اِسلام ہی سچا دین کیوں قسط دہم

Spread the love

اِسلام ہی سچا دین کیوں قسط دہم ؟ ( :10) تحریر : سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی عفی عنہ پرنسپل: دارالعلوم محبوبِ سبحانی کرلا ویسٹ ممبئی

اِسلام ہی سچا دین کیوں قسط دہم ؟

قرآنِ کریم کی وسعت و جامعیت: [۲]

گزشتہ قسط میں کلامِ اِلٰہی ’’قرآنِ کریم‘‘ کی وسعت و جامعیت کی ایک ہلکی سی جھلک پیش کی گئی ، جس کے ذریعے قارئینِ کرام پر یہ واضح کیا گیا کہ اللہ رب العزت نےاپنے ازلی کلام قرآنِ مجید کی آیاتِ بینات کے ذریعے ہر معاملے میں اپنے بندوں کی اصولی رہ نمائی فرمائی ہے ۔

اصولی رہ نمائی کی شہادتیں قرآنِ حکیم میں جا بجا موجود ہیں ۔کلامِ الٰہی کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرنے والا یقینی طور پر اِس نتیجے تک پہنچےگا کہ قرآنِ مجید کی تعلیمات انسانی زندگی کی شخصی ضروریات سے لے کر عالَمی زندگی کی جملہ معاملات پر حاوی ہیں ۔ حضرتِ انسان کی زندگی کا جسمانی پہلو ہو یا روحانی ، خاندانی پہلو ہو یا سماجی ، دینی پہلو ہو یا سیاسی ، معاشی پہلو ہو یا ثقافتی ، انسانی طبقات کے آپسی اختلافات ہوں یا دنیا کی مختلف قوموں کے باہمی تعلقات ، الغرض قرآنِ حکیم کے احکام مختصر ہونے کے باوجود ایسے جامع ہیں کہ اُن سے ہر مسئلے کی اصولی رہ نمائی حاصل کی جا سکتی ہے ۔

اِسی لیے حبر الامہ حضرت سیدنا عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اِس حقیقت سے پردہ اُٹھاتے ہوئے فرمایا : لو ضاع لی عقال بعیر لوجدتہ فی کتاب اللہ ۔ (روح المعانی ، ج۵:،ص۳۰۹۔الاتقان فی علوم القرآن،ج۲:،ص۱۲۶:) ترجمہ:اگر میرے اونٹ کی رسی بھی گم ہو جائے تو قرآن کی ہدایت و رہ نمائی کے ذریعے تلاش کر لیتا ہوں ۔

اللہ اکبر ! حضورِ اکرم ﷺ کی صحبتِ با فیض کے فیضان کا یہ عالَم کہ اُنھیں اونٹ کی رسی کی تلاش کے لیے بھی کسی سے پوچھنے یا کہیں جانے کی ضرورت نہیں تھی ؛ بلکہ کلامِ الٰہی کا مطالعہ ہی کافی تھا ۔

اِسی طرح فقیہ و مجتہد صحابی حضرتِ سیدنا عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے :من أراد العلم فعلیہ بالقرآن فان فیہ خیر الاولین و الآخرین ۔(الاتقان فی علوم القرآن ، ج۲:،ص۱۲۶:)ترجمہ:جو شخص علم حاصل کرنے کا ارادہ کرے اُس پر واجب ہے کہ قرآنِ کریم کا دامن مضبوطی سے تھام لے ؛ کیوں کہ صرف قرآن میں اولین و آخرین کا علم موجود ہے ۔

یہ ہے قرآن کی وسعت ہمہ گیریت، کہ اُس سے بے تعلق ہو نے والاکسی بھی طرح، علم کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ۔

اِسی لیے ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ جو علوم’’ قرآنِ کریم‘‘ میں بیان کیے گئے ہیں اُن کی صحیح تعداد کا شمار تو در کنار اُس کا صحیح اور حتمی اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا ۔ہر طرح کا علم و فن ، ہر نوع کا پیشہ و تجارت ، ہر ایک صنعت و حرفت ، جدید سائنس کی ہر ایجاد ،قدیم سائنس کی ہر تحقیق ، سب کی جانب قرآنِ حکیم کی آیاتِ کریمہ رہ نمائی فرما رہی ہیں ، یا تو دلالۃ النص و عبارۃ النص کے طریق سے یا اشارۃ النص و اقتضاء النص کے طور پر ۔

بس نورِ بصر کے ساتھ نورِ بصیرت بھی چاہیے ۔ اِس طرح کی جامعت و وسعت صرف کلامِ الٰہی میں پائی جا سکتی ہے ، کسی مخلوق کے کلام میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ اِس دعوے کے اثبات کے لیے ذیل میں چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں ۔

پہلی مثال:

انسان کی ناقص و نا رسا عقل ابتدا ہی سے فلسفہ[Philosophy] کو تمام علموں کا سرچشمہ تصور کرتی رہی ہے ۔علمِ طبیعیات[Physics] اور علمِ حیاتیات[Biology] بھی شروع شروع میں فلسفےہی کا حصہ تسلیم کیے جاتے تھے ۔ یہ تین علوم کائنات کی حقیقتوں سے بحث کرتے ہیں ۔فلسفہ یونانی لفظ ’’فلوسوفی‘‘یعنی’’حکمت سے محبت‘‘ سے نکلا ہے ۔ یہ علم و آگہی سے عبارت اور ایک ہمہ گیر علم ہے جو[ہر شے کے] وجود کے اغراض و مقاصد دریافت کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔

افلاطون کہتا ہے کہ فلسفہ اشیاء[چیزوں] کی ماہیت و حقیقت کے لازمی علم کا نام ہے ، جب کہ ارسطو کے نزدیک فلسفہ کا مقصد یہ دریافت کرنا ہے کہ وجود بذاتِ خود اپنی فطرت میں کیا ہے ۔ اِن تعریفوں میں غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ فلسفہ تین چیزوں سے بحث کرتا ہے

[۱] کائنات کی حقیقت

[۲]اُس کا علم

[۳] اعلیٰ نصب العین یعنی مقصدِ اصلی ۔

علمِ فلسفہ ہزاروں سال سے اپنی ارتقائی منزلیں طَے کرتا چلا آ رہا ہے ، اِس سفر میں اس نے کئی بار ٹھوکر بھی کھائی ہے ؛ مگر آج تک اس کی ہمت نہ ہو سکی کہ کائنات کی حتمی اور ابدی حقیقت کے پانے کا دعویٰ کر سکے یا اعلیٰ ترین نصب العین مقرَّر کر سکے ۔

ہزاروں سال پرانا یہ علم آج بھی صحت و کمال کی حتمی منزل تک نہیں پہنچ سکا ہے؛ لیکن ہمارے آقا حضور منوِّرِ کائنات ﷺ پر نازل ہونے والے آخری ’’کلامِ الٰہی‘‘ کی ابتدائی پانچ آیتوں نے فلسفے کے اِن مسائل پرایسی خوبی کے ساتھ روشنی ڈالی ہے ،جنھیں پڑھنے اور سمجھنے کے بعد اہلِ انصاف فلاسفر بھی اش اش کیے بغیر نہیں رہ سکتے ۔

ہمارا رب اللہ عز وجل فرماتا ہے :

 ۔(سورۂ علق ، آیت نمبر ۱:تا۵) ترجمہ:اے رسولِ مکرم! اپنے رب کے نام سے پڑھیے جس نے [ہر شے کو]پیدا کیا ہے ۔ انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے ۔ پڑھیے اور آپ کا رب ہی سب سے زیادہ کریم ہے ۔جس نے قلم سے لکھنا سکھایا ۔ انسان کو وہ سکھایا جس کو وہ نہیں جانتا تھا ۔ (تبیان القرآن)

 

اِن آیاتِ کریمہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ پیغام کسی انسان ، فرشتے، جن یا دیگر مخلوق کی جانب سے نہیں آیاہے ؛ بلکہ یہ عالم کے پروردگار کی جانب ہے ۔ اسی لیے یہ فرمایاگیا کہ ’’اپنے رب کے نام سے پڑھیے جس نے پیدا کیا‘‘ یعنی یہ پیغام اسی رب کے نام سے ہے جو خالق بھی ہےاور قادرِ مطلق بھی کہ جس نے جمے ہوئے خون سے انسان کے حیوانی وجود کو پیدا کیا۔ وہ رب انتہائی کرم فرمانے والا ہے ۔

اسی کرم کا نتیجہ ہے کہ اُس نےانسان کو عقل و شعور کی دولت سے نوازا اور وہ سب کچھ سکھایا جو اس کی دنیوی اور اخروی زندگی کے لیے ضروری ہے۔ چنانچہ یہ وحی بھی اسی تعلیم کا حصہ کا ہے، جو ایک کریم ، قادرِمطلق ،علیم اور حکیم مَولا کی جانب سے عطا کی جارہی ہے۔

یہاں’’ربک الذی خلق‘‘ فرما کر زمانۂ جاہلیت کے اِس تصورِ باطل کی نفی کی گئی کہ ’’پالنے والے، پیدا کرنے والے ، حفاظت کرنے والے، رزق دینے والے اور دیگر کام کرنے والے‘‘ الگ الگ خدا ہیں اور دو ٹوک انداز میں کائنات کی اِس حقیقت سے پردہ ہٹایا گیا کہ اِس کائناتِ ہست و بود کا جو پیدا کرنے والا ہے وہی اِسے چلانے والا اور پرورش کرنے والا بھی ہے ۔ ایسا ہرگز نہیں کہ خالق کوئی اور ہے اور رب کوئی اور۔

اس کے بعد اگلی آیت ’’انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا‘‘ انسان کے مادی وجود کی ابتدا کو بیان کرتی ہے۔

قرآنِ حکیم نے اُس زمانے میں وجودِ انسانی کی ابتدا کو بیان فرمایا ہے جب کہ جدید ٹکنالوجی اور مختلف سائنسی آلات کا تصور بھی نہیں تھا۔ اِس دوسری آیت میں تخلیق کا یہ عمل اس لیے بتایا گیا؛ تاکہ ’’وحی ‘‘[کلامِ الٰٰہی]بھیجنے والی ہستی کا تعارف ہو جائےکہ اس کے رب اور خالق ہونے کا ثبوت یہ ہے اُس نےانسان کو بستہ خون سے بنایا ہے۔

ظاہر سی بات ہے کہ اُس دَور کا انسان اتنا تو سمجھتا تھا کہ شکمِ مادر میں انسان کی تخلیق منی کے قطرے سے ہوتی ہے ؛ لیکن اُس کے علم میں یہ نہ تھا کہ منی آگے چل کر کن مراحل سے گزرتی ہے ، میڈیکل سائنس کے وجود سے سیکڑوں سال پہلے انسانی تخلیق کا یہ مرحلہ قرآنِ مجید نے بیان کر دیا ۔ انسانی تخلیق کا یہ مرحلہ تو خالقِ حقیقی ہی بیان کر سکتا ہے جس کی قدرت اِتنی عظیم ہے کہ وہ ایک بے جان جمے ہوئے خون سے ’’زندگی‘‘ کو وجود بخشتی ہے ۔

اگلی آیتِ کریمہ میں یہ بتایا گیا ہےکہ تمھارا خالق و پروردگار بہت ہی کرم ، لطف اورمہربانی فرمانے والا ہے۔ یقیناً وہ سب سے بلندو بالا ہے؛ لیکن دنیاوی حکمرانوں کی طرح وہ سختی یا تشدد کرنے والا نہیں ہے۔ اُس کی ’’وحی‘‘ عذاب کا پیغام نہیں ؛بلکہ پوری انسانیت کے لیےرحمت کی سوغات اور ہر فردِ بشر کے لیے اعلیٰ ترین نصب العین ہے۔

وہ بات اچھی طرح سمجھانے کے بعد ہی انسان کوکسی حکم کا پابند و مکلَّف بناتا ہے ؛کیوں کہ وہ ظالم نہیں ؛ بلکہ انتہائی کریم ہے۔اُس کا بے پایاں کرم ہی تو ہے کہ ’’اُس نے انسان کو قلم کے ذریعے زیورِ علم سے آراستہ فرمایا‘‘۔قلم، انسانی سوچ ، اُس کےعلم اور خیالات کو منتقل کرتاہے۔لیکن اگراس سے مراد وہ طریقۂ کار لے لیا جائےجو علم کو آگے پہنچانے کا ذریعہ بنتا ہے

جس سے علم ایک شخص سے دوسرے شخص، ایک جماعت سے دوسری جماعت اور ایک زمانے سے دوسرے زمانے میں منتقل ہوتا ہے تو قلم کے ذیل میں قلم کے علاوہ کمپیوٹر، اور دیگر ذرائع ابلاغ بھی شامل ہو جائیں گے۔

راقم کی ناقص فہم کے مطابق قلم کا ذکر یہاں ضمناً ہواہے۔ اصل فوکس ’’ انسان کو سکھانے اور اسے علم سے نوازنے‘‘ پر ہے۔ پچھلی آیتِ کریمہ میں’’ جمے ہوئے خون سےانسان کے حیوانی وجود کی ابتدا ‘‘کی بات کہی گئی۔

اب یہاں انسا ن کے ’’روحانی وجود ‘‘کی ابتدا کی بات کی گئی اور یہ بتایا گیا کہ خالقِ کائنات نے کس طرح انسان کو سکھا یا ، اسے زیورِ علم سے آراستہ فرما کر، دیگر مخلوقات سے ممتاز فرمایا اور اس کے سر پر اشرف المخلوقات کا تاجِ زریں رکھا۔ اس میں اس جانب بھی اشارہ ہے کہ اس نے انسان کے حیوانی وجودکو تخلیق آشنا کرنے کے بعد تنہا نہیں چھوڑا؛بلکہ اس کو وہ سب کچھ سکھایا جس کی اسے حاجت تھی۔

چوں کہ سیکھنے کا عمل انسانی عقل سے وابستہ ہے۔ اس لیے یہ آیتِ مبارکَہ علم کے ساتھ عقل کی اہمیت کو بھی واضح کررہی ہے۔ عقل کے بغیرانسان دینی اور دنیوی دونوں لحاظ سے غیر مکلف رہتا ہے،اُس پر نہ تو دنیاوی قانون لاگو ہوتا ہے اور نہ ہی دینی حکم۔ اس سے ثابت ہوا کہ علم کی روشنی میں عقل کا صحیح استعمال ہی انسانی زندگی کا اعلیٰ

ترین نصب العین اور عظیم بنیادی مقصد ہے۔

پانچویں آیتِ کریمہ ’’انسان کو سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا‘‘ کے ذریعے یہ بتلایا کہ انسان کو جو کچھ بھی علم ملا ، جو بھی معرفت ملی، وہ سب خلاقِ کائنات اللہ عز وجل کی جانب سے ہے۔اگرچہ انسان اپنی سعیِ پیہم ، جہدِ مسلسل اور تجربات ومشاہدات سے بھی مختلف علوم و فنون حاصل کر لیتا ہے ؛ مگر اگر تائیدِ الٰہی شاملِ حال نہ ہو تو انسان کو کسی علم کی بھنک لگ سکتی ہے اور نہ وہ کسی فن سے آشنا ہو سکتا ہے ۔

مختلف قدیم و جدید علوم اورسائنسی ایجادات بھی نصرتِ الٰہی سے بے نیاز نہیں ہیں ۔انسانوں کو ماضی میں علم کا جو بھی حصہ ملا ، اس کے لیے حال میں معرفت کے جو بھی دروازے کھلے یا کھل رہے ہیں اور مستقبل میں حقائقِ عالَم کے چہرے سے جو بھی پردے ہٹیں گےوہ سب اِس آیتِ کریمہ کے تحت مندرج ہو گئے ۔

یہ ہے قرآنِ کریم کی جامعیت و وسعت کا عالَم کہ آج تک تاریخِ انسانی میں جتنی فلسفیانہ کوششیں ہوئی ہیں وہ سب درجۂ یقین تک پہنچنے سے محروم رہیں؛ مگر سورۂ علق کی مختصر سی پانچ ابتدائی آیتوں میں فلسلے کے تمام موضوعات پر حتمی روشنی ڈال دی گئی ہے ۔ فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔ ثابت ہوا کہ قرآنِ مجید ’’کلامِ اِلٰہی ‘‘ ہے جو ہمارے آقا ، اُمی پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی زبانِ اقدس پر جاری ہوا ۔

[جاری]

تحریر : سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی عفی عنہ

پرنسپل: دارالعلوم محبوبِ سبحانی کرلا ویسٹ ممبئی

من جانب : نور ایمان اسلامک آرگنائزیشن کرلا ویسٹ ممبئی انڈیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *