قرآن سے لا تعلقی ہی باعث بربادی ہے
قرآن سے لا تعلقی ہی باعث بربادی ہے !
یہ بات کسی پر مخفی نہیں ہے کہ اللہ رب العزت نے لوگوں کے بھلائی کے لئے کثیر تعداد میں انبیاے اکرام کو مبعوث فرمایا اور انہیں راہِ راست دکھانے کے لیے بہت سارے صحائف اور آسمانی کتابوں کا نزول فرمایا جس کی کوئی مثیل ونظیر نہیں ۔
مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا صحائف اور کتابوں میں انحراف آتا گیا اور لوگوں کے اپنے مرضی کے مطابق ان میں رد وبدل کا طریقہ اختیار کیا جس کانتیجہ یہ ہوا کہ آج اس دور میں ان صحائف اور کتابوں کا ایک بھی اصلی کاپی موجود نہیں ہے ۔
چوں کہ قرآن کا نزول ختم رسل تاجدارِ مدینہ محمد مصطفی ﷺپر ہوا اور اللہ نے تاقیامت اس کی حفاظت کا ذمہ لیا یہ آج بھی ہمارے ما بین بنا کسی تحریف کے موجود ہے اور تا قیامت یوں ہی محفوظ رہے گا ۔ جہاں تک حفاظت کی بات ہے اس کی فکر ہمیں کرنے کی کوئی ضرورت مگر اس کا احترام اور اس کی عزت واجب ہے اور اس میں کوئی دور آئے نہیں ہے ۔ ’’
ہے قول ِمحمد ﷺقول ِ خدا فرمان نہ بدلا جائے گا …
بدلے گا زمانہ لاکھ مگر قرآن نہ بدلا جائے گا‘‘۔
آج کے اس پر آشوب وپر فتن ماحول میں جہاں پر دنیاوی علوم کا بول بالا ہے لوگوں نے اسلامی تعلیمات سے پیچھا چھڑا لیا ہے اور وہ اس بات سے خوش بھی ہیں ،جہاں دنیاوی عہدِداری کے لیے اپنی آخرت کی فکر کوئی معنی نہیں رکھتی ،جہاں سائنس اور انگیزی کو ہی تعلیم محض سمجھا لیا ہے ،جہاں پر جہالت و بدعت کو ترقی کا نام دے دیا گیا ہے
،جہاں پر اسلامی شعار کو ایک عیب ہو کرگن لیا گیا ہے ،جہاں لڑکیوں کے کھلے بازار نکل جانے کو آزادی کا نام دے دیا گیا ہے ،جہاں پر زنا جیسی بدکاری کو عام کردیا گیا ہے اوراسے عیب نہیں بلکہ آزادی قرار دے دیا گیا ہے ،جہاں معصوموں کو ظلم وبربریت کا شکار بنایا دیاگیا ہے، وہاں لوگوں نے اسلام اور اس کے علوم وفنون سے کنارہ کشی اختیار کرنا شروع کر دیا ہے ۔
پتا نہیں کیوں مگر انہیں اب اسلام سے کوئی خاص تعلق نہیں رہ گیا ہے سوائے اس کے کہ وہ ایک خدا کے قائل ہیں،جمعہ اورعیدین کے دنوں میں نمازپڑھ لیتے ہیں بس۔
قرآنی تعلیمات:
جہاں تک بات رہی قرآنی تعلیمات کی وہ لا محدود ہیں یعنی ہم کسی ایک موضوع کو خاص نہیں کرسکتے کہ فلاں موضوع پر قرآن میں بحث کی گئی ہیں کیوں کہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ قرآن میں ایک نہیں بلکہ بہت سے موضوعات دیکھے اور پڑھے جاسکتے ہیں ۔
تاریخ ،عقائد ،سائنس ،شریعت ،سماجیات، اخلافیات ،وغیرہ وہ ضروری علوم ہیں جن کو بدیہی نظر سے ہی سمجھا جا سکتا ہے مگر چند ایسے بھی علوم ہیں جن کو اخذ کرنا ہم جیسے سادے بندوں کے بس میں نہیں ہے بلکہ اس کے لیے ویسی شخصیت بھی ہو نی چاہئے ۔اب جب اتنا سب کچھ قرآن میں موجود ہے تو پھر ہمیں غیروں کا سہارا کیوں لینا پڑرہا ہے ؟
اس کا جواب بہت ہی آسان ہے ’’جب آپ نے خودہی اپنے دین کو سمجھنے سے قدم پیچھے ہٹا لیا ہے تو اس میں غیر کی کیا غلطی ہے ؟ بلکہ دیکھنے کو تو یہ ملا ہے کہ وہ غیر حضرات جنہوں نے قرآن مجید کو عدوانہ انداز میں پڑھا تھا مگر پھر اسلام اور قرآ ن کے معجزات دیکھنے اور سمجھنے کے بعد اس کے قائل ہو گئے اور ایسی بے شمار مثالیں مل جائیں گیں‘‘۔
