حیف! ہم پیغمبر کے درس اخلاقیات بھول بیٹھے
حیف! ہم پیغمبر کے درس اخلاقیات بھول بیٹھے
دعوت دین کا کام صرف اعلی اخلاق، قول حسن، قول لین و جدال احسن سے ہی ممکن ہے۔اگر داعی قول معروف و موعظۂ حسنہ کے ہنر سے عاری ہے تو ایسے کو دعوت کا محترم کام سپرد کرنا خسران و جہالت ہی ہے۔جب کسی سنکی جنونی کے ہاتھ میں ملک و ریاست کا باگڈور نہیں دیا جاتا تو دین و سنیت کے اعلی ترین صبر و تحمل سے مملو عہدے کے لیے با اخلاق و با کمال ہونا اتنا ہی اہم ہے۔کیوں کہ ایک مبلغ یا داعی سماج کے درمیان جو انوسٹ کرتا ہے وہی افراد ملت کے اندر دکھتا ہے۔داعی جو سکھاتا ہے مبلغ جو پڑھاتا ہے رزلٹ بہرحال ویسا ہی آتا ہے۔ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ استاذ نے جغرافیہ پڑھایا اور طلبہ نے کیمسٹری سمجھ لی۔جو بوؤ گے وہی کاٹو گے۔
مجھے یاد یا آ رہا ہے کہ۱۳- ۲۰۱۲ کا زمانہ رہا ہوگا۔مظفر پور میں ایک مولوی نما قاری صاحب کو ایک نو مولود بورڈ کا ضلعی صدر بنایا گیا تھا۔اس وقت قاری صاحب پر دفاع سنیت کا بخار کچھ ایسا چڑھا تھا کہ مظفر پور جیسے دیوبندی وہابی تعداد والے شہر میں وہابیوں کے خلاف ایل ایس کالج کیمپس میں جلسہ رکھ دیا۔اور اشتہار میں کھلے طور پر لکھا وہابیت بھگاؤ۔وہابیت دہشت گرد وغیرہ۔ دس سال پہلے شہر کے بالغ نظر دنشوران اس جلسے سے دور دور ہی رہے۔پروفیسر فاروق صدیقی صاحب نے اشتہار پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ایک نجی مجلس میں کہا تھا یہ لوگ ملک و سماج کے مزاج سے بالکل ناواقف ہیں۔یہ لوگ مسلک اعلی حضرت کے دشمن ہیں، تب مجھے یہ جملے اچھے نہیں لگے تھے کیوں کہ تب میں بھی ایک جنونی ٹائپ سنی ہوا کرتا تھا۔حکمت عملی اور مصلحت جیسی بات کو تو میں بزدلی سمجھتا تھا۔مگر آج شدت سے اس بات کا احساس ہوتا ہے صدیقی صاحب درست کہ رہے تھے۔ انہی دنوں اسی مظفر پور کے ایک بڑے گاؤں (بڑکا گاؤں) میں حیدری کانفرنس تھی۔جلسے کے کانوینر شہر کے سینئر وکیل اقبال احمد صاحب تھے۔مدعو خطیب مولانا عبدالمصطفے ردولوی صاحب نے اپنا خطاب شروع کیا۔اپنے معروف مزاج و منہاج کے مطابق خطاب شروع کرتے ہی دیوبندی وہابی کو لپیٹنا اور کھری کھوٹی، جلی کٹی سنانے لگے۔ابھی دس سے بارہ منٹ ہی ہوۓ ہوں گے کہ اقبال صاحب جو نیچے بیٹھے تھے کھڑے ہو کر بآواز بلند کہا حضرت تقریر بند کیجئے اس جلسے میں ایک بھی وہابی نہیں ہے اور اس علاقے میں دور دور تک ایسے لوگ نہیں ہیں پھر یہ سب کس کو سنا رہے ہیں۔ مجھے تب اقبال صاحب کی سنیت پر شک ہوا تھا مگر جب آج سوچتا ہوں تو بالکل جائز اور حکمت سے قریب پاتا ہوں کہ وکیل صاحب ہی درست تھے۔یہ ہمیں ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ کسی کو برا بھلا کہ کر، کسی کی برائی بیان کر کے اصلاح سنیت و نشر مسلک کا کام نہیں کیا جا سکتا ہے۔بعص احباب کہتے ہیں کہ وہابیت کا رد فرض ہے مانا فرض ہے مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہر جگہ صرف یہی موضوع رہے۔جہاں میں اور بھی کام ہیں محبت کے سوا۔اس جلسے میں اتنی بڑی بھیڑ تھی اگر ردولوی صاحب چاہتے اور حکمت سے کام لیتے تو سنیت کے لیے بڑا پیغام نشر کر جاتے مگر انہیں تو بس اپنا تیر کمان ہی نکالنا رہتا تھا چاہے فائدہ ہو کہ نقصان۔سو نقصان ہی کیا۔ اسلام میں اخلاقیات ایک بہت ہی اہم اور معتبر سبجیکٹ ہے۔دین کی تبلیغ و ترسیل میں اخلاقیات نے بڑا رول پلے کیا ہے۔ہمارے خطبا و واعظین کہتے ہیں کہ دین لوہے کی تلوار سے نہیں اخلاق کی تلوار سے پھیلا ہے۔لوہے کی تلوار گردن جھکا سکتی ہے مگر دل جھکانے کے لیے اخلاق کی تلوار درکار ہے۔اتنی تقریر مارنے کے باوجود یہ مولوی خود اخلاقیات بھول کر ہتھے سے اکھڑ جاتے ہیں جب کوئی مخالف بات در پیش ہو تو آپے سے باہر ہو جانا یہ اپنا دھرم سدھ ادھیکار سمجھتے ہیں۔ پیغمبر اسلام کو مکہ سے ہجرت کرنی پڑی اخلاق تب بھی بلند ہی رہا۔شعب ابی طالب میں تین سال گزارنے پڑے تب بھی پیغمبر اسلام “انک لعلی خلق عظیم” کی تصویر ہی رہے بلکہ جان نثاران پیغمبر نے بھی ان مشکلات کو فیس کرتے ہوئے اخلاقیات کا دامن نہیں چھوڑا۔پیغمبر کے مقدس گلے میں رسی ڈال کر کھینچا گیا تب بھی بلند اخلاق کے داعی رہے۔پیغمبر کی حاملہ بیٹی کو برچھی مار کر ان کا حمل ساقط و ضائع کر دیا گیا، پیارے چچا حمزہ کا جگر چاک کیا گیا تب بھی اخلاقیات کا اعلی نمونہ بنے رہے۔کیا اتنی ساری چیزیں ہمارے با اخلاق اور خوش گفتار ہونے کے لیے کافی نہیں ہیں؟ آپ اگر سلجھے ہوۓ باشعور سنی ہیں تو حیرت ہوگی کہ آج کل ہمارے جلسوں میں شعرا دھڑلے سے مخالف مسلک و مشرب والے کو حرامی جیسے غیر مہذب لفظوں سے ایڈریس کرتے ہیں اور اسٹیج پر بیٹھے مولویان نذرانہ خور و مفتیان حیلہ جو واہ واہ کر رہے ہوتے ہیں۔کیا یہ دین کی خدمت ہے؟ کیا کسی کو گالی دینے سے سنیت کی خدمت ہوتی ہے؟ یا حرامی کوئی مہذب گالی ہے جسے اس قدر کھلے عام وہ بھی شاعری میں پروسا جا رہا ہے؟
ذیل میں لگا بینر دیکھ کر پھر مجھے وہی سنکی پن یاد آگیا۔کیا کسی موقف و مسلک کو ثابت کرنے کے لیے یہ سب جائز ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ عید میلاد منانا جائز و مستحسن تو ہو سکتا ہے مگر اس کے مخالف کو اس طرح ایڈریس کرنا کہاں تک درست ہے؟ یہ کس قسم کے مولویوں کا سکھایا گیا سبق ہے جو اس طرح اس محترم مہینے میں بھی مسلکی سنکی پن پہ اتارو ہے؟ ارباب بست و کشاد کو ان جیسی چیزوں کی سخت نوٹس لینی چاہیے۔میں ذمے دار علما اور ذمے خانقاہوں سے گزارش کروں گا کہ وہ حالات کو سمجھیں اور افراد ملت کو اس طرح کے غیر اخلاقی راستے پر نہ ڈالیں۔خود سے سوال کر لیں کہ ان لڑکوں اتنا متشدد کس نے بنایا؟سنیت کی خیر مطلوب ہے تو راہ اعتدال ہی وہ راستہ ہے جو اصلاح اعمال و عقائد کو موثر بنا سکتی ہے۔ورنہ دشنام طرازیوں سے کس نے جنگ جیتی ہے۔آج آپ مخالف کو حرامی لکھ لیں، کل وہ لکھیں گے۔
مشتاق نوری
Pingback: نوبل انعام اور فیکٹ چیکر محمد زبیر ⋆ مشتاق نوری
Pingback: سماج میں پپیسے کی حیثیت ⋆ مشتاق نوری
Pingback: آخر سماج اتنا بے حس کیوں ہے ⋆ مشتاق نوری
Pingback: جلسہ ماڈل میں بدلاو کی ضرورت کیوں ⋆ مشتاق نوری