اجالوں کو ڈھونڈو سحر کو پکارو
تحریر: سید سرفراز احمد، بھینسہ :: اجالوں کو ڈھونڈو سحر کو پکارو
مایوسی کفر کی علامت ہے جو انسان کو اور اسکے حوصلے کو سر تا پاؤں توڑ دیتی ہے جو کبھی دوبارہ اس کےحوصلوں کو اٹھنے نہیں دیتی حالات کا تقابل کرنا اور ثابت قدمی کے ساتھ جمے رہنا ہی ایک مضبوط انسان کی علامت ہےاگرچہ انسان جنگ ہارجائے تو شکست تسلیم کرلیں ۔
لیکن ہمت اور حوصلہ نہ ہاریں ہمارے ملک کا موجودہ منظر نامہ بھی کسی جنگ سے کم نہیں ہے حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں لیکن ان نہ مساعد حالات میں بھی مایوسی، حوصلہ شکنی ،قدم ڈگمگانا،یہ کسی مشکل اور پریشانی کا حل نہیں ہے۔
بلکہ ان ہی مشکلات کے ماحول میںں ثابت قدمی،استقامت دکھانا حوصلہ اورامید قائم رکھناحالات کاڈٹ کر مقابلہ کرنا،حق کی شہادت دینا ہی واحد حل ہے ـتاریخ کے حوالے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ عالم اسلام کو ہر بار آزمائشوں کے طوفانوں سے مصائب کے دور سے گذرنا پڑا ان ہی حالات کے اندر جو قوم اتحاد کا مظاہرہ کرتی ہے سر جوڑ کے آپس میں ایک مضبوط لائحہ عمل تیار کرتی ہے۔
تب حالات کا رخ بدلنے دیر نہیں لگتی ہمارا ملک بھی ان ہی حالات سے دوچار ہے ہر روز مسلمانوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں مختلیف سازشوں کے تحت شریعت میں مداخلت کی جارہی ہے اسلام مخالف پروپگنڈے چلائے جارہے ہیں۔
شان رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور امی عائشہ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے نا زیبا کلمات زبان سے اگلے جارہے ہیں مساجد کو نشانہ پر لیا جارہا ہے لیکن ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اسلام ان حالات میں ہم سے کیا مطالبہ کررہا ہے؟۔
اللہ نے ہمیں اسلام جیسےعظیم مذہب میں پیدا کیا ہے جو ہر حال میں ہماری رہ نمائی کرتا آرہا ہے پھر بھی ہمارے ملک کے مسلمانوں میں مایوسی حوصلہ پر کیوں غالب آچکی ہے؟۔
جب کہ قرآن کہہ رہا ہے کہ دل شکستہ نہ ہو غم نہ کرو تم ہی غالب رہو گے اگر چہ کہ تم مومن ہو۔ میں سمجھتا ہوں بھارت کے مسلمانوں کے لیے ان کے اندر حوصلہ پیدا کرنے کے لیے نا امیدی سے امید کی طرف لانے کے لیے قرآن کی یہ ایک ہی آیت کافی ہے اگرچہ کہ مسلمان اس آیت کی روشنی میں اپنے آپ کو نکھار نے کا کام کریں ـوقت اور حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں ہوتے۔
لیکن شرط یہ ہے کہ ہم ہمیشہ ایک جٹ ہوکر رہیں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح متحد رہیں تو کسی بھی مائی کے لال کی یہ جرات نہیں ہوسکتی کہ وہ ہماری شریعت میں مداخلت کرسکے اسلام کو بدنام کرسکے ابھی ملک کے موجودہ حالات بھی چیخ چیخ کر یہی صدا لگارہے ہیں کہ ہم اتحاد کی جڑیں مضبوط کریں فرقوں میں نہ بٹیں ایکدوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا کام نہ کریں۔
لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کا اتحاد انا پرستی سے شکست کھارہا ہے دلوں پر بے حسی طاری ہے جس سے ہماری قوم متزلزل ہوکر آگےکی طرف بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف امت کے وہ ٹھیکیدار جو خود کو اسلام اور مسلمانوں کا نمائندہ تصور کرلیتے ہیں جو گودی میڈیا کی دعوت پرہر آن لبیک کہہ کر ٹی وی مذاکروں میں پہنچ جاتے ہیں مسلمانوں کی اور اسلام کی شبیہ کو متاثر کرتے ہوئے غلط نمائندگی کررہے ہیں۔
حالاں کہ جو بھی مسائل ہوں وہ قانونی طور پر عدلیہ میں زیر التواء ہے پھر بھی یہ نیوزیزکے مذاکروں میں شرکت کرنے سے گریز نہیں کررہے ہیں ابھی گیان واپی مسجد کا معاملہ بام عروج پر ہے جبکہ معاملہ عدالت میں ہے پھر بھی وہ کونسے مسلمان ہے جو مسلمانوں کی نمائندگی کرنے کے لیے ٹی وی مباحثوں میں حصہ لیتے ہیں ۔
حالاں کہ اس بات کا علم ہر صاحب فہم کو پتہ ہے کہ میڈیا کے مذاکروں میں جوش اور ولولہ میں لاکر زبان سے کچھ بھی اگلایا جارہا ہے جو مسلمانوں کے حق میں دشوار کن ثابت ہوسکتا ہے دوسرے یہ کہ پورا ملک جان چکا ہے قومی میڈیا گودی میڈیا کے طور پر حکومت کی جانبدار بنی ہوئی ہے۔
پھر کیوں امت کے وہ چہرے جو ٹی وی مذاکروں سے پرہیز نہیں کررہے ہیں جنکی بار بار شرکت نے بھی امت کے زہنوں میں کئی سوال شک و شبہات کے کھڑے کردیئے ہیں کیا یہ جھوٹی اور معمولی شہرت کیلئے ان مباحثوں میں حصہ لیتے ہیں؟
جس کے نتائج الٹے بھی ثابت ہوسکتے ہیں اور حقیقت میں یہ اسلام اور مسلمانوں کی ترجمانی کے بجائے دلال میڈیا کا کام آسان کررہے ہیں ۔
حالاں کہ درحقیقت موجودہ صورتحال میں یہ کام اصل سے بالکل الگ ہیں پھر بھی یہ باز نہیں آرہے ہیں ـفی الحال ایسے حساس معاملوں میں ٹی وی مباحثوں میں حصہ لینا اور من چاہی باتوں کے ذریعہ اسلام کا دفاع کرنا گلے میں طوق ڈال لینے کے مترادف ہوگا۔
نہ ہی اس سے مسلمانوں کے لیے کوئی راہ نکلے گی نہ کچھ حاصل ہوگا بلکہ یہ جانبدار میڈیا کی سازش ہے کہ وہ کسی بھی داڑھی رکھنے والے کو اسٹوڈیو میں بٹھا کر سوالات کے نرغہ میں پھنسانا چاہتی ہے اور حال تو ایسے ہوگیا کہ ہم خود ان کے جال میں پھنسنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں گودی میڈیا۔
ایسے حساس مذاکروں کے زریعہ مسلمانوں کو اندھیرے کی طرف ڈھکیلنا چاہتی ہے اور اسی میں ہمیں مشغول رکھنا چاہتی ہے تو کیا ہم تاریکی کی طرف جانے اور لے جانے کے لیے ان ٹی وی مباحثوں میں حصہ لے رہے ہیں؟۔
یا پھر شہرت اور نام کمانے کے لیے جارہے ہیں؟۔
اگر نہیں تو سنبھل جائیے ایسے مباحثوں میں جاکر رونے دھونے چیخ وپکار کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا ہے ـاگر ہم فسطائی طاقتوں سے یا حکومتوں کے نااہل فیصلوں سے مقابلہ کرنا چاہتے ہوں یا ہمارے حقوق کو حاصل کرنا چاہتے ہوں تو ہمیں چاہیئے کہ ہم زمینی سطح سے کام کا اغاز کریں اپنی صفوں کے اندر اتحاد کے مذاکرے چلائیں۔
مسلمانوں میں دینی شعور اور موجودہ ماحول میں کرنے کے کام کا شعور بیدار کریں مساجد کو آباد کرنے قانونی دائرہ کار میں شامل کرنے کی مہم چلائیں دوسری جانب تمام دینی و ملی تنظیمیں سر جوڑ کر ایک ٹھوس لائحہ عمل تیار کریں جو بھی فیصلہ کریں متفقہ طور پر کریں
تاکہ امت کے سامنے ایک ہی انتخاب کا راستہ ہو نہ یہ کام میڈیا کے ایر کنڈیشن اسٹوڈیو میں بیٹھ کر کیا جاسکتا ہے نہ ایک دوسرے پر لعن طعن کرنے سے ،اگر ایک منظم منصوبہ بندی کے ذریعہ مندرجہ بالا کام کریں گے تو امت کے ایک ایک فرد کے اندر حوصلہ ہمت استقامت اور امید جیسی صفات بھی پیدا ہوں گی۔
جو امت کے مفاد میں ہوگا جو وقت اور حالات کے لحاظ سے انتہائی ناگزیر ہے یہی مطلوبہ صفات سے ملت کو نا امیدی سے امید کی طرف لایا جاسکتا ہے تاریکی سے روشنی کی طرف لایا جاسکتا ہے۔
جس کے بعد وقت کے حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور بھی کیا جاسکتا ہےـ شاعر ضیاء فتح آبادی اس شعر کے ذریعہ یہی پیغام دینا چاہتے ہیں ـاجالوں کو ڈھونڈو سحر کو پکارواندھیروں میں رونے سے کیا فائدہ ہے۔
ـسید سرفراز احمد، بھینسہ