مسئلہ یہ نہیں ہے یہ کہ لوگ قرآن کو پڑھنا چھوڑ دئے ہیں بلکہ الحمد للہ بہت سارے لوگ آج بھی قرآن کو صبح وشام حتی الامکان پڑھتے ہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ اب لوگوں نے قرآن کو سمجھنا چھوڑ دیا ہے اسے یاد کر نا چھوڑ دیا ہے اور لوگوں کو قرآن کے معجزات بتا نا چھوڑ دیا ہے کیوں کہ انہیں معجزات تو صرف اورصرف سائنس کی تحقیقات میں نظر آتے ہیں انہیں معجزات تو سائنس دانوں کی باتوں میں نظر آتے ہیں ۔
بہرحال اب وہ زمانہ ختم ہوتا جارہا ہے جب لوگ عربی زبان کو محض اس لیے سیکھتے تھے کیونکہ اللہ نے قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا ،جب لوگ قرآن کو پڑھ کر اس کے معانی کے اندر تحقیقی جائزہ لیا کرتے تھے ،جب لوگ قرآن کے الگ الگ تراجم وتفاسیر سے عوام میں قرآن تعلیمات کو عام کیا کرتے تھے ،اب تو وہ زمانہ ہے جہاں لوگوں تعلیم تو صرف اور صرف انگریزی زبان ومایتعلق بہ …کو سمجھ لیا ہے اور اس کے علاوہ جو بھی ہے وہ بکواسِ محض ہے ۔
قرآن سے لاتعلقی کے وجوہات: کسی مومن باللہ ورسولہ کے قرآن سے دوری بنانے یا بن جانے سے بھی زیادہ خراب اور کیا ہوسکتا ہے ؟یعنی کہ یہ ایک ایسی عجیب بات ہے جس کی کوئی مثیل ونظیر چراغ لے کر ڈھونڈھنے سے بھی نہیں ملے گی۔جہاں تک بات رہی قرآن سے لاتعلقی کے وجوہات کی تو اس کی بہت ساری صورتیں ہو سکتی ہیں ۔مثلا:
(۱) قرآن کو صرف ایثالِ ثواب کے وقت یاد کرنا :ہمارا معاشرہ چاہے اس بات کو مانے یا مانے مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اب لوگوں کو قرآن صرف اور صرف اسی وقت یا د آتا ہے جب ان کے اہل وعیال ،دوست واحباب یا رشتے دار میں کسی کا انتقال ہوجائے او ران کی روح کے لیے ایصال ِ ثواب کی تقریب یعنی قرآن خوانی کی محفل منعقد کی جائے ۔
اس سے بھی بڑی بات ایسے حالات میں بہت سارے لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں قرآن پڑھنا آتا ہی نہیں تب وہ مدارس کے طلبا کو دعوت دے کر بلاتے ہیں اور پھر قرآن خوانی کی رسم کو پورا کیا جاتا ہے ورنہ تو گھروں میں قرآن اپنے لفافے میں باندھے باندھے ایسے ہی رکھا رہتا ہے جس کی کوئی خاص اہمیت نظر نہیں آتی ہے ۔
ایک واقعہ یا دآرہا ہے ،تقریبا ۷یا ۸ سال پہلے کی بات ہے جب ہم ممبئی میں پڑھائی کررہے تھے
ایک دن ایک حضرت کے گھر قرآن خوانی کی دعوت پر ہم تقریبا ۱۷ لوگ پہنچ گئے اور پھر ہم نے ان سے قرآن کے پارے مانگے جس پر وہاں موجود ایک خاتون نے کہا ’’پارہ !یہ کیا ہوتا ہے ؟‘‘اب ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے اگر مسلمان کو پارہ کا مطلب بھی نہ معلوم ہو تو پھر کیا ہی معلوم ہوں گیں دوسری چیزیں!۔
(۲) قرآن برائے نام سیکھنا :ہمارے یہاں ایک خاص چیز دیکھنے کو ملی ہے کہ جب بچے اس عمر کو پہنچ جاتے ہیںکہ جب انہیں بولنا آجائے تو انہیں اپنے گاؤں کے مکتب بھیجنا شروع کر دیا جاتا ہے جس سے وہ الف با تا پڑھنا سیکھ لیتا ہے اور حرو ف کی پہچان ہوجاتی ہے ۔
اور پھر وہ قاعدے سے یسرنا القرآن اورپھر عم پھر الم او راس کے بعد قرآن مگر اس مرحلے تک پہنچتے بہنچتے اس کی عمرتقریبا ۱۴ سال ہو جاتی ہے اور ہمارے یہاں اس عمر کو کمانے کی عمر سمجھتا جاتا پھر کیا ہوتا ہے ؟انہیں کمانے کے لیے تیار کیا جاتا ہے اور پھر اس کے بعد وہ تو بھول ہی جاتے ہیں کہ انہیں کبھی قرآن کا علم حاصل ہوا تھا ،انہوں نے کبھی الف ،با یا تا کی کلاس سنی تھی اور یہی وجہ ہے کہ قرآن کو آدھا ادھورا پڑھا جاتا ہے اور پھر اسے بھلا دیا جاتا ہے ۔
(۳) پڑھ کر بھلا دینا :آج کل کا زمانہ جتنا ہی ترقی کرتا جارہا ہے لوگوں کی یاددہانی اتنی ہی کمزور ہوتی جارہی ہے ۔یاد رکھئے انسان کتنابھی ترقی کر لے ہرگز وہ خالقِ کائنات کی مخلوقات کو زیر نہیں کرسکتا اوراس میں کوئی شک نہیں ہے ۔اب چونکہ بھولنا بھلانا ایک عام سی بات ہو گئی کوئی اب ان مسائل کو سنگینی سے نہیں لیتا ۔
اب بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بہت سارے حضرات قرآن کو ناظرہ پڑھنا شروع کرتے اور پھر اچانک پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جلد ہی اسے بھول جاتے ہیں اور ان کے دماغ میں قرآنی الفاظ تک نہیں باقی رہ جاتے ہیں ۔
بیشتر حفاظ اکرام کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آتا ہے کہ وہ چند پارے کا حفظ کا مکمل کر لیتے ہیں اور پھر انہیں اچانک اپنا تعلیمی سلسلہ روکنا پڑ جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں قرآن سے تعلق توڑنا پڑ جاتا ہے اور پھر وہ اسے بھول جاتے ہیں ۔
یہ تو ایک حد قابلِ قبول بات ہے مگر حد تو تب پار ہو جاتی ہے جب مکمل قرآن کریم کا حفظ کر نے کے بعدبہت سارے حفاظ سستی اور کاہلی کے شکار ہونے کی بنا پر قرآن کو بھول جاتے ہیں اور در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں جس سے انہیں کافی دقتوں کا سامنا کر نا پڑتا ہے ۔
مالحاصل بات یہ ہے کہ آج ہم مسلمانوں کا جو حال ہے اس سے دنیا کا کوئی بھی شخص نا آشنا نہیں ،کوئی بھی ایسا آدمی نہیں ملے گا جسے مسلمانوں کے خلاف ہوتی ہوئی نا انصافیاں نظر نہ آئیں،کوئی بھی ایسے کان نہیں ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف ہونے والی سازشوں کو نہ سنا ہو
بہر حال بات یہ ہے کہ ہمارے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات کی خبر ہر کسی کو ہے چاہے وہ ہندوہو ،سکھ ہو ،پارسی ہو،عیسائی ہو یا وہ خود مسلمان ہی کیوں نہ ہو ۔آج ہم جس طرح کی ذلت وحقارت میں پھنسے ہوئے ہیں،جس طرح کے مصائب نے ہمیںگھیر رکھا ہے ،آج ہم جن جن دنیاوی و دینی بربادیوں میں اٹکے ہوئے ہیں کہیں نہ کہیں یہ سب قرآن سے لاتعلقی کا خمیازہ ہے ۔
یاد رکھیں جس نے اللہ کی کتاب یعنی قرآن کی عزت کی اور اسے اپنایا تو وہ دنیا وآخرت دونوں جگہ کام یاب ہے اور جس نے اس کے بر عکس کیا اس کا انجام اس کے برعکس ہو گا ۔بس اتنی بات ہے کہ قرآن کی عزت کرنے کی حتی الامکان کوشش کریں اسے سیکھیں ،پڑھیں ،پڑھائیں اور لوگوں کے درمیان اسے عام کریں اور حفاظ اکرام کی بہت بہت عزت کریں ۔
سیف علی شاہ عدمؔ بہرائچی
متعلم جامعہ دارالہدی اسلامیہ
اگر اردو مسلمانوں کی ہو جاۓ تو کیا ہوگا
Pingback: یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے ⋆ سیف علی شاہ عدمؔ
Pingback: تعلیم لڑکیو ں کا بھی حق ہے مگر ⋆ سیف علی شاہ عدمؔ
Pingback: نیکی کر فیس بک میں ڈال ⋆ سیف علی شاہ عدمؔ بہرائچی