خانقاہ عالیہ رشیدیہ جون پور کے موجودہ سجادہ نشین ایک تعارف

Spread the love

خانقاہ عالیہ رشیدیہ جون پور کے موجودہ سجادہ نشین ایک تعارف

از: پروفیسر جمال نصرت سندیلوی

تاریخِ اسلام میں خانقاہوں نے ہمیشہ روحانی رہنمائی، اخلاقی تربیت اور تصوف کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

خانقاہیں صرف عبادت اور ذکر و اذکار کے مقامات نہیں ہوتیں بلکہ یہ اصلاحِ نفس، تزکیۂ قلب اور سماجی خدمت کے مراکز بھی ہوتی ہیں۔ ان خانقاہوں کے سجادہ نشین یا گدی نشین اپنی روحانی عظمت، علم و فضل اور انسانی خدمت کے جذبے کے باعث معاشرے میں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ ایسی ہی ایک عظیم اور معروف خانقاہ، خانقاہ عالیہ رشیدیہ جون پور ہے

جس کے 12ویں اور موجودہ سجادہ نشین حضرت سید شاہ معروف علی سبز پوش گورکھپوری ہیں۔ یہ مضمون حضرت سید شاہ معروف علی سبز پوش کی زندگی، کارناموں اور ان کے اوصاف و خصائص پر روشنی ڈالے گا۔

ولادت اور ابتدائی زندگی :

حضرت سید شاہ معروف علی سبز پوش کی ولادت 08 اکتوبر 1952 کو گورکھ پور کے ایک علمی اور روحانی گھرانے میں ہوئی۔

آپ کا خاندان کئی نسلوں سے دین و روحانیت کی خدمت کرتا چلا آ رہا ہے۔ آپ کے والد محترم سید شاہ ہاشم علی سبز پوش جامی گورکھپوری ایک اہم علمی شخصیت اور روحانی پیشوا تھے، جب کہ آپ کے دادا حضرت سید شاہ محمد شاہد علی سبز پوش فانی گورکھ پوری خانقاہ عالیہ رشیدیہ کے 9ویں سجادہ نشین تھے۔

ایسے بلند مرتبہ خاندان میں پرورش پانے کی وجہ سے آپ کو بچپن سے ہی دینی و روحانی تعلیمات کا شوق اور عملی زندگی میں ان پر عمل کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔

تعلیم و تربیت:

حضرت سید شاہ معروف علی نے ابتدائی تعلیم کونونٹ اسکول گورکھپور سے حاصل کی، جب کہ دینی تعلیم کا سلسلہ گھر پر ہی کئی قابل اساتذہ سے جاری رہا۔

آپ کی بسم اللہ خوانی آپ کے چچا حضرت سید شاہ مصطفی علی سبز پوش آنی گورکھپوری نے کروائی، جو خانقاہ عالیہ رشیدیہ کے 10ویں سجادہ نشین تھے اور جنہیں عوام میں چھوٹے سرکار کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔

اعلیٰ تعلیم اور پیشہ ورانہ زندگی:

ابتدائی اور دینی تعلیم کے بعد، حضرت سید شاہ معروف علی نے جبلی کالج گورکھ پور سے درجہ 6 سے 12 تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد، آپ نے سینٹ اینڈریوز کالج گورکھ پور سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی، جو گورکھ پور یونیورسٹی کا حصہ ہے۔

آپ کے علمی سفر کا اگلا پڑاؤ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تھا، جہاں سے آپ نے 1977ء میں ایل ایل بی اور 1979ء میں ایم بی اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد، حضرت سید شاہ معروف علی نے اپنی عملی زندگی کا آغاز جدہ، سعودی عرب سے کیا، جہاں آپ نے 1980ء سے 2015ء تک مختلف پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھائیں۔ اس عرصے کے دوران آپ نے اپنی خانقاہی ذمہ داریوں کو بھی بخوبی انجام دیا اور اپنے روحانی سلسلے کو جاری رکھا۔

خانقاہ کی تولیت و سجادگی:

والد محترم حضرت سید ہاشم علی سبز پوش کے وصال کے بعد، بتاریخ یکم جنوری 2011 آپ کو خانقاہ عالیہ رشیدیہ کا متولی مقرر کیا گیا۔ یہ اہم ذمہ داری حضرت مجمع البحرین مفتی محمد عبید الرحمن پورنوی رشیدی، جو کہ خانقاہ کے 11ویں سجادہ نشین تھے، کی خواہش پر آپ کے سپرد کی گئی تھی۔

  29   اپریل 2024 کو حضرت مجمع البحرین علیہ الرحمۃ کی تقریبِ چہلم کے موقع پر آپ کو خانقاہ کے ارباب حل و عقد و دیگر اہم مریدین کی باہمی رائے و مشاورت سے خانقاہ عالیہ رشیدیہ جون پور کے 12ویں سجادہ نشین کے طور پر منتخب کیا گیا۔ اس عظیم الشان تقریب کا انعقاد خانقاہ طبیبیہ معینیہ بنارس میں ہوا، جہاں حضرت مجمع البحرین علیہ الرحمۃ کے خلیفۂ مجاز نے آپ کی سجادگی کا باقاعدہ اعلان کیا۔

خاندانی نسب اور روحانی سلسلہ:

حضرت سید شاہ معروف علی کا سلسلۂ ارادت قادریہ شمسیہ ہے

جب کہ شجرۂ نسب 31 واسطوں سے حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ تک پہنچتا ہے۔ آپ کے خاندان میں کئی بزرگوں نے دین و روحانیت کی ترویج کے لیے گرانقدر خدمات انجام دیں۔

آپ کے دادا حضرت سید شاہ محمد شاہد علی بڑے سرکار کے لقب سے معروف تھے اور خانقاہ عالیہ رشیدیہ کے 9ویں سجادہ نشین تھے۔ آپ کے چچا حضرت سید شاہ مصطفی علی سبز پوش چھوٹے سرکار کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں اور خانقاہ کے 10ویں سجادہ نشین تھے۔

یہ بزرگ شخصیات نہ صرف اپنے وقت کے جید عالم اور صوفی تھے بلکہ عوام الناس کی رہ نمائی اور اصلاح کے لیے بھی ہمیشہ کوشاں رہتے تھے۔ آپ کے شجرۂ نسب کی چند اہم و جلیل القدر شخصیات کے نام یہ ہیں:-

سید ہاشم علی (بردار کلاں سید مصطفیٰ علی)- سید شاہد علی سبز پوش (بڑے سرکار)- سید غلام غوث- میر سید قیام الدین (حضرت قطب الاقطاب دیوان جی شیخ محمد رشید جونپوری بانی خانقاہ رشیدیہ جون پور کے خلیفۂ ارشد تھے۔

شہر گورکھ پور کو بسانے میں ان کا بھی اہم کردار تھا۔ مزار دارِ فانی واقع گورکھپور کے احاطے میں ہے)- میر سید موسیٰ سلطان العاشقین (پہلے ہندوستان آئے اور ایودھیا میں قیام کیا اور آپ ہی بادشاہ بابر سے سب سے پہلے ملے تھے۔)- میر سید حسین شاہ ناصر ترمذی (اہل قلم و صاحبِ تصانیف)- میر سید موسیٰ نجفی (مدینہ سے نجف کو منتقل ہوئے)- حضرت حسین اصغر- امام زین العابدین- حضرت امام حسین۔

حضرت امام علی مرتضیٰ ازدواجی زندگی اور اولاد:

حضرت سید شاہ معروف علی کی شادی جناب سید اسرار مسعود صاحب ساکن بھوپال کی چھوٹی صاحبزادی سیدہ شیبا معروف سے ہوئی۔

آپ کی زوجہ محترمہ کا شجرۂ نسب بھی حضرت علی سے جا کر ملتا ہے۔ اس بابرکت ازدواج سے اللہ نے آپ کو دو بیٹیوں سے نوازا۔ آپ کی بڑی صاحبزادی بی بی سیدہ نورین معروف کا نکاح جناب محمد حسین قادری حیدر آبادی سے ہوا، جب کہ چھوٹی صاحبزادی بی بی سیدہ امن معروف کا نکاح جناب محمد عمر خان مسوری سے ہوا، جو صوبہ ہمانچل سے تعلق رکھتے ہیں۔

حج، عمرہ اور اسفار:

حضرت سید شاہ معروف علی نے اپنی زندگی میں 3 مرتبہ حج اور متعدد بار عمرے کی سعادت حاصل کی ہے۔

اس کے علاوہ آپ نے دنیا کے مختلف ممالک کا بھی سفر کیا ہے، جن میں امریکہ، یورپ کے تمام ملک اور عرب کے تقریباً سبھی ممالک شامل ہیں۔

جائدادوں کی تولیت اور دیکھ بھال:

حضرت سید شاہ معروف علی نے اپنے دادا حضرت شاہ محمد شاہد علی سبز پوش کی جانب سے تمام جائدادوں کی تولیت کا فریضہ بھی سنبھالا ہوا ہے۔ ان جائدادوں میں گورکھپور کے علاوہ بھوپال میں بھی کچھ جائدادیں شامل ہیں۔ آپ اپنی ذمہ داریوں کو نہایت احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں اور خانقاہ کے انتظامی امور کو بخوبی نبھا رہے ہیں۔

مزاج اور شخصیت:

حضرت سید شاہ معروف علی کی شخصیت میں نیک دلی، پرہیزگاری، انکساری اور دردمندی کا عنصر نمایاں ہے۔ آپ صوم و صلاۃ کے پابند ہیں اور دین کے معاملے میں ہمیشہ متانت اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اگرچہ آپ کو گلاکومہ اور معمولی شکر کی شکایت ہے، مگر آپ اپنی صحت کا خاص خیال رکھتے ہیں اور دوائیاں باقاعدگی سے استعمال کرتے ہیں۔آپ کو شکار کا شوق ہے اور آپ کا نشانہ بھی بہت اچھا ہے۔

ابتدائی دنوں میں آپ ایک اچھے گھوڑ سوار بھی تھے، مگر وقت کے ساتھ ساتھ آپ نے یہ شوق ترک کر دیا۔ آپ کو سفر اور نئے مقامات کی سیر کرنے کا شوق ہے، جس کی وجہ سے آپ نے دنیا کے مختلف ممالک کا سفر کیا۔

اختتامیہ:

معلیٰ القاب حضرت سید شاہ معروف علی سبز پوش گورکھ پوری کی شخصیت ایک عظیم علمی، روحانی اور سماجی پیشوا کی ہے، جو اپنے خاندانی ورثے کو نہایت دیانتداری اور محبت کے ساتھ آگے بڑھا رہے ہیں۔

ان کی زندگی ہمارے لیے ایک روشن مثال ہے کہ کس طرح علم، روحانیت اور اخلاقی قدروں کو یکجا کر کے ایک کامل شخصیت تشکیل دی جا سکتی ہے۔

آپ کی سجادگی کا فیض ان شاء اللہ جاری اور روز افزوں کرتا رہے گا اور آپ کی سرپرستی میں خانقاہ عالیہ رشیدیہ کی روشنی سے لوگوں کے قلوب و اذہان منور ہوتے رہیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *