اسلام ہی سچا دین کیوں قسط ہفتم

Spread the love

اسلام ہی سچا دین کیوں قسط ہفتم ؟ [قسط7 :] تحریر: سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی پرنسپل: دارالعلوم محبوبِ سبحانی کرلا ویسٹ ممبئی

اسلام ہی سچا دین کیوں قسط ہفتم

فرعون کے بے جان جسم کو باقی رکھنے کی پیش گوئی : قرآنِ مقدس میں جا بجا حضرت سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کے جاہ و مرتبے ، عظمت و شان نیز فرعونِ ملعون کی سرکشی و عناد اور اُس کے کفر و طغیان کا ذکر ہے۔ جب فرعون اوراُس کی قوم کی زیادتیاں حد سے بڑھ گئیں اور بڑے بڑے معجزات دیکھنے کے باوجود وہ کفر و سرکشی پر اڑے رہے تو حضرتِ موسیٰ علیہ السلام نے اُن کی ہلاکت و بربادی کی دعا فرمائی اور بارگاہِ رب العالَمین میں یوں عرض گزار ہوئے :

اے ہمارے رب !اُن کے مال و دولت کو برباد کر دے اور اُن کے دلوں کو سخت کر دے ؛ تاکہ وہ اُس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں۔ ( سورۂ یونس ،آیت نمبر ۸۸:) ۔

اللہ عز وجل نے اُن کی دعا قبول فرمائی اور انھیں، بنی اسرائیل[یعنی اپنی قوم] کو لے کر ایک معیَّن وقت میں مصر سے روانہ ہونے کا حکم دیا ۔ جب فرعون کو معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل اپنے پیغمبر کے ساتھ مصر سے نکل چکے ہیں تو وہ اُن کے تعاقب میں نکلا ۔

اِدھرموسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کے ساتھ سمندر کے کنارے پہنچے ، اُدھر فرعون اپنے لشکر کے ساتھ اُن کے سروں پر آ پہنچا ۔ ایک طرف خوں خوار دشمن تو دوسری طرف خطرناک سمندر۔ یہ ہول ناک منظر دیکھ کر وہ انتہائی بےقرار اور سخت خوف زدہ ہوگئے اور انھیں اپنی ہلاکت کا یقین ہونے لگا

مگر اللہ عز وجل نے کرم فرمایا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سمندر میں عصا[اپنی لاٹھی] مارنے کاحکم دیا ، عصا مارتے ہی سمندر پھٹ گیا اوردیکھتے ہی دیکھتے اُس میں کشادہ راستہ تیار ہوگیا ۔

چناں چہ بنی اسرائیل اُس میں داخل ہو کر کام یابی کے ساتھ دوسری جانب پہنچ گیے ۔فرعون نے جب سمندر میں ایک شاندار خشک راستہ دیکھا تو اپنے پورے لشکر سمیت اُس میں داخل ہو گیا ، یہ ظالم و بد بخت جب بیچ راستے میں پہنچے تو سمندر کے اَجزا ء ایک دوسرے سے مل گئے اور سب کے سب غرق ہو کر ہلاک ہو گیے ۔

جب فرعون ڈوبنے لگا تو بولا : مَیں اُس[خدا] پر ایمان لایا جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور[اب] مَیں مسلمانوں میں سے ہوں۔ اللہ عز وجل کی طرف سے اُسے اُس وقت جو جواب مِلا تھا اُسے قرآنِ کریم
نے یوں بیان فرمایا ہے : ۔(سورۂ یونس ، آیت نمبر ۹۱:،۹۲)

ترجمہ: اب![تو ایمان لایا ہے] حالاں کہ اِس سے پہلے تو نے نافرمانی کی اور تو فساد کرنے والوں میں تھا ۔سو آج ہم تیرے بے جان جسم کو بچا لیں گے ؛ تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے عبرت کا نشان بن جائے ۔ اور بے شک بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں ۔ چوں کہ اِس آیتِ کریمہ میں فرعون کے بے جان جسم کو نشانِ عبرت بنا کر باقی رکھنے کی پیش گوئی کی گئی ہے؛ لہذا قدرتی طور پر اُس کی حفاظت کے انتظامات بھی ہو گئے۔

چناں چہ جب وہ غرق ہو کر ہلاک ہوگیا تو نہ ہی سمندر کی خطرناک موجیں بَہا کر اُسے دور لے گئیں، نہ ہی اُس کے کھاری پانی نے اُس کے گوشت و پوست کو گلایا اور نہ ہی اُس کا ناپاک گوشت سمندری جانوروں کی غذا بنا ؛ بلکہ سمندری لہروں نے اُس کی لاش کو اُٹھا کر ایک ٹیلے پر پھینک دیا

اُس جگہ کو آج بھی ’’جبلِ فرعون‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ لاش دیکھنے کے بعد بنی اسرائیل کو فرعون کی ہلاکت کا یقین ہو گیا اور اللہ عز وجل کی قدرت پر دلیل بھی قائم ہو گئی ۔یہ فرعون ۱۲۶۳ قبلِ مسیح میں غرق ہوا تھا اور یہ ۲۰۲۲ ہے ۔

