سلطان الشہدا فی الہند سید سالار مسعود غازی رحمۃ اللہ علیہ
سلطان الشہدا فی الہند سید سالار مسعود غازی رحمۃ اللہ علیہ
سلطان الشہداء فی الھند سید سالار مسعود غازی رحمة اللہ علیہ کی پیدائش ۲۱ رجب المرجب ۴۰۵ ھ مطابق ۱۰۱۴ عیسوی بروز یکشنبہ صبح صادق کے وقت اجمیر ہندوستان میں ہوئی، ( انوار مسعودی) آپ کے والد گرامی سید سالار شاہو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی اولاد پاک میں سے محمد ابن حنفیہ رحمھم اللہ تعالی کے نسل سے ہیں عباسیہ دور خلافت کے ستائے ہوئے افراد یا سنت رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہو کر دنیا کے دور دراز علاقوں میں دین اسلام کی تبلیغ کی غرض سے خطۂ عرب سے ہجرت کر کے جب غزن ہ پہونچے تو سلطان محمود غزنوی ( جو کہ اس وقت غزنہ کے حاکم تھے ) نے عرب سے آنے والے تمام علماے کرام ومجاہدین اسلام کی عزت و افزائی کی اور انہیں اعلی مناسب پر فائز کیا، انہیں مجاہدین میں سے سید شاہو غازی بھی تھے جو فنحرب و سپہ گری میں یکتائےروزگار اور بلا کے شہسوار تھے ان کی پاکیزہ طبیعت اور حسن کارکردگی سے متاثر ہو کر نہ صرف اپنیفوج کا سپہ سالار مقرر کر کے پہلوانِ شکر کا خطاب دیا بلکہ اپنی ہمشیرہ ستر معلی ( معلی کے تلفظ کو کچھ لوگوں نے معلا بھیلکھا ہے) کا نکاح بھی کر دیا۔
سید سالار مسعود غازی کی ولادت کے بعد سید سالار شاہو آپ کو غزنہ لے آئے تھے جب آپ کی عمرچار سال، چار ماہ، چار دن کی ہوئی تو آپ کے والد محترم ذی القعدہ ۴۰۹ ھ مطابق ۱۰۱۸ عیسوی کو علوم ظاہری و باطنی کی جامع شخصیت حضرت سید ابراہیم بارہ ہزارہ کی خدمت میں لائے اس خدا رسیدہ استاذ نے بکمال توجہ اپنے تلمیذ رشید کی تعلیم و تربیتکر کے ظاہری و باطنی جوہر کو نکھار کر فضل و کمال کی بلندی پر پہنچا دیا۔
حضرت سید سالار مسعود غازی بچپن ہی سے نیکخصلت تقوی شعار تھے عمر کے ساتھ ساتھ آپ کا ذوق عبادت رجوع الی اللہ کا جذبہ اس قدر پروان چڑھتا رہا کہ راتیں عبادت الہیمیں اور دن تلاوت قرآن پاک و دیگر اوراد وظائف میں گذرتا، اور کبھی ہم عمر شہزادوں و امیرزادوں (حاکموں کے بچوں) کے ساتھ سیرو شکار کے لئے جنگل نکل جاتے وہیں تیر اندازی و نیزہ بازی اور شمشیر زنی کے مشقیں کرتے جس سے فنون حرب و ضرب میں مزیدنکھار پیدا ہوتا آخرکار حضرت سید سالار مسعود غازی نو برس کی قلیل مدت میں علوم ظاہری و باطنی سے بہرہ ور ہو کر جہاد اکبر وجہاد اصغر کے مسلح و بہادر سپاہی بن گئے۔ دیگرحکمران خاندانوں کی طرح غزنوی خاندان میں بھی اختلاف و انتشار کی خلیج دنبدن بڑھتی جا رہی تھی تو آپ نے اپنے ماموں سلطان محمود غزنوی سے اجازت لے کر بظاہر سیر و شکار اور حقیقی طور پر دیناسلام کی تبلیغ کی غرض سے ہندوستان چلے آئے، چونکہ امراء میں سے بہت سارے لوگ آپ کے اخلاق کریمانہ اور شجاعت و بہادریسے متاثر تھے تو جب آپ غزنہ سے چلنے لگے تو وہ لوگ بھی آپ کے ہمراہ ہو لئے اس طرح گیارہ ہزار افراد پر مشتمل قافلہ آپ کےسربراہی میں ہندوستان پہونچا، ہندوستان کے کئی سارے علاقے سلطان محمود غزنوی کے مفتوحہ تھے جہاں کے حاکم یا تو مسلمانتھے یا پھر سلطان کے باجگزار ، ہندوستان کے وہ علاقے جس پر خراسان وغیرہ کی مہموں کی وجہ سلطان محمود غزنوی توجہ نہ دےسکا تھا وہاں کے راجہ مہاراجہ سید سالار مسعود غازی کی آمد پر چراغ پا ہو گئے چنانچہ انہی میں سے دلی کے راجہ نے جب سناکہ سلطان محمود کے بھانجے کی آمد ادھر ہو رہی ہے تو لڑائی کے ارادے سے اپنا لاہ و لشکر لے کرسید سالار مسعود غازی کےراستے میں آ دھمکا اب علی کے اس شیر کے پاس لڑائی کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا چنانچہ رن ہوا اور اللہ کی مدد سے میدان آپ کےہاتھ رہا، مزید غزنہ میں اختلاف و انتشار زیادہ بڑھ جانے کی وجہ سے امیر سیف الدین سالار، مہی بختیار، میر سید عز الدین، ملکدولت شاہ، اور سالار رجب ہندوستان چلے آئے تھے وہ بھی آپ کے ساتھ آ کر مل گئے، آپ نے دلی کا حاکم اپنے ساتھ ہجرت کر کے آئےہوئے امیر جعفربایزید کو بنا دیا اور رعایا کے ساتھ مروت و ہمدردی کا سلوک کرنے، عدل و انصاف کا دامن کبھی مت چھوڑنے وغیرہکی وصیت کی اور خود اپنے لشکر کے ساتھ وہاں سے روانہ ہو گئے راستے میں میرٹھ و اطراف و جوانب کے راجے گھبرائے اور اپنےاپنے قاصدوں کو تحفہ و تحائف لے کر سید سالار کی بارگاہ میں بھیجا تاکہ آپ کے ارادے کا پتہ چل سکے آپ نے ان قاصدوں سےفرمایا کہ میں جنگ و جدال کی غرض سے نہیں آیا ہوں بلکہ میرا مقصد کچھ اور ہے اپنے راجاؤں سے کہہ دو گھبرائیں نہیں ، بہرحالچلتے چلتے آپ سترکھ ضلع بارہ بنکی پہونچے اور وہیں قیام کیا، سترکھ ہی سے اپنے امیروں کو تبلیغ دین تفویض کیا اور وعظ ونصیحت کر کے ان کو روانہ کر دیا، سالار سیف الدین سرخرو، ان کے ہمراہ میر سید نصر اللہ نیز کوتوال لشکر سالار رجب کو بہرائچکے علاقے میں بھیجا، اب اس علاقے کے راجاؤں کو اسلامی فوج کی آمد کا علم ہوا تو قاصدوں کے ذریعہ نکل جانے کا حکم دے دیا،امیر لشکر نے قاصدوں کو جواب دیا کہ ہمارا مقصد جنگ و جدال نہیں ہے بلکہ کچھ دنوں تک شکار وغیرہ کھیل کر لوٹ جائیں گے مگروہاں کے راجے اس پر راضی نہ ہوئے، حضرت سیف الدین سرخرو سالار نے سید سالار مسعود غازی کو ساری باتوں سے باخبر کیاچنانچہ آپ اپنے والد گرامی سید سالار شاہو جو کہ آپ کی والدہ اور سلطان محمود غزنوی کے انتقال کر جانے کے بعد سترکھ میں ہیتشریف لے آئے تھے سے اجازت لے کر اپنے مخصوص لشکر کے ساتھ بہرائچ پہونچ گئے۔ جب آپ کی آمد کی خبر راجاؤں نے سنی توجو جنگ کے لئے آمادہ تھے خوف و ہراس سے پیچھے ہٹ گئے۔ چونکہ بہرائچ جنگلی علاقہ تھا تو جنگ کا اندیشہ ختم ہو جانے کے بعدآپ شکار میں مشغول ہو گئے جب کئ مہینے بیت گئے تو یہاں کے راجاؤں کو خوف لاحق ہوا کہ کہیں یہ لوگ آگے چل کر ہمارے لئےخطرہ نہ بن جائیں چنانچہ بیس راجاؤں نے متفقہ طور پر ایک قاصد کو بھیجا کہ جلدی سے جلدی یہاں سے نکل جاؤ اس کے جوابمیں آپ نے بھی چند سواروں کے ساتھ اپنا پیغام ان تک پہونچایا کہ ہم ہرگز لڑائی کے غرض سے یہاں نہیں ٹھہرے ہیں بہرحال بات نہبنی جنگ چھڑ گئی مسلسل کئ دنوں تک لڑائی چلی ایک طرف بیس راجے اور ان کی تقریباً آٹھ لاکھ فوج تو دوسری طرف یہ مجاہدیناسلام جو حالت سفر میں تھے دونوں کا کوئی مقابلہ نہیں مگر اسلام کے یہ جیالے نہایت ہی بے جگری کے ساتھ کفر سے متصادم تھےکئی دفعہ ان افواج کو پیچھے دھکیل دیا اور پسپا ہو نے پر مجبور کر دیا لیکن تیسرے دن پھر نئی چال سے دشمن سامنے آئے اور اوّلوقت میں ہی پیچھے ہٹنے لگے مسلمان مجاہدین نے شجاعت و بہادری کا وہ کارنامہ انجام دیا کہ رہتی دنیا تک ان کی قربانیاں یاد کیجائیں گی کئی راجاؤں کو تہہ تیغ کر کے جام شہادت نوش کئے انہیں میں سے راجہ سہر دیو جو افواج کو میدان میں لڑتا چھوڑ کرخود ٹیلے کے پیچھے چھپ گیا جب سید سالار مسعود غازی دشمنوں پر شمشیرزنی کرتے ہوئے ٹیلے کے قریب گئے تو وہیں سے چھپےراجہ سہر دیو بد بخت نے ایسا تیر چلایا کہ آپ کے گلوئے مبارک میں پیوست ہو گیا اور ۱۳ رجب ۴۲۴ھ مطابق ۱۰۳۳ عیسوی کو بوقتعصر آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔
محمد حسن فیضی
استاذ جامعہ سبحانیہ ام الخیر نسواں کالج ٹکوئیاں سدھارتھ نگر یوپی الھند