیوں کہ تنقید کا فن ایک ایسا فن ہے جس سے کبھی کبھی خوب واہ واہی حاصل ہوجاتی ہے، مگر کبھی کبھی اس فن کے ماہرین اپنے نامۂ اعمال کو سیاہ کر بیٹھتے ہیں
اور انہیں خبر تک نہیں ہوتی، آج کل کا حال ہے کہ ہر چوک چوراہے کی چائے کی دکانوں میں کوئی نہ کوئی ناقد آسانی کے ساتھ آپ کو ببن میاں کی چائے کی دوکان میں گرماگرم چائے کی چسکیاں لیتا ہوا مل ہی جائے گا، جگہ جگہ نام نہاد ناقدین برساتی مینڈک کی طرح پھدکتے ہوئے نظر آہی جائیں گے ، میرے ایک عزیز کہتے ہیں کہ
میاں ایسا لگتا ہے کہ دنیا میں ناقدین کی وبا پھیلی ہو، کیوں کہ آج کے دور میں ایسے ایسے لوگ اپنے آپ کو ناقد کہلانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں جو حقیقتاً فن تنقید کے تا سے واقف نہیں
ان غیر عاقبت سناش ناقدین نے ایسا وایلا برپا کر رکھا کہ اہل سنت کا بڑا بڑا سے عالم انہیں اپنے سامنے بونا نظر آتا ہے، حقیقت تو یہ کہ یہ ان کے علوم وفنون کے سامنے طفل مکتب کی بھی حیثیت نہیں رکھتے
اگروہ…… کردیں تو یہ ان کے..کے سیلان میں ایسے بہہ جائیں کہ ان کا نام نشان تک معدوم ہوجائے، یہ بات حقیقت ہے کہ ان کی بے محل اور غیر ضروری، اور غیر دیانتداری، و غیر مہذبی تنقید نے یقیناً اہل سنت کے شیرازہ کو منتشر کرنے کا ایک اہم کردار ادا کیا …
کیوں کہ جس طرح. . نیم حکیم خطرۂ جان ہے اسی طرح یہ جہلا ناقدین اہل سنت کے ایمان کے لیے خطرہ ہوسکتے ہیں،،
کیو ں کہ انہیں حقیقت میں اصول وفروع کا علم نہیں ہوتا، کہ اصول وفروع کے احکامات کیا ہیں.. بس ان کا یہ مشغلہ ہوتا ہے کہ ہوا میں تیر چلایا جائے، اگر تیر نشانے پر لگا تو سبحان اللہ، اور نہیں لگاتو کوئی بات نہیں،،،، یہ نام نہاد ناقدین…
اپنے اپنے پیروں کے اندھ بھکت ہی ہوتے ہیں کہ ان کے پیر کی زبان اقدس سے جو بات نکلی وہی حرف آخر ہے، اس کے خلاف جو کچھ ہے وہ سبھی غلط ہیں
اگر حق پر کوئی ہے تو وہ اور ان کے پیر صاحب ہیں یقیناً ان کی یہی اندھی عقیدت نے شیرازۂ اہل سنت کو منتشر کررکھا ہے، کبھی کبھی تو یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ان بد تمیزقسم کےناقدین نے اہل سنت کے بڑے بڑے علما کو بھی اہل سنت کے دروازے سے باہر نکالنے کی بھی ناپاک جسارت کرڈالی….
مجھے تو تعجب ہوتا ہے کہ ان جیسوں کو مولوی کی دستار وسند کس ادارے نے دی ہے، جو ابھی تک اختلاف کو نہ سمجھ سکا ہو
حالاں کہ درس نظامی کے ابتدائی جماعتوں سے ہی فروعی اختلافات کتابوں پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیں ، مگر درس نظامی کے جملہ کتب میں کہیں پر بھی فروعی مسائل میں اختلاف کرنے والے ائمہ نے اپنے مدمقابل کو کبھی برا بھلا کہا ہو نظر نہیں آتا ائمہ اربعہ، وصاحیبن وجانبین کے اختلافات سے کتب درس نظامیہ بھری پڑی ہیں، اتنے سارے اختلافات کے باوجود بھی ان آئمہ مجتہدین نےایک دوسرے کے ادب تعظیم کو ملحوظ رکھا
امام الائمہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے تلامذہ نے امام اعظم سے اختلاف کیا مگر امام اعظم نے کبھی ان پر فتاوی صادر نہ فرمایا، امام شافعی کا اختلاف امام اعظم سے ہوا، مالک و حنبل کے درمیان اختلافات ہوئے، امام محمد وامام ابو یوسف کے درمیان اختلافات ہوئے، یہاں تک کے حضور صدرالشریعہ نے حضور اعلی حضرت سے اختلاف کیا مگر کسی نے آج تک کسی پر لعن طعن نہ کیا،،،،
کوئی مائی کا لال یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ ان مذکورہ ہستیوں نے فروعی مسائل کے اختلافات کی بنیاد پر ایک دوسرے پر لعن وطعن کیا ہو،،
مگر آج کے کچھ نابالغ قسم کے مفتی جسے رسم المفتی کے رموز سے واقفیت نہیں ہے وہ اہل سنت کے سرخیل علما کے مابین فروعی اختلاف کو، اس طرح سے عوام کے سامنے پیش کرنے کی پلید سعی کررہے ہیں،کہ ایسا لگتا ہے کہ
انہوں نے اختلاف کرکے اسلام کی سرحد کو لانگ کر سرحد کفر پر قدم رکھ دیا ہو ، اور اس نابالغ مفتی کے اس عاقبت سوز تحریروں کو اس کے ناہنجار قسم کے چیلے چمچے شوشل میڈیا کے ذریعے پھیلا کر، بنیاد سنیت کو کمزور کرنے پر لگے رہتے ہیں
یہ بات حق ہے کہ آج اجتہاد کا دروازہ بند ہے….. مگر تحقیق کے ابواب چاروں جانب سے کھلے، تحقیق پیش کرنا ایک محقق کا حق ہے یہ حق ان سے ہرگز کوئی نہیں چھین سکتا
ہاں البتہ محقق کی تحقیقات سے ہرایک کا متفق ہونا ضروری نہیں ہوتا، کوئی بھی محقق دلائل وبراہین کے حوالے سے اپنی تحقیق کو دنیا کے سامنے رکھتا ہے، اب کون کون ان کی تحقیق سے متفق ہے اور کون کون ان سے مختلف یہ ان کے مبلغ علم کا حصہ ہے
اس جگہ میں یہ وضاحت ضروری سمجھتا ہوں، کہ اس سے ہرگز کوئی یہ نہ سمجھیں کہ تنقید کرنا غلط ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے، تنقید تو باضابطہ طور پر ایک فن ہے اور اس فن کے ذریعے ارباب قلم و قرطاس کی شخصیت سنور تی اور چمکتی ہے، مگر تمام فنون کے اصولوں کی طرح فن تنقید کے بھی کچھ اصول و ضوابط ہیں
جس کی لزومیت و پاسداری ناقد کے لیے بے حد ضروری ہے، مگر تنقید و اختلافات کے نام پر کسی بھی محقق کو، گالی دینا، ان کو برا بھلا کہنا، ان کو ذلیل ورسوا کرنا، انہیں غدار وباغی بتانا
ان کی شبیہ خراب کرنا، یقیناً یہ اہل علم کا شیوہ نہیں ہے، یہ صفات حقیقت میں جہلا کے ہیں، اس لئے فروعی مسائل میں اختلاف کرنے کی بنیاد پر کسی کو بھی برا بھلا کہنا عندالشرع اور عندالناس صحیح نہیں ہونا چاہیے
اور جملہ علماے اہل سنت (چاہے وہ کسی بھی مشرب سے ہوں) کو چاہئے کہ وہ اس قسم کے شیطانی صفات کے حامل، بدتمیز، بےحیا و بے غیرت محررین و ناقدین پر قدغن لگائیں، اور اس قسم کے حرکات پر ان سے مواخذہ ضرور کریں، یقیناً اس قسم کی حرکت اہل سنت کے درمیان آگ کی سرنگ کا کام کرتی ہے
اگر وقت پر اس کی خبر نہ لی گئی تو جماعت اہل سنت کے اتحاد کو نقصان ہوسکتا ہے، اللہ تعالیٰ ہم سبھوں پر اپنا فضل خاص فرمائے آمین ثم آمین
از: غلام آسی مونس پورنوی
خادم دارالعلوم انوار مصطفٰے لکھنؤ