یعنی اُسے غرق ہوئےتقریبا تین ہزار دو سو چوراسی سال گزر چکے ہیں؛ مگر مصر کے عجائب خانے میں اُس کی لاش آج بھی محفوظ و موجود ہے ۔ اور یہ بھی تحقیق سے ثابت ہے کہ یہ وہی فرعون تھا جس کا مقابلہ حضرتِ سیدنا موسیٰ کلیم علیہ السلام سے ہوا تھا ۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرعون سے کہا تھا کہ مَیں تیرے بے جان جسم کو باقی رکھوں گا اور دنیا والوں کے لیے عبرت کا نشان بنا دوں گا ۔ ہزاروں سال گزرنے کےبعد بھی اُس کی لاش دیکھنے والوں کے لیے عبرت کا نشان ہے کہ نہیں ؟

ہے اور ضرور ہے۔ مصر پر غیروں کی حکومتیں بھی قائم ہوئیں ہیں، اُن کے لیے فرعون کی لاش کو نیست و نابود کرنا اور قرآنِ کریم کی پیش گوئی کو غلط ثابت کرنا انتہائی آسان تھا ؛ لیکن یہ قرآنِ مجید کا زندہ و جاوید معجزہ ہے کہ وہ ایسا نہ کر سکے اور قرآنِ مقدس کی پیش گوئی حرف بحرف صادق ہوئی ۔ ثابت ہوا کہ یہ کلام ’’کلامِ الٰہی‘‘ اور دینِ اسلام ’’دینِ برحق‘‘ ہے ۔

[۶] موجودہ سواریوں کے بارے میں پیش گوئی :اللہ ربُّ العزت نے سورۂ نحل میں فرمایا: (سورۂ نحل ، آیت نمبر ۸:)

ترجمہ: اور اُس[ یعنی اللہ] نے گھوڑے ،خچَّر اور گدھے تمھاری سواری اور زینت کے لیے
پیدا کیے اور وہ اُن چیزوں کو بھی پیدا کرے گا جن کی[فی الوقت] تمھیں[کچھ بھی] خبر نہیں ہے ۔

اِس آیتِ کریمہ میں اللہ عز وجل نےبندوں پر اپنی نعمت و رحمت کا تذکرہ فرمایا ہے ۔ یعنی یہ کہ اُس نے گھوڑے ، خچر ، گدھے اور دیگر کئی جانور ہمارے نفع کے لیے پیدا کیے ہیں کہ ہم اُن پر سفر بھی کرتے ہیں اور اُنھیں اپنی شان و شوکت اور زینت و زیبائش کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں ۔ یہ سب کچھ یقیناً اللہ کا فضل و کرم اور اُس کی رحمت و نعمت ہے، فالحمد للہ علی ذٰلک حمدا لا تعد ولا تحصٰی ۔

اِسی آیتِ کریمہ کے آخر میں یہ پیش گوئی بھی کی گئی ہے کہ اللہ عز وجل تمھاری زینت وسواری کے لیے بعد میں ایسی عجیب و غریب چیزیں بھی ایجاد فرمائے گا جن کی حقیقت اور پیدائش کی کیفیت کا تمھیں فی الحال علم نہیں ہے ۔

اِس پیش گوئی میں ’’ پہاڑوں جیسےبحری جہاز ، پرندوں کے مانندہوائی جہاز ، سانپ جیسی لمبی ریل گاڑیاں ، چوپایوں کی طرح کاریں ، بسیں ، سائکلیں ، موٹر گاڑیاں ‘‘ اور اِس قسم کی سیکڑوں سائنسی ایجادات داخل ہیں ، جن کا اُس وقت نام و نشان تک نہ تھا ، سب بعد میں وجود آشنا ہوئیں؛ بلکہ آئندہ ، قیامت تک سواری اور زینت کے جتنے سامان بھی معرضِ وجود میں آئیں گے وہ سب اِس آیت کریمہ کے آخری حصے میں داخل ہیں ۔

مخالفینِ اسلام و دشمنانِ قرآن کو، اپنی آنکھوں سے تعصب کی عینک اتار کر غور کرنا چاہیے کہ سیکڑوں سال بعد پیدا ہونے والی مختلف سواریوں اور متعدد اسبابِ زینت کی ایجاد کا واضح اعلان کرنے والا قرآن ، کیا معاذ اللہ کسی انسان کا بنایا ہوا یا حضرتِ محمد مصطفیٰ کا گھڑا ہوا ہو سکتا ہے ؟

جس زمانے میں اِن چیزوں کی ایجاد کا اعلان کیا گیا تھا اُس وقت انسانی عقل اِن کا تصور بھی کرنے سے قاصر تھی ، پھر بھی قرآن نے پیش گوئی کی کہ

’’اے لوگو! تمہارا رب ایسی چیزیں بھی ایجاد کرےگا جن کی حقیقت و کیفیت کو تم نہیں جانتے‘‘

اور پھر زمانے نے دیکھا کہ جو لوگ اپنی سائنسی طاقت و قوت کے نشے میں اپنے پروردگارہی کا انکار کربیٹھے تھے

اللہ نے انھیں کے ذریعے مختلف سواریوں کو وجود بخش کر قرآنِ کریم کی پیش گوئی کے صِدق کو ظاہر فرمایا اور قرآنِ مقدس کےاپنے ’’کلامِ ازَلِی ‘‘ہونے کا اعلان فرمایا ۔

[جاری]

تحریر: سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی

پرنسپل: دارالعلوم محبوبِ سبحانی کرلا ویسٹ ممبئی

پیش کش : نور ایمان اسلامک آرگنائزیشن کرلا ویسٹ ممبئی۔

10 thoughts on “اسلام ہی سچا دین کیوں قسط ہفتم

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *