قرآن سے سچی محبت قرآن کو سمجھنا اور عمل کرنا ہے
قرآن سے سچی محبت قرآن کو سمجھنا اور عمل کرنا ہے
نزول قرآن کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اس سے ہدایت حاصل کی جائے اور یہ بلا سمجھے ممکن نہیں:
إِنَّ هذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ. بیشک یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو سیدھا ہے۔ امام شوکانی فرماتے ہیں:
’’حق تلاوت یہ ہے کہ قرآن مجید پر عمل کیا جائے اور قرآن پر عمل کرنا اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک کہ قرآن کا علم نہ ہو اور اس میں غور و فکر نہ کیا گیا ہو‘‘۔
(فتح القدیر۱؍۳۵) ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور رسول نے عرض کی کہ اے میرے رب میری قوم نے اس قرآن کو ترک کردیا ہے‘‘ (سورۃ الفرقان۔۳۰) علامہ ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’قرآن میں تدبر و تفکر کو ترک کرنا درحقیقت قرآن کو ترک کرنا ہے‘‘۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ ’’ہم میں سے جو شخص دس آیات سیکھ لیتا تو وہ اس سے آگے نہیں بڑھتا، یہاں تک کہ اس کے معانی و مفاہیم جان لیتا اور اس پر عمل کرلیتا‘‘۔
(طبرانی۔۸۰) حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’قرآن مجید نازل ہوا ہے، تاکہ اس پر تدبر کیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے،
پس تم اس کی تلاوت کو عمل بنالو‘‘۔ (مدارج السالکین) ارشادِ باری تعالیٰ ہے
: اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَتْلُوْنَهٗ حَقَّ تِلَاوَتِهٖؕ-(۱۲۱-البقرة) جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ کماحقہ اس کی تلاوت کرتے ہیں۔
یعنی صرف تلاوت مقصود نہیں بلکہ کماحقہ تلاوت مقصود ہے، اور کماحقہ تلاوت کا مطلب قرآن کریم کو ٹھہر ٹھہر کر ،مخارج و صفات کی رعایت کے ساتھ سمجھ کر پڑھنا ہے۔ جیسا کہ سورۂ مزمل میں ہے:
وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاؕ۔ اور قرآن خوب ٹھہرٹھہر کر پڑھو۔ قول باری تعالیٰ ہے:اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ۔ اس کتاب کی تلاوت کروجس کی تمہاری طرف وحی کی گئی ہے۔ اور تلاوت کا معنی عربی میں ہے:
القراءة باللفظ والمعنى” یعنی قرآن کریم کو اسکے لفظ و معنی کی سمجھ کے ساتھ پڑھنا۔ چنانچہ اکثر علماء اور مصطلحین لغات نے تلاوتِ قرآن کی تعریف میں لکھا ہے۔
وهو فهم معانيه وتدبر آياته ثم التذكر والعمل بما فيه۔ یعنی قرآن کے معانی کو سمجھنا ،اس کی آیات میں غور و فکر کرنا اور پھر اس سے نصیحت حاصل کرنا اور اس پر عمل کرنا۔ اور یہ تعریف قرآن کی اس آیت سے منصوص ہے۔
رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ.(129۔البقرہ) ترجمہ:
اے ہمارے رب! اور ان کے درمیان انہیں میں سے ایک رسول بھیج جواِن پر تیری آیتوں کی تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اور انہیں خوب پاکیزہ فرمادے۔ بیشک تو ہی غالب حکمت والاہے۔ اللہ فرماتا ہے:
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰى قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا(24۔ محمد) ترجمہ: تو کیا وہ قرآن میں غور وفکر نہیں کرتے؟ یا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں؟. فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَ اتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَۙ۔(لانعام:155) ترجمہ: یہ برکت والی کتاب ہم نے اتاری تو اس کی پیروی کرو اور پرہیزگاری کرو کہ تم پر رحم ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ۔(29۔ سورہ ص) یہ ایک مبارک کتاب ہے جو اس لیے نازل کی گئی ہے
کہ لوگ اس کی آیتوں پر غور و تدبر کریں اور سمجھدار اس سے نصیحت حاصل کریں. لمحۂ فکریہ ذرا سوچیے کہ قرآن کریم اس لیے نازل کی گئی ہے کہ اس پر ہم عمل کریں، جب ہم سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے تو عمل کیسے کریں گے؟۔ کوئی کتاب بلا سمجھے نہیں پڑھی جاتی، مگر قرآن کے ساتھ یہ ظلم عظیم جاری ہے۔
نزول قرآن کا مقصد ہدایت ہے اور ہدایت کے لیے سمجھنا ضروری ہے۔ اور اسی لیے آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پاک کو سیکھنے ، سکھانے اور سمجھانے کو دنیا کا سب سے اچھا کام بتایا ہے۔”خَيرُكُم من تعلَّمَ القرآنَ وعلَّمَهُ”.(البخاري) دنیا کے سارے مسلمانوں میں سب سے بہتر وہ مسلمان ہیں، جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔
نقظہ حدیث مذکور میں کلام الٰہی کے سیکھنے اور سکھانے کی ترغیب اور حکم ہے۔ اور سیکھنے سکھانے کا عمل بغیر معنی و مفہوم سمجھے پورا ہی نہیں ہوتا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ برصغیر کی عوام میں اس کا اپنا ایک الگ ہی مطلب ہے۔
اور وہ ہے قرآن کی بلا فہم و تدبر ریڈنگ کرنا۔ جبکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ حفظ قرآن کا نظم یا تو فہم و تدبر کے ساتھ ہوتا یا بعد حفظ فہم قرآن کا لازمی اہتمام ہوتا،
کے بعد ہی کسی کو حافظ قرآن کا لقب دیا جاتا۔ آج کا المیہ یہ ہے کہ جو فضلیتیں قرآن و سنت میں قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے سیکھنے اور یاد کرنے کے تعلق سے ہیں ، ہمارے مقررین اور خطباء حضرات کی عنایت سے اور اہل مدارس کی بے توجہی سے قرآن کے ان طوطے نما حفاظ کو دے دیے گئے ہیں۔
قرآن کے ایک لفظ کا ترجمہ تک نہیں آتا۔ جس کا ایک منفی اثر یہ ہوا کہ صرف حفظ قرآن پر اکتفاء ہونے لگا ہے۔ اور عوام اسی میں خوش ہے کہ کل بروز محشر ان کے سروں پر تاج عظمت کا سجنا یقینی ہے، جس پر اہل محشر رشک کریں گے۔
جبکہ یہ فضیلت عامل قرآن حفاظ اور ان کے والدین کے لیے تھا نہ کہ مطلقاً حفاظ محض کے لیے۔ عموماً مدارس کے لوگ بڑے فخر سے کسی کے حافظ ہونے کی بات کرتے ہیں لیکن کوئی اس کے فہم قرآن اور تدبر قرآن سے محرومی و بیچارگی پر بات نہیں کرتا جو کہ ہدایت کے لیے ضروری ہے۔ اسی طرح عوام اپنے بچوں کو میدان محشر میں حصولِ تاج کی نیک نیت سے حافظ بناکر خوش ہوجاتی ہے۔ اور سمجھتی ہے کہ ان کا بیڑا پار ہوگیا۔
ان کے اندر اپنے بچوں کو قرآن کے عالم بنانے سے زیادہ حافظ مطلق بنانے کی ہوڑ سی لگی ہے۔ عوام کی اسی ناقص سمجھ نے قرآن خوانی کے مروجہ طریقے کو بھی بہت زیادہ فروغ دیا ہے۔کوئی انتقال کرے، کوئی بچہ پیدا ہو، کوئی نیا گھر بنائے یا نیا کام شروع ہو، عوام کی محبوب و مرغوب قرآن خوانی کا سستا عمل ہے۔
لطف کی بات یہ ہے کہ ناظرہ قرآن اور فقط قرآن ریڈنگ کو ہی برصغیر کی عرف عام میں دینی تعلیم سمجھا جاتا ہے۔ ہم نے بہتوں کو بڑے فخر سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ عصری تعلیم کے ساتھ ہمارے بچے دینی تعلیم سے بھی آراستہ ہیں۔
اور جب ان کی دینی تعلیم کا جائزہ لیا گیا تو پتہ چلا کہ ٹیوشن والے حافظ صاحب نے ناظرہ ختم کرادیا ہے۔ اور نماز کی نیت اور وضو و غسل کا طریقہ رٹوا دیا ہے۔ نہ نیت کی سمجھ اور نہ قرآن کا فہم۔ اور اسی کا نام ہے دینی تعلیم ! نیز وہ کہتے ہیں کہ میرے بچے کو عربی آتی ہے۔ پ
ورا قرآن پاک پڑھ چکا ہے۔ جبکہ اسے ایک لفظ تو دور ایک حرف کا بھی معنی و مطلب کا پتہ نہیں۔ پھر بھی وہ دینی تعلیم سے آراستہ ہے! یہ وہ حقائق ہیں جس پر پوری قوم عمل پیرا ہے۔ إلا ماشاء الله! ہم خار ہوے تارک قرآن ہوکر جن لوگوں نے قرآن پاک کو طاقوں میں سجا کر رکھا ہے وہ تو تارکِ قرآن ہیں ہی،
ساتھ ہی وہ بھی تارکِ قرآن ہیں جو قرآن کو بغیر فہم و تدبر کے پڑھتے ہیں اور سمجھنے کی کبھی کوشش بھی نہیں کرتے۔ ایک متن و معنی دونوں کا تارک ہے۔ تو دوسرا معنی و مفہوم کا تارک ہے۔ لیکن دونوں تارک ہونے میں شریک ہیں۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر بغیر سمجھے قرآن پڑھنے کو ہمارے بعض مفتیان کرام کی ان شدید تاکیدات اور بلاوجہ کے خدشات سے بھی تقویت ملتی رہی ہے جہاں وہ گویا ہوتے ہیں کہ “بغیر استاد کامل کے صرف اردو یا ہندی وغیرہ تراجم سے قرآن فہمی کی کوشش کرنا صحیح نہیں ہے،
کیوں کہ وہی قرآن کبھی قاری کے لیے گمرہی کا سب بن سکتا ہے۔ اور اسی خدشے کی آڑ میں بعض نے ترجمہ قرآن پڑھنے سے بھی روکا ہے۔ یعنی ان کے نزدیک بغیر سمجھے پڑھانا ہی زیادہ بہتر ہے۔ ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ ایسے حالات کیوں کر پیدا ہوے؟ کیا خود بخود ایسا ہو گیا ہے؟ یا کسی سازش کے تحت ہمیں قرآن سمجھنے سے دور رکھا گیا ہے؟ واللہ اعلم بالصواب احادیث کریمہ اور اس کا صحیح ترجمہ ملاحظہ کریں 1
____ عن عثمان بن عفان رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «خَيرُكُم من تعلَّمَ القرآنَ وعلَّمَهُ.( البخاري) ترجمہ: تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو قرآن کو سمجھ کر پڑھتے ہیں اور سمجھا کر پڑھاتے ہیں۔ مثلاً میں یہ کہوں کہ میں انگلش کی فلاں کتاب پڑھا ہوں یا فارسی کی گلستان پڑھا ہوں اس کا معنی یہ ہے کہ میں ان کتابوں کو سمجھ کر پڑھا ہوں۔ 2
____عن سهل بن معاذ الجهني، عن أبيه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من قرأ القرآن وعمل بما فيه، ألبس والداه تاجا يوم القيامة، ضوءه أحسن من ضوء الشمس في بيوت الدنيا لو كانت فيكم، فما ظنكم بالذي عمل بهذا؟. (سنن ابی داؤد) ترجمہ: حضرت معاذ الجہنی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے قرآن پڑھا اور جو کچھ قرآن میں احکامات ہیں۔ اس پر عمل کیا۔تو قیامت کے دن اس کے والدین کو تاج پہنایا جائے گا۔ اس کی روشنی زیادہ اچھی ہوگی۔ سورج کی اس روشنی سے جو دنیا میں تمہارے گھروں کو روشن کرتی ہے۔ تو اس شخص کی شان کتنی بلند ہوگی جو خود قرآن پڑھتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے۔ اس حدیث پاک کو ایک مرتبہ پھر سے پڑھیں اور پھر ہمیں سمجھائیں کہ یہ حدیث پاک کس طرح بغیر سمجھے قرآن کریم پڑھنے والے حفاظ کی شان و عظمت کو بیان کرتی ہے؟
3____عن الحارث قال مررت في المسجد فإذا الناس يخوضون في الأحاديث فدخلت على علي فقلت يا أمير المؤمنين ألا ترى أن الناس قد خاضوا في الأحاديث قال وقد فعلوها قلت نعم قال أما إني قد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ألا إنها ستكون فتنة فقلت ما المخرج منها يا رسول الله قال كتاب الله فيه نبأ ما كان قبلكم وخبر ما بعدكم وحكم ما بينكم وهو الفصل ليس بالهزل من تركه من جبار قصمه الله ومن ابتغى الهدى في غيره أضله الله وهو حبل الله المتين وهو الذكر الحكيم وهو الصراط المستقيم هو الذي لا تزيغ به الأهواء ولا تلتبس به الألسنة ولا يشبع منه العلماء ولا يخلق على كثرة الرد ولا تنقضي عجائبه هو الذي لم تنته الجن إذ سمعته حتى قالوا إنا سمعنا قرآنا عجبا يهدي إلى الرشد فآمنا به من قال به صدق ومن عمل به أجر ومن حكم به عدل ومن دعا إليه هدى إلى صراط مستقيم خذها إليك يا أعور(الترمذي والدارمي) ترجمہ
: حضرت حارث اعور رضی اللہ تعالی عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ کوفے کے ایک مسجد میں لوگوں کے پاس سے گزرا تو لوگوں کو فضول باتوں میں مشغول پایا۔ تو میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس جا کر انہیں خبر دی کہ کس طرح لوگ مسجد میں فضول باتیں کر رہے ہیں
۔ تو انہوں نے فرمایا کہ واقعی لوگ ایسا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا ہاں۔ اس پر انہوں نے فرمایا کہ میں نے آقائے کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے۔ خبردار رہو عنقریب ایک فتنہ برپا ہونے والا ہے – میں نے عرض کیا –
یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اس سے بچنے کی کیا صورت ہوگی ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ “کتاب اللہ” اس میں اس معاملات کا ذکر ہے۔ جو تم سے پہلے کی قوموں پر گزری ہے۔ اور اس کا بھی ذکر ہے کہ تمہارے بعد آنے والی پر کیا گزرے گی –
اور تمہارے معاملات کا حکم بھی موجود ہے
یہ ( قرآن ) کلام فیصل ہے۔ کوئی مذاق کی چیز نہیں ہے ۔ جو ظالم و جابر شخص اس ( قران )کو ترک کرے گا – اللہ تعالی اسے کچل ڈالے گا
– اور جو قرآن کو چھوڑ کر کسی اور سے ہدایت حاصل کرنا چاہے گا تو اللہ تعالی اس کو گمراہ کر دے گا – یہ قرآن اللہ تعالی کی مضبوط رسی ہے، کامل نصیحت ہے اور یہی سیدھا راستہ ہے۔ یہ قرآن وہ مقدس کلام ہے کہ اس سے تخیلات بھٹک نہیں سکتے۔
اور اس میں زبان سے آمیزش نہیں کی جا سکتی – علماء اس کو پڑھ کر کبھی بھی سیر نہیں ہو سکتے -یہ بار بار پڑھنے سے پرانا نہیں ہوتا۔ اور اس کے عجائب کبھی ختم نہیں ہوں گے- یہ وہ مقدس کلام ہے کہ جب جنوں نے سنا تو وہ یہ کہے بغیر نہیں رہ سکے کہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے جو صحیح راستے کی جانب ہدایت کرتا ہے –
اس لیے ہم اس پر ایمان لے آتے ہیں
جو قرآن کے مطابق بات کرے گا وہ سچا ہے۔ جو اس پر عمل کرے گا وہ اجر پائے گا اور جو قرآن کے مطابق حکم بیان کرے گا – وہ عدل کرے گا اور جو قران کی پیروی کی دعوت دے گا، تو وہ سیدھے راستے کی دعوت دے رہا ہے –
یا أعور اس کو مضبوطی کے ساتھ پکڑو۔ ہماری تنزلی کیوں مسلمانوں کی تنزلی کے اسباب میں سے کم از کم دو سبب تو اس حدیث پاک میں واضح طور پر موجود ہیں – حالانکہ حدیث پاک کا ہر لفظ ہمیں قرآن مقدس کو سمجھ کر پڑھنے کی دعوت دے رہا ہے
– (1) بغیر سمجھے قرآن پڑھ کر ہم ترک قرآن کے مجرم بن رہے ہیں – اور اللہ تعالی تارک قرآن کو تباہ کر دیتا ہے۔
(2) چونکہ ہم قرآن کو سمجھتے نہیں ہیں اس لیے لامحالہ ہمیں قرآن کے علاوہ دوسروں سے ہدایت لینی پڑتی ہے۔ اور جو لوگ قرآن کو چھوڑ کر دوسروں سے ہدایت لیتے ہیں، اللہ تعالی انہیں گمراہ کر دیتا ہے۔ ایک اہم سوال اگر کوئی عالم، فاضل یا مفتی صاحب یہ کہیں کہ آپ اپنی زبان میں قرآن پڑھ کر اور سمجھ کر اس پر عمل نہیں کر سکتے
۔ بلکہ آپ کو ہماری رہنمائی قبول کرنی ہوگی ورنہ آپ غیر مقلد،گمراہ اور بد عقیدہ ہو جائیں گے۔ اگر مفتی صاحب کی یہ بات صحیح ہے؟ تو کیا ہمارے لیے بغیر سمجھے قرآن پاک پڑھنا ہی بہتر ہے؟ صحیح اسلامی فکر یہ ہے کہ قرآن سب کے لیے ہدایت ہے، تو سب کو سمجھ کر پڑھنا چاہیے۔
اور سب کو قرآن سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔امت اجابت کے ہر فرد سے قرآن فہمی کوشش مطلوب ہے۔ ہاں یہود و نصاری کے ساتھ منوادی اور برہمنوادی نظریات میں مذہبی کتابیں صرف مخصوص لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں اور پڑھ سکتے ہیں اور اس کی تشریح کر سکتے ہیں۔
ان کے یہاں ہرخاص و عام کو اس کی اجازت نہیں ہے۔لیکن مذہب اسلام میں اور قرآن کریم میں ایسا نہیں ہے۔ بلکہ ہر ایک کو سمجھ کر پڑھنے کی تاکید ہے تحریک تعلیم قرآن کی سخت ضرورت ہے ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہر مسلمان کا دل قرآنی تعلیم سے روشن اور مجلا ہو۔
ہر دن ہم قرآن پڑھیں یا سنیں اور سمجھیں، اور پھر اس میں غور و فکر کریں تاکہ ایمان کے ساتھ نیکیوں میں بھی ہر دن اضافہ ہوتا رہے۔ ایک تجویز ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی مساجد و مکاتب میں ایسے علماء کرام اور حفاظان عظام کو رکھیں، جو پہلے دن سے ہی بچوں کو ناظرہ قرآن ترجمے کے ساتھ پڑھا سکیں۔
اور سادہ لفظوں میں اس کا مفہوم بھی بچوں کو سمجھا دیں-اور یہ بہت آسان ہے۔ ويسرنا القران للذكر. اس سے بچے عربی کے ساتھ اردو بھی لکھنا پڑھنا سیکھ جائیں گے۔ اور قرآن کو مترجم قرآن کریم اور حاشیہ سے کیسے پڑھتے اور سمجھتے ہیں اس کی مشق بھی ہوجائے گی۔
اور إن شاء الله بچوں کے ساتھ علماے کرام و حفاظان عظام کو بھی قرآن پڑھنے اور پڑھانے کا ثواب ملےگا۔ اور اس کی فضیلت بھی حاصل ہوگی. اور بڑوں کے لیے ہر مسجد میں ہر دن کسی ایک وقت کی نماز کے بعد درس قرآن شروع کریں۔ إن شاء الله العزیز قرآن پاک کی برکتوں سے ہم مسلمان معزز و مکرم ہوں گے اور کامیابی ہمارا قدم چومے گی۔
محمد شہادت حسین فیضی 9431538584