مسلمانو! کیا تمہاری کوئی مضبوط قیادت ہے

Spread the love

مسلمانو! کیا تمہاری کوئی مضبوط قیادت ہے ؟

فرحان بارہ بنکوی

اس دنیائے فانی میں انسان کو خدائے وحدہ لا شریک کی عبادت کی غرض سے ہی وجود بخشا گیا ہے۔ اس روئے زمین پر اسی مالکِ حقیقی کی عبادت و بندگی، اور اسی کے احکام کا نفاذ، ہر صاحبِ ایمان کا مقصدِ اصلی ہے؛ چنانچہ اس نصب العین کے حصول کے تئیں ہر مومن کو تا بہ مقدور کوشاں رہنا چاہیے۔

اس کرۂ ارض پر موجودہ دور میں مسلمان جس قدر خستہ حالی کا شکار ہے، وہ خود اس کا اپنا بویا ہوا ہے۔ ضلعی سطح سے لے کر ملکی سطح تک وہ سیاسی نمائندگی سے قاصر ہے۔ مسلمانوں کی خالص سیاسی نمائندگی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

اور جو چند اردو نام والے یا نام نہاد مسلم سیاست داں ہیں بھی تو وہ فقط اپنے سیاسی آقاؤں کی خوشنودی کے حصول کے لیے حیران و سرگرداں رہتے ہیں۔ عدم رواداری، عدم مساوات، ظلم و بربریت جیسے ملی مسائل پر چند الفاظ بولنے تک میں بھی ان پر چار تکبیروں کا خوف طاری ہو جاتا ہے۔

خیر! ان اردو نام والوں اور نام نہاد مسلم سیاست دانوں سے ملی مسائل پر لب کشائی اور شرعی حدود کے تحفظ پر کیا ہی امید کی جا سکتی ہے کہ جو اپنے گھروں میں بھی شرعی احکام اور اسلامی رواج کو نافذ نہیں کر سکے، کہ جس میں نہ کوئی حکومت حائل تھی اور نہ ہی حکومت کی جانب سے اجبار تھا۔

جن مسلم سیاست دانوں نے اسلامی احکام کو بالائے طاق رکھ دیا، اب ان سے شرعی احکام کے تحفظ کی امید کیا کی جائے۔ جنہوں نے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی بازیابی و تحفظ کی باگ ڈور سنبھالی تھی، وہ خود ہی مفاد پرست ثابت ہوئے اور قوم کا سودا ٹکے سے عہدے کے عوض کر ڈالا۔

احتساب زندہ قوموں کا شعار ہے

یہ تو اس قوم کی انفرادی سیاسی حالت زار کا ذکر تھا؛ لیکن آج اصل رونا تو اس کا ہے کہ مسلمانوں کی کوئی مرکزی قیادت نہیں ہے۔

جنگ آزادی کے موقع پر قائدانہ کرداد ادا کرنے والی جمعیۃ علما ہند نے آزادئ ہند کے بعد سیاسی قیادت و سیادت کو خیر باد کہہ دیا اور مسلمانوں کی جان و مال اور ان کے حقوق کے تحفظ کا ذمہ اپنے سر سے اتار کر کانگریس کو سونپ دیا، اور اس دن کے بعد سے کوئی مرکزی اجتماعی قیادت کا وجود نہیں ہوا۔

اب اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اب ایک مضبوط سیاسی قیادت کے بنا اس منافرت بھرے ماحول میں سانس لینا دشوار ہو گیا ہے؛ چنانچہ کہیں کوئی مسجد شہید کی جا رہی ہے، کسی مسلمان کو ہجومی تشدد کا شکار بنایا جا رہا ہے، تو کہیں مسلمانوں کی تجارت و معیشت کو خاک میں ملانے کے منصوبے کار فرما ہیں۔

امتِ مسلمہ نے اگر اب بھی حوش کے ناخن نہیں لیے تو وہ وقت دور نہیں کہ جب ہندوستانی مسلمانوں کا بھی حال غرناطہ، ہسپانیہ، برما کے مسلمانوں جیسا ہوگا۔ ان کے ایمان کو چھین کر ارتداد کا طوق ان کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔
جس ملک کی آزادی کے لیے مسلمانوں اور ان کے آبا و اجداد نے بے شمار قربانیاں دی ہیں، اسی ملک میں ان کا مقام دوم درجے کے شہری کی طرح ہوگا یا پھر ایک کرائے دار کی طرح زندگی بسر کرنے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہ ہوگا۔

مسلم دانش واران اور دینی راہ نماؤں نے وقت رہتے اگر اپنے مفاد کو پس پشت ڈال کر، مسلکی منافرت اور خود نمائی کے شوق کو تہہ خاکِ دفن کرکے، مسلمانوں کے ایمان کے تحفظ کے واسطے یکجا اور متحد ہو کر مسلم قیادت کو وجود نہ بخشا اور عوام نے اس قیادت کو توانائی فراہم کی نہ کی تو پھر ہمارے حال کا خدا مالک؛ اسی لیے تفکر و تدبر کے لباس کو زیب تن کرکے نفع و نقصان سے صرفِ نظر کرکے اور جی جان کی بازی لگا دے؛ ورنہ رفتہ رفتہ عبادت گاہوں، دینی مدارس، اسلامی شناخت، گو کہ ہر مسلمانی چیز سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *