پہلی نظر

Spread the love

پہلی نظر

تسنیم مزمل شیخ (اورنگ آباد)

’’عمرہ! سچی ، ابو ہم عمرہ جارہے ہیں؟‘‘ مشعل نے چہک کر اپنے ابو سے پوچھا۔
’’ہاں بیٹی! عمرہ کے بعد آپ کی شادی۔‘‘

’’ابو ! ذرا یقین تو آنے دیجیے کہ میں عمرہ جارہی ہوں۔ ابو اور کون جارہے ہیں ؟‘‘

’’بیٹی ! میں اور آپ ، ہم دونوں ہی جارہے ہیں۔ آپ کی امی اور رحمان یہیں رہیں گے۔ رحمان کا دسویں کا سال ہے تو ایک مہینے کی چھٹی سے رحمان کی پڑھائی کا نقصان ہوجائے گا۔ رمضان میں آپ کی امی اور رحمان کو بھیج دیں گے۔ ‘‘

مشعل :’’کیا ہوا۔‘ ابو ! سچی کیا اللہ نے ہمیں بیت اللہ کے لیے چن لیا ہے ۔ یقین نہیں آرہا ہے ‘‘ کہہ کر اس کی آنکھیں نم ہوگئی۔ ابو نے بڑی شفقت سے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا :

’’شکرانہ پڑھ لے۔ کل عمرہ کی پہلی نشست ہے۔ ہمیں جانا ہے ، میں تو نہیں آپاؤں گا، آپ سمجھ کر مجھے بتا دینا، مجھے کچھ ارجنٹ آفس کا ضروری کام ہے کل۔ ان شاء اللہ دوسری نشست میں آپ کے ساتھ شامل ہوجاؤں گا۔‘‘

مشعل کی عمر ۲۵ سال تھی اور وہ ایک کمپنی میں سافٹ ویئر پروگرامر تھی۔ بہت ہی سلجھی ہوئی سمجھ دار اور اچھے اخلاق کی مالک تھی۔ گورا رنگ ، درمیانہ قد اور چھریرا بدن تھا۔ مشعل کے ابو پچھلے دو سال سے مشعل کی شادی کے لیے لڑکے دیکھ رہے تھے۔ مگر مشعل کی خواہش تھی کہ وہ شادی سے پہلے عمرہ کرے ، پھر اپنی زندگی شروع کرے۔
مشعل کے گھر میں چاچاچاچی تھے جنھیں ایک ہی لڑکی تھی ، جو نابینا تھی جس کا نام عائشہ تھا۔ گھر میں زور و شور سے عمرہ جانے کی تیاری ہونے لگی۔ مشعل بھی بہت خوش تھی۔ پہلی نشست میں مشعل پہنچی۔ مولانا نسیم نے بیان شروع کیا :

’’ آپ لوگ بہت خوش قسمت ہیں جنھیں اللہ نے اپنے گھر کا مہمان بنایا ہے۔ عمرہ جانے سے پہلے سب سے پہلا کام سب سے معافی مانگ لیں۔ اپنا دل صاف کر کے اللہ کے دربار کے لیے جاہیے۔‘‘

پھر انھوں نے مکہ معظمہ عمرہ کے ارکان اور مدینہ منورہ کی اہمیت اور حضورﷺ کو سلام پیش کرنے کا طریقہ ، مسجد نبوی کی اہمیت ، مختلف ستون جو کہ ریاض جنہ میں ہے ان کے بارے میں بتایا۔

عمرہ کے ارکان سکھاتے ہوئے تلبیہ پڑھنا سکھایا۔ لَبَیّک اَللّٰھُمَّ لَبَیّک لَبَیّک لاشَرِیْکَ لَکَ لَبَیّک اِنَّ الْحَمْدَ وَانِّعمۃَ لَکل وَالَمْکَ ۔ لَاشَرِیْکَ لَکَ یہ پڑھنے کے بعد مشعل کی آنکھ سے آنسو جاری ہوگئے۔ یقین نہیں آرہا تھا کہ جس کا خواب بچپن سے دیکھا ہے

وہ منزل اتنی قریب ہے جو کعبہ کی طرف چہرہ کر کے نمازیں ادا کی تھی وہ کعبہ شریف کو دیکھنے کا وقت عنقریب ہے۔ کسی نے پیچھے سے دھکا دیا : ’’باجی چائے لیں۔‘‘ مشعل نے اپنے آنسو پونچھے ، چائے پی اور عمرہ کی کتاب اور ضروری پرچے لے کر گھر کی طرف روانہ ہوگئی۔ کافی سارے لوگ تھے۔ ۹۵ ؍لوگوں کا بڑا سا گروپ تھا۔ جس میں ۵۰؍عورتیں تھیں اور ۴۵؍ آدمی تھے۔

مگر وہ کسی کوجانتی نہیں تھی تو کسی سے بات نہیں کی۔
رات میں کھانے پر ابو نے پوچھا : ’’بیٹی نشست میں گئی تھی، سبھی چیزیں سمجھ میں آئی آپ کو؟‘‘

’’جی ابو ! بہت سی چیزیں معلوم پڑی۔‘‘ اور ایک کے بعد ایک وہ بتانے لگی۔ مشعل کے والد والدہ اور بھائی رحمان چاچا چاچی سبھی خاموشی سے مشعل کی باتیں سننے لگے۔ وہ سب کہہ رہی تھی کہ اچانک رو پڑی اور سبھی سے معافی مانگنے لگی ، سبھی کی آنکھیں بھر آئیں اور سب نے مشعل کو گلے لگایا اور بہت دعائیں دی۔

دوسرے دن صبح وہ امی کے پاس بیٹھی اور کہنے لگی : ’’امی رئیسہ پھوپھو اور رفعت خالہ باقی ہیں، یہ معافی والا کام بہت مشکل ہے امی۔‘‘

’’نہیں بیٹا ! اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیںجو جھک کر پہل کرے۔ چلو اچھی بیٹی دونوں کو فون لگا کے بتا دو، آپ عمرہ جارہے ہو اور ساتھ میں معافی بھی مانگ لینا۔‘‘

’’ رفعت خالہ نے تو بہت اچھی بات کی۔ اب رئیسہ پھوپھو کیا کہتی ہے دیکھو ‘‘کہہ کر فون لگایا مشعل نے: ’’السلام علیکم پھوپھو! کیسی ہیں آپ؟‘‘

’’ٹھیک ہوں۔ دن کہاں سے نکلا، بی بی کو اتنی فرصت مل گئی کہ فون لگائے آج۔‘‘
’’ہاں پھوپھو میں اور ابو عمرہ کے لیےجارہے ہیں۔ یہ بتانا تھا آپ کو۔ اور پھوپھو جانے انجانے میں اگر کوئی بات بری لگی ہو تو میں معافی چاہتی ہوں۔‘‘

’’نہیں بی بی رہنے دو ، یہ عمرہ سے لوگ سدھر جائیں تو کیا بات ہے۔ یہ نرم مزاجی آنے کے بعد بھی برقرار رکھو۔ ہمیشہ دماغ ساتویں آسمان پہ رہتا ہے کہ ایک فون نہیں لگتا تم سے۔‘‘

’’ہاں ! پھوپھو لگا لوں گی۔ اچھا اب رکھتی ہوں ، ہم ۱۹؍اکتوبر کو نکل رہے ہیں۔ دعا میں یاد رکھیے۔‘‘ کہہ کر مشعل نے فون کاٹ دیا اوراپنی امی کو دیکھنے لگی۔

’’امی یہ رئیسہ پھوپھو کب باز آئے گی اپنے طعنوں سے۔ یہ نارمل بات نہیں کرسکتی کیا؟‘‘

’’ جانے دو بیٹا آپ نے آپ کا کام کردیا نا ، باقی اللہ نیت دیکھتا ہے۔‘‘
’’رحمان یہ کیا ہے۔‘‘

’’ مشعل باجی دیکھو ابو کیا لائے۔‘‘ ابو کے ہاتھ میں دو عمرہ کے کٹ تھے۔ ابو نے کہا:
’’عظیم صاحب (ٹور ایجنٹ) انھوں نے کافی دن پہلے دے دیا۔‘‘ عظیم صاحب ابو کے بہت اچھے دوست تھے اور وہ بھی عمرہ ٹورآرگنائز کررہے تھے۔ جس میں احرام ، ایک سوٹ کیس اور پاسپورٹ بیگ وغیرہ سامان تھا۔ یہ دیکھ کر مشعل خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی۔
’’ ابو! اب صرف پندرہ دن رہ گئے ہیں۔‘‘

’’ہاں بیٹی ! آپ کے برقعے اور کپڑے آگئے کیا ، ٹیلر کے پاس سے۔‘‘
’’ نہیں ابو دو دن بعد ملیں گے۔‘‘

ان دنوں مشعل کے والد کافی مصروف رہتے تھے اور کام کی وجہ سے بہت دیر سے گھر آتے تھے۔ مشعل بھی اپنے آفس کا کام کرلیتی۔ ابو کے آنے تک روز دیر سے ہی سہی مگر کھانا اپنے ابو کے ساتھ ہی کھاتی۔ ایک دن دو بج گئے ، تب بھی ابو کا پتہ نہیں۔ مشعل کو بہت فکر ہوئی۔ اس نے اپنی امی کو جگایا ء ’’امی! ابو ابھی تک کیوں نہیں آئے۔‘‘

پھر جا کے چاچا سے کہا چاچا ‘ ابو کو ڈھونڈنے ان کے آفس چلے گئے۔

چاچا کو کسی نے فون کیاکہ ابو کو اسپتال لے گئے ہیں اچانک طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے۔ چاچا اور سب وہاں پہنچے۔ لیکن دیکھا کہ آئی سی سی یو میں ابو آخری سانسیں گن رہے تھے۔ بی پی بڑھنے کی وجہ سے ابو کی دماغ کی نبض پھٹ گئی تھی۔ انھوں نے مشعل کو دیکھا اور اتنا ہی کہہ پائے :
’’عمرہ جانا ۔‘‘ اور زبان لڑکھڑانے لگی اور ابو کی آنکھیں بند ہوگئیں۔ سب کی چیخوں کا ایک کہرام برپا ہوگیا۔

ابو اپنے آخری منزل کو روانہ ہوگئے۔ تین دن بعد عظیم صاحب نے فون کیا اور کہا :
’’ بیٹا !ایک ہفتہ رہ گیا ہے جانے، آپ کے چاچا کو ساتھ لے چلو ، یا کوئی محرم دیکھو ،ابو کی جگہ۔‘‘

چاچا ،عائشہ اور گھر کے حالات کی وجہ سے چاہ کے بھی نہیں جاسکتے ہیں۔ دو دن سوچنے کے بعد مشعل نے طئے کیا کہ وہ اکیلے ہی عمرہ کے لیے جائے گی۔ گھر کے سبھی افراد اس کے خلاف تھے مگرعظیم صاحب نے کہا کہ :

’’بیٹی آپ اکیلے بھی چل سکتی ہو۔ سعودی گورنمنٹ اورانڈین گورنمنٹ بھی اب اکیلے جانے کی اجازت دے رہے ہیں۔ اور اللہ کے گھر جارہی ہو ،ہم سب آپ کے ساتھ ہیں، آپ کے ابو میرے بہت اچھے دوست تھے اور آپ میری بیٹی ہو۔‘‘

عظیم صاحب کے ان الفاظ نے مشعل کی ہمت بڑھا دی۔ خاندان کے کچھ لوگوں نے ہنسی خوشی تسلیم کیا تو کچھ لوگوں نے سیدھا کہا : ’’بنامحرم کے عمرہ نہیں ہوتا۔‘‘ مگر مشعل نے پکا ارادہ کرلیا تھا تو وہ رکی نہیں۔ وہ دن بھی آگیا کہ سبھی لوگ مشعل کو ایئرپورٹ خداحافظ کہنے آئے اور مشعل بڑی ہمت کے ساتھ لبیک پڑھتی ہوئی اپنے ساتھیوں کے گروپ کے ساتھ ہولی۔ ہوائی جہاز میں بھی اسے ونڈوسیٹ ملی، مگر وہ سب سے آخری سیٹ پر تھی اور اکیلے تھی۔

ایئرہوسٹس کافی اچھے سے services دے رہے تھے۔ بار بار چائے کافی یا کچھ چاہئے پوچھتے۔ ساڑھے چار گھنٹے کا سفر تھا جس میںچار گھنٹے ہوتے ہی ایک announcement ہوا میقات کا۔ ’’جس نے احرام نہیں پہنا ہو وہ پہن لے۔‘‘ سبھی نے ایئرپورٹ کے اندر ہی مسجد میں احرام پہن کے آئے تھے۔

مشعل کو announcement کے بعد نیند نہیں آئی اور خوشی اتنی تھی کہ کعبہ حدود میں آگئے، اُسے لگ رہا تھاکہ وہ دنیا کی سب سے خوش قسمت لڑکی ہے جو اب کعبہ شریف کو دیکھنے والی ہے۔ وہ سوچ ہی رہی تھی کہ ہوائی جہاز اترنے کا وقت ہوا۔ سیٹ بیلٹ کا announcement ہوا۔ ایئرہوسٹس سب بھاگنے لگی: ’’سیٹ بیلٹ لگاؤ‘‘ ہر ایک کو کہتی۔ اور وہ وقت بھی آیا کہ وہ اب اپنا Haad bag لے کر پلین کے exit gate کی طرف جانے لگی۔ وہ نیچے دیکھ کر چل رہی تھی۔ اچانک کسی سے ٹکرائی۔ (ایک خوب صورت سا نوجوان جو پائلٹ کے یونیفارم میں تھا) ’’یا اللہ یہ حولدار کو بھی ابھی بیچ میں آنا تھا۔‘‘

“Excuse me, I am pilot of the plane.”
’’اوہو۔ sorry مجھے لگا حولدار ہو۔میں بھی یہی سوچ رہی تھی کہ گیٹ کے اندر کیوں کھڑے کردیئے آپ کو ، bye کہنے۔‘‘

’’اور آپ کیسی لڑکی ہو، میں کہہ رہا ہوں میں پائلٹ ہوں اور یہ ڈیوٹی ہے ہماری bye کہنے کی لاسٹ میں۔‘‘
مشعل نے اس کی شرٹ کی نام کی تختی دیکھا اور کہا : ’’مسٹر اسلم راستہ دیجئے مجھے باہر جانا ہے۔‘‘

’’عجیب ہو آپ۔ جاہیے۔‘‘

ایئرپورٹ سے اپنا سامان لینے کے بعد ایک بس آئی۔ بس میں عظیم صاحب موجود تھے۔ انھوں نے خواتین کے ساتھ مشعل کو ایڈجسٹ کردیئے۔ ہوٹل پہنچ کر ناشتہ کرنے کے بعد سبھی لوگ عمرہ کے لئے نکل گئے۔ مشعل بھی لبیک پڑھ رہی تھی اور روتے جارہی تھی۔

ابو کے ساتھ نہ ہونے کا غم تھا اور کعبہ کو پہلی بار دیکھنے کی خوشی۔ جیسے ہی وہ باب عمرہ کے اندر پہنچی ساری دعائیں پڑھ کر اپنی نظریں جھکا رکھی تھی۔ کیونکہ کعبہ شریف پر پہلی نظر پڑھتے ہی دعا کرنا تھا اور وہ پہلی نظر کی دعا رد نہیں ہوتی۔ اُسے نشست میں بتایا گیا تھا۔ تو بہت سنبھل کہ وہ کھلے آسمان کے نیچے سنگ مرمر کی فرشی کو دیکھ رہی تھی۔ پھر دھیرے دھیرے نظریں اٹھائی اور پہلی نظر کی دعا کی :

’’یا اللہ میرے امی ابو کی مغفرت فرما، ان کے سارے کبیرہ صغیرہ گناہ معاف کردیجئے۔‘‘ اور وہ دعائیں کی جارہی تھی اور ہچکیوں سے روئے جارہی تھی۔ دل بھر کے کعبہ کو دیکھنے کے بعد اس نے اپنا عمرہ کا آغاز کیا حجراسود کے استلام سے کیا۔ پھر طواف کے سات چکر مکمل کئے۔

زم زم سیر ہوکے پیا پھر صفا و مروہ کی سعی کی اور آخر میں اپنے بال کٹ کئے مسجد سے نکل کے۔ سبھی لوگ مشعل کا کافی خیال رکھتے اور خاص کر بوڑھی عورتیں بہت دعائیںدیتیں۔ وہ کسی کے پیر دبا دیتی تو کسی کی تیمارداری کرتی۔ زیادہ تر عمررسیدہ خواتین تھی۔ اس کو اپنی امی کی یاد آتی تو وہ کوئی بھی خاتون کی خدمت کرتی اور ہر کسی کے آنکھ کا تارا بن گئی تھی۔ سبھی کو ساتھ لے جاتی عمرہ کرنے۔

یہ سب عظیم صاحب دیکھ رہے تھے۔ ایک دن انھوں نے کہا :

’’مشعل! شام میں اپنی امی اور چاچا سے بات کروانا۔‘‘
’’جی عظیم چاچا ۔ بالکل‘‘

’’ چاچی بھی بات کرے گی، تمہاری امی سے۔‘‘

عشاء کے بعد وہ عظیم چاچا اور چاچی کے کمرے میں جا کے اپنا فون لگاکے ان کو دے آئی۔ مشعل کو بس عبادتوں کی دھن تھی۔ وہ ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی۔ تھوڑی دیر بعد پھر امی کا فون آیا :
’’بیٹا آپ کے ابو نے عظیم چاچا کے لڑکے سے آپ کی شادی طے کردی تھی اور وہ چاہتے تھے کہ مدینے میں آپ کی شادی ہو۔ ہمارے بھی ٹکٹ آخری ہفتے میں بک ہے۔ آپ مدینہ پہنچوگے ، ہم بھی اسی دن آجائیں گے۔ ‘‘

مشعل کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کہے۔ وہ خاموش ہوگئی۔ اللہ کی مرضی اور ابو کی خواہش سوچ کر اوراسی دن اس نے پھر سے اپنے ابو کے ایصال ثواب کے لئے نفل عمرہ کیا اور پھر وہ مدینہ نکل گئے۔ مشعل بڑی confuse سی تھی۔ سوچ ہی رہی تھی کہ کون ہے پتہ نہیں

پھر آنکھ بند کر کے لمبی سانس لی اور پھر ایک خیال آیا کہ یہ ابو کی پسند ہے۔ مدینہ میں زندگی کی شروعات الحمدللہ۔ سبھی ٹور کے لوگوں کو پتہ چلا تو کسی نے مہندی لگائی، سبھی نے مبارکباد دی۔ مدینہ پہنچے۔ وہ ہوٹل پہ امی سے گلے لگ کے بے ساختہ رو پڑی۔ امی نے دلہن کا لباس دیا اور کہا :
’’پہلے حضورؐ کی خدمت میں سلام پیش کرنا ہے پھر عصر کے بعد آپ کا نکاح ہے۔ چلو شاباش جلدی آجاؤ تیار ہوکر۔‘‘

جب مشعل تیار ہوکر آئی تو مانو حور لگ رہی تھی آسمانوں کی ہر کوئی اس کی قسمت پر رشک کررہا تھا ۔ مگر اُسے حضورﷺسے ملنے کی خوشی تھی۔ سفارش بھی کروانا تھا ریاض جنہ میں جاکے۔ جیسے ہی وہ سلام پیش کرنے ریاض جنہ پہنچی ، ایک بڑی سی لائن تھی، وہ آدھے گھنٹے کے بعد اندر پہنچی۔ بس لگ رہا تھا کہ اللہ کے رسول ﷺ روبرو ہیں۔ وہ ہچکیوں سے روئے جارہی تھی۔ نمازپڑھ رہی تھی دو رکعت ،مگر زبان تھی کہ پلٹ نہیں رہی تھی۔

ہر ایک منٹ میں اللہ نکل جاتا۔ نماز ہونے کے بعد بہت دعائیں کی۔ اللہ کے نبیؐ آپ ہمارے والدین اور ساری امت کی سفارش کریں گے نا، پلیز وعدہ کیجئے اور وہ روپڑی۔ دعاؤں کا سلسلہ ابھی ختم بھی نہ ہوا تھا کہ مسجدنبوی کی خادمہ نے کہا :
’’یااللہ حجیّ باہر۔‘‘ وہ باہر جانے نکلی، امی اور سبھی لوگ منتظر تھے کہ اذان ہوجائے۔ نماز کے بعد مشعل کا عقد تھا۔ سبھی نے عصر کی نماز پڑھی۔ مسجدنبوی کے صحن میں سبھی لوگ موجود تھے، کسی نے مشعل کا دوپٹہ کو کھینچا کہ گھونگھٹ بن جائے۔

تو پھر کیا تھا نکاح نامہ ،وکیل ،گواہ ،مولودی صاحب۔ اُسے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ پھر اچانک امی نے دھکا دیا : ’’بیٹا بولو ،قبول ہے۔‘‘ اُس نے ’ہاں‘ میں سر ہلایا۔ پھر سے مولوی صاحب نے پوچھا ۔ تین بار پوچھنے کے بعد باقی کی فارملٹی پوری کرنے لگے۔ پھر کچھ دیر بعد ’مبارک ہو‘ کی آوازیں آنے لگی۔ پھر رحمان نے ہاتھ پکڑ کر کسی کے بازو کھڑا کردیا۔ پھر عظیم چاچا نے کہا :

’’ اب آپ کو کوئی نہیں کہے گا کہ آپ اکیلے ہوبنا محرم کے، عمرہ کے لیےآگئے ، اب آپ کو ساتھی دے دیا ہم نے۔ بیٹی یہ آپ کے محرم ہیں آپ دونوں شکرانہ کی نماز پڑھیں دو رکعت۔ نماز ہونے کے بعد کسی نے مشعل کے چہرے سے گھونگھٹ پیچھے کیا۔ مشعل کی نظر جب اٹھی اور نظر سے نظر ٹکرائی تو وہ صرف اتنی ہی منمنائی :

’’حولدار ! ‘‘ اور سامنے جواب آیا : ’’الحمدللہ ۔ ماشاء اللہ۔‘‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *