مہمان نوازی امت مسلمہ کی ایک عظیم خوبی

Spread the love

از: علم الدین انواری قادری! مہمان نوازی امت مسلمہ کی ایک عظیم خوبی

اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے ماں کی گود سے لےکر قبر تک کے تمام معاملات ِ زندگی کے ہر پہلو کا بیان دین اسلام میں موجود ہے۔دین اسلام نے مہمان نوازی کے بارے میں جو بہترین قانون بنائے ہیں یا جس خوبصورت انداز سے اسلام نے ہمیں مہمان نوازی کے آداب کا پابند بنایا ہے ۔دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی

حضور ﷺکا فرمان ہے کہ ”جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مہمان کی تعظیم کرے“(ترمذی)

سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مہمان نوازی فرمائی، آپ کی مہمان نوازی کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن ِمجید میں یوں فرمایا ہے ترجمہ :اور بے شک ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے انہوں نے سلام کہا تو ابراہیم علیہ السلام نے سلام کہا پھر تھوڑی ہی دیر میں ایک بھُنا ہوا بچھڑا لے آئے (سورہ ہود :۶۹ )

تفسیر روح البیان میں اس آیت کے تحت علامہ اسماعیل حقی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ”نوجوانوں کی حسین شکل میں فرشتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہ السلام کی پیدائش کی خوشخبری لے کر آئے ،فرشتوں نے سلام کہا ،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی جواب میں سلام کہا ،پھر تھوڑی ہی دیر میں حضرت ابراہیم ایک بُھنا ہوا بچھڑا لے کر آئے “(جلد /۶ص/۱۶۱)

 

مفسرین فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم اتنے بڑے مہمان نواز تھے کہ بغیر مہمان کے کھانا بھی نہیں کھاتے تھے ،کسی نے آپ سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خلیل کس وجہ سے بنایا ؟

حضرت ابراہیم نے فرمایا:کچھ وجوہات کی بنا پر ان میں تیسری وجہ یہ تھی کہ میں نے صبح اور شام کا کھانا کبھی بھی مہمان کے بغیر نہیں کھایا ،کچھ روایتوں میں آیا ہے کہ آپ علیہ السلام ایک ایک میل پیدل چل کر مہمان تلاش کرنے کے لئے تشریف لے جاتے تھے ،لیکن آج ہمارا حال یہ ہے کہ مہمان خود چل کر ہمارے گھر آتا ہے تب بھی ہم ان کی خدمت کرنے سے کتراتے ہیں !

ہمارے آقا و مولیٰ ﷺنےاپنے غلاموں کو مہان نوازی کی تعلیم دی ہے حدیث کی کئی کتابوں میں نبی پاک ﷺکے ارشاد ات موجود ہیں، کچھ حدیثوں کو آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں! مہمان نوازی پر جنت کی خوشخبری: حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ بنی پاک ﷺنے فرمایا:جو بندہ نماز قائم کرے ،زکوٰۃ اداکرے ،رمضان کے روزے رکھے ،اور مہمان کی میزبانی کرے وہ جنت میں داخل ہوگا۔(الترغیب و ترھیب )

مہمان نوازی پر رحمت کی برسات:

حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی پاک ﷺنے ارشاد فرمایا :تم میں سے جب کسی کا دستر خوان بچھا رہے (مہمان کھاتے رہیں )تب تک فرشتے اس کے لئے دعا ئے مغفرت کرتے ہیں (ایضا)

مہمان نوازی پر خیرو برکت کا نزول :

حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ِرحمت نے فرمایا:جس گھر میں کھانا کھِلایا جاتا ہے اس گھر میں خیرو برکت اس سے بھی تیز اور جلدی سے آتی ہے جتنی جلدی اور تیز ی سے اونٹ کی کوہان پر چھری چلتی ہے (ایضا)

جو حاضر ہو مہمان کے سامنے پیش کردے : حضور کے کچھ صحابہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر تشریف لائے تو انہوں نے روٹی اور سرکہ پیش کیا ،اس سے معلوم ہوا کہ گھر میں جو کچھ موجود ہو وہ مہمان کو پیش کر دیا جائے ،اگر کوئی اسے اپنی تحقیر سمجھے تو یہ اس کے لیے بربادی ہے

اور مہمان کو چاہیے کہ جو کچھ پیش کیا جائے اسے حقیر خیال نہ کرے ورنہ اس کے لئے بھی بربادی ہے ۔موجودہ دَور میں یہ حال ہے کہ بے چارے میزبان سے جتنا ہو سکا مہمان کی خدمت کی مگر مہمان جب وہاں سے لَوٹتا ہے تو جگہ جگہ میزبان کی برائیاں بیان کرتا ہے اور یہ کہتا پھرتا ہے کہ اس نے تو کوئی ڈھنگ کا کھانا ہمیں نہیں کھِلایا ،اسے میزبانی کہتے ہیں ؟

اس نے تو جان چھُڑائی ہے یہ کہکر میزبان کو بدنام کیا جاتا ہے ،یاد رہے !یہ مہمان کے لئے بربادی ہے ،مہمان کو اس کام سے بچنا چاہئے، اگر کوئی میزبان کی تعریف نہیں کر سکتا تو کم سے کم برائیاں تو نہ کرے ۔

مہمان کو دروازے تک رخصت کرنا سنت ہے: حدیث شریف میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺنے فرمایا: کہ سنت یہ ہے کہ مہمان کو دروازے تک رخصت کرنے جائے ۔ مہمان کے ہاتھ میزبان دُھلائے:مہمان کے ہاتھ دُھلانا بزرگان دین کی سنت ہے جیسا کہ حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ اپنے استاذ امام مالک علیہ الرحمہ کے مہمان بنے تو حضرت امام مالک علیہ الرحمہ نے خود اپنے ہاتھوں سے ان کے ہاتھوں پر پانی ڈالا اور ان سے فرمایا یہ دیکھ کر گھبراؤ نہیں بلکہ اس بات کو ذہن میں بسا لو کہ مہمان کی خدمت کرنا میزبان پر لازم ہے ۔

مہمان نوازی کی اہمیت کا اندازہ اس بھی ہوتا ہے کہ محبوب خدا ﷺ نے ایک مرتبہ اپنی زرہ گروی رکھ کر یہودی سے آٹا قرض لیا !اور مہمان نوازی فرمائی

یہیں تک بس نہیں بلکہ حضور ﷺکی زندگی میں کئی ایسے دن بھی آئے کہ آپ اور آپ ﷺکے گھر والے کئی دنوں تک بھُوکے رہتے لیکن مہمان کو بُھوکا نہیں جانے دیتے ،مہمان نوازی کا یہی جزبہ صحابۂ کرام کے اندر بھی تھا خود پیٹ پر پتھر باندھ کر سو جاتے مگر مہمان کو بُھوکا نہیں جانے دیتے ،اپنے بچے بُھوکے رہ جائیں یہ تو برداست کر لیتے مگر مہمان بُھوکا جائے ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔

مسلم شریف کی ایک حدیث کا مفہوم پیش کرتا ہوں کہ سرکار ﷺکی بارگاہ میں ایک مہمان آئے آپ نے گھر سے کھانا منگوایا نہیں ملا تو آپ نے صحابہ سے فرمایا :کون آج اس شخص کی مہمان نوازی کرے گا ؟اللہ تعالیٰ اس پر رحمت فرمائے گا حضرت ابو طلحہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ میں مہمان نوازی کروں گا

پھر حضرت ابو طلحہ اس شخص کو لے کر اپنے گھر گئے اور اپنی بیوی سے پوچھا :کیا تمہارے پاس کھانے کے لئے کچھ ہے؟بیوی ام سلیم کہنے لگیں صرف بچوں کے حصے کا کھانا ہے

حضرت ابو طلحہ بولے: تم انہیں کسی چیز سے بہلا دینا اور جب مہمان آئے تو چراغ بجھادینا تاکہ مہمان کو پتہ نہ چلے کہ ہم کھانا نہیں کھا رہے ہیں، چنانچہ ان کی زوجہ نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ مہمان نے کھانا کھالیا ،اگلے دن حضور ﷺنے اس صحابی سے فرمایا :کل کی تمہاری مہمان نوازی تمہارے رب کو بہت پسند آئی۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت ام سلیم کے اندر مہمان نوازی کا کیا جزبہ تھا،بچوں کو بُھوکا سُلادیا لیکن مہمان کو پیٹ بھر کِھلایا ،اگر ان کی جگہ آج کی عورتیں ہوتیں تو شوہر سے لڑ لیتیں اور جواب میں کہتیں کہ ہمارے بچے بُھوکے سوئیں اور مہمان کھائے یہ نہیں ہو سکتا۔

اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم کرے اور ہماری عورتوں کو حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا جیسا جزبہ نصیب فرمائے ۔ آمین

از: علم الدین انواری قادری!

استاذ:دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف ،باڑمیر (راجستھان)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *