اسلام ہی سچا دین کیوں
تحریر: سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی اسلام ہی سچا دین کیوں ؟{قسط :9}
اسلام ہی سچا دین کیوں
قرآنِ کریم کی وسعت و جامعیت: گزشتہ اوراق میں قرآن کریم کی متعدد پیش گوئیوں میں سے بغرض اختصار صرف آٹھ پیش گوئیاں ذکر کی گئیں ؛ کیوں کہ حق کے متلاشی کے لیے اسی قدر کافی ہیں جب کہ متعصب کے لیے اس سے کئی گنا زائد بھی بے سود ہیں ۔
اب قرآن مجید کی اُس جامعیت و وسعت کو بیان کیا جا رہاہے جو اسلام کے دینِ برحق ہونے پر دلالت کر رہی ہے۔
قرآنِ مجید چوں کہ اللہ ربُّ العزت کا آخری پیغام ہے ، اُس کے بعد’’ وحی‘‘ کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے منقطع ہو گیا، اِس لیے اللہ تعالیٰ نے اُس میں ہر قسم کے حقائق کا علم جمع فرما دیا ہے۔ یہ وہ کتابِ مقدس ہے جو اول سے آخر اور ابتدا سے انتہا تک تمام حقائق و معارف اور جملہ علوم و فنون کی جامع ہے ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ۔[سورۂ نحل،آیت نمبر ۸۹:] ترجمہ: اور ہم نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہر چیز کا روشن بیان ہے ۔اِس آیتِ کریمہ سے واضح ہوا کہ قرآنِ مقدس کے دامن میں ہر شے کا تفصیلی بیان یا اُس کی اصل ضرور موجود ہے۔
اِس حقیقت کو متعدد آیاتِ مبارکَہ میں بیان کیا گیا ہے۔
اگر قدرت کسی کو نورِ بصیرت سے نواز کر اُس کی نگاہِ باطن سےحجابات اُٹھا دے تو اُسے قرآنِ کریم میں یا تو ہر شے کا تفصیلی بیان نظر آجائے گا یا اُس کی اصل مل جائے گی ۔
قرآن کا اول سے آخر تک ہر شے کا جامع ہونا اُس کے ’’کلامِ الٰہی‘‘ ہونے کی دلیلِ بیِّن ہے۔اب ذیل میں اِس اجمال کی کچھ تفصیل پیش کی جا رہی ہے۔
اللہ رب العزت نے اپنے محبوب محمد مصطفیٰ ﷺ کی زبانِ اقدس سے، اپنے کلامِ ازَلی قرآنِ کریم میں، دو درجن سے زائد انبیاے کرام کا تفصیلاً اور مابقی کا اجمالاًذکرِ جمیل کیا ہے ،اُن کے حالاتِ زندگی اور دعوتی و تبلیغی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی ہےاور بت پرست قوم کے ظالمانہ رویے کے خلاف اُن کے محکم و ٹھوس عزائم کو بیان فرمایا ہے۔ ذَیل میں ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں :
[۱] سورۂ بقرہ ، سورۂ آلِ عمران ، سورۂ اعراف اور سورۂ طہ میں ’’ ابو البشر حضرت سیدنا آدم علیہ السلام‘‘ کا ذکرِ جمیل فرمایاہے۔
[۲] سورۂ نساء،سورۂ اعراف،سورۂ یونس،سورۂ ہود،سورۂ مریم،سورۂ حج ،سورۂ عنکبوت ، سورۂ صافات اور سورۂ نوح میں ’’حضرت سیدنا نوح علیہ السلام ‘‘ کے حالات بیان کیے ہیں ۔
[۳] سورۂ بقرہ،سورۂ آلِ عمران،سورۂ نساء،سورۂ انعام،سورۂ توبہ ، سورۂ ہود،سورۂ ابراہیم،سورۂ حجر، سورۂ مریم،سورۂ انبیاء اور سورۂ صافات میں ’’ابو الانبیاء حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام‘‘کا ذکر کیاہے ۔
[۴] سورۂ بقرہ،سورۂ نساء اور سورۂ صافات میں ’’ حضرت سیدنا اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام ‘‘ کی سیرت بیان کی ہے۔
[۵] سورۂ بقرہ ،سورۂ نساء، سورہ عنکبوت اور سورۂ صافات میں ’’حضرت سیدنا اسحاق علیہ السلام ‘‘ کا تذکرہ فرمایاہے۔
[۶] سورۂ حجر، سورۂ انبیاء،سورۂ عنکبوت اور سورۂ صافات میں ’’حضرت سیدنا لوط علیہ السلام ‘‘ کی حیاتِ طیبہ پر روشنی ڈالی ہے ۔
[۷] سورۂ بقرہ، سورۂ ہود، سورۂ یوسف ، سورۂ انبیاء اور سورۂ صٓ میں’’ حضرت سیدنا یعقوب علیہ السلام ‘‘ کے کوائف بیان کیے ہیں ۔
[۸] سورۂ یوسف میں ’’ حضرت سیدنا یوسف علیہ السلام ‘‘ کے حالات واضح کیے ہیں ۔
[۹] سورۂ اعراف ، سورۂ ہود ،سورۂ شعراء اور سورۂ عنکبوت میں ’’حضرت سیدنا شعیب علیہ السلام ‘‘ کا ذکرِ مبارَک فرمایا ہے۔
[۱۰] تقریباً ایک درجن سورتوں میں ’’حضرت سیدنا موسیٰ کلیم اللہ اور حضرت سیدنا ہارون علیہما السلام ‘‘ کے واقعات پر روشنی ڈالی ہے ۔
اِسی طرح متعدد سورتوں میں ’’حضرت ادریس،حضرت داوٗد،حضرت سلیمان،حضرت یونس،حضرت ایوب،حضرت ہود،حضرت الیاس،حضرت یسع،حضرت ذوالکفل،حضرت زکریا ،حضرت یحییٰ ،حضرت عیسیٰ اور حضرت خضر علیہم الصلاۃ والسلام‘‘ کے اجمالاً یا تفصیلاً حالات بیان کیے ہیں ۔
مذکورہ سورتوں میں انبیاے کرام علیہم السلام کے ساتھ ، اُن کی قوموں کے حالات و کوائف بھی بیان کیے گیے ہیں ۔ حضرت ہود علیہ السلام کی قوم ’’عاد‘‘ کی سرکشی ، حضرت نوح علیہ السلام کی ’’قوم‘‘ کی بت پرستی ، حضرت
صالح علیہ السلام کی قوم’’ثمود‘‘ کی شرارت،حضرت لوط علیہ السلام کی ’’قوم‘‘ کی خباثت،حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم’’اصحاب الایکہ و اصحاب مدین‘‘ کی نافرمانی
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم’’فرعونیوں‘‘ کی زیادتی،حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم ’’اصحاب القریہ ‘‘کی ضد و ہٹ دھرمی اور اِن سب کی عبرت ناک ہلاکت و بربادی کے تذکرے کے ساتھ ، اصحاب اخدود، سکندر ذو القرنین، اصحاب کہف اور حدودِ یمن میں رہنے والی عرب قوم ’’قومِ سبا‘‘ کےمفصل حالات بیان کیے گئے ہیں ۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے نبی حضرت سیدنا محمد مصطفیٰ ﷺ نے’’ اُمِّی‘‘ ہونے کے باوجود[ یعنی دنیا میں کسی استاذ کی شاگردگی اختیار کیے بِنا اور کسی آسمانی یا غیر آسمانی کتاب کا مطالعہ کیے بغیر، بالفاظِ دیگر دنیا میں بے پڑھے لکھے ہونے کے باوجود] صدیوں پہلے گزرے ہوئےانبیاے کرام علیہم السلام اور اُن کی قوموں کے عبرت خیز و نصیحت آموز حالات و واقعات کوفی البدیہ ایسی شانِ صداقت کے ساتھ بیان فرمایا کہ آج تک دنیا کا کوئی بھی تاریخ داں کسی ایک واقعے کو بھی غلط ثابت نہیں کر سکا ۔
یہ اِس حقیقت کی کھلی دلیل ہے کہ ہمارے آقا حضور رحمتِ عالَم ﷺ اللہ عز وجل کے سچے پیغمبر ہیں ، آپ کے علم کا سر چشمہ ’’وحیِ اِلٰہی‘‘ ہے ، آپ نے جس کلام کے ذریعے انبیاے کرام اور اُن کی قوموں کے اجمالی اورتفصیلی حالات بیان کیے ہیں وہ آپ کا نہیں ؛ بلکہ خالقِ عالَم اللہ رب العزت کا نازل کردہ کلام ہے ۔
اِس کلامِ اِلٰہی میں حضرت موسیٰ علیہ کی ’’عود کی لکڑی کی جنتی لاٹھی‘‘ بھی مذکورہے
،جس کے ذریعے اُن کے بہت سے معجزات کا ظہور ہوا ۔[ سورۂ طہ ، آیت نمبر ۱۷؍۱۸ و ۶۵ تا ۷۰ ۔سورۂ بقرہ ،آیت نمبر ۶۰۔سورۂ شعراء ، آیت نمبر ۶۱: تا ۶۷]۔
اسی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ’’دوڑنے والےپتھر‘‘ کا تذکرہ بھی ہے، جس سے آپ کے دو معجزات کا صدور ہوا ۔ [سورۂ بقرہ ، آیت نمبر ۶۰:]۔ اس میں اُس ’’میدانِ تیہ‘‘ کا ذکر بھی ہے جس میں چھ لاکھ بنی اسرائیل پورے چالیس سالوں تک بھٹکتے رہے ؛ مگر اُس سے باہر نہ نکل سکے ۔[سورۂ مائدہ، آیت نمبر ۲۶:]۔ اس میں اُن ’’بارہ ہزار بد بخت یہودیوں ‘‘ کا تذکرہ بھی ہے جنھیں سنیچر کے دن مچھلی کا شکار کرنے کے جرم میں بندر بنا کر ہلاک کر دیا گیا تھا ۔[سورۂ بقرہ ، آیت نمبر ۶۵:]۔
اس میں دنیا کی سب سے ’’قیمتی گاے‘‘ کا ذکرِ جمیل بھی ہے جسے بنی اسرائیل نے اُتنا سونا دے کر خریدا تھا جتنا اُس کے چمڑے میں سما جائے ، جس کی شان یہ تھی کہ اُسے ذبح کرکے اُس کی زبان یا دُم کی ہڈی سے مقتول کی لاش کو مارا گیا تو وہ زندہ ہو کر بول پڑا کہ اُس کے قاتل کون ہیں ۔[سورۂ بقرہ ، آیت نمبر ۶۷:تا۸۳]۔
اِسی کلام میں حضرت ذو الکفل حزقیل علیہ السلام کی قوم کے ’’اُن ستر ہزار‘‘ افراد کا انتہائی نصیحت آمیز واقعہ بھی مذکور ہے جو مُردَہ کیے جانے کے بعد آپ کی دعا سے دوبارہ زندہ کیے گئے تھے ۔[سورۂ بقرہ ، آیت نمبر ۲۴۳:]
اِسی میں حضرت عزیز علیہ السلام کا’’ عجیب و غریب واقعہ‘‘ بھی ہے کہ آپ باذنِ الٰہی سَو برس تک مردہ رہے پھر زندہ کیے گئے ۔[سورۂ بقرہ ، آیت نمبر ۲۵۹:]
اِسی میں نہایت مقدس و بابرکت صندوق ’’تابوتِ سکینہ‘‘ کا ذکر بھی ہے جو جنگی حالات میں بنی اسرائیل کو سکون و اطمینان کی دولت سے سرفراز کیاکرتا تھا اور جس کی برکت سے اُنھیں فتحِ مبین حاصل ہوا کرتی تھی ۔[سورۂ بقرہ ، آیت نمبر ۲۴۸:]خلاصۂ کلام یہ کہ اِس طرح کے بے شمار واقعات ہیں جو قرآنِ کریم کی زینت بنے ہوئے ہیں۔
یہ وہ محیِّر العقول واقعات ہیں جن کی صداقت آفتابِ نصف النہار سے زیادہ واضح و روشن ہے ، کوئی کٹر یہودی یا بدبو دار عیسائی بھی اِن کا انکار نہیں کر سکتا۔ہمارے ’’اُمِّی پیغمبر‘‘ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے بغیر کسی سابقہ تیاری کے ، اِنھیں برجستہ گوئی کے ساتھ ایسی فصیح و بلیغ عبارت میں بیان فرمایا کہ عرب کے فصحا و بلغا بھی حیران و ششدر رہ گیے اور انتہائی کوشش کے باوجود اِن کا جواب نہ دے سکے ۔
ثابت ہوا کہ یہ کلام محمد مصطفیٰﷺ کا نہیں ؛ بلکہ اُس ذاتِ اقدس کا ہے جس نے انھیں نبی بنا کر مبعوث فرمایا ہے۔چوں کہ ’’اسلام‘‘ کی بنیاد اِسی کلامِ الٰہی پر ہے ؛ لہذا ثابت ہوا کہ ’’دینِ اسلام‘‘ ہی دینِ برحق ہے ۔[باقی آئندہ]
تحریر: سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی
پرنسپل: دارالعلوم محبوبِ سبحانی کرلا ویسٹ ممبئی
پیش کش : نور اسلامک آرگنائزیشن کرلا ویسٹ ممبئی