مرغی اور آملیٹ

Spread the love

مرغی اورآملیٹ

انس مسرورانصاری

اک پھول سےآجاتی ہے ویرانے میں رونق ہلکا سا تبسم بھی مر ی جا ن بہت ہے پھول چندشعروشاعری کے جتنے بڑے رسیاتھے،اُن کے دوست دانش مند اتنے ہی بڑے نقادتھے۔پھول چندکی مجال نہ تھی کہ وہ اپنے شعروں کو دانش مند کی تنقید سے لڑاسکتے۔

لیکن اپنی اپنی عادتوں سے دونوں ہی مجبورتھے۔پھول چند شعرضرور سناتے اور دانشمندتنقیدبھی ضرورکرتے۔ ایک موقع پرپھول چندنے دانش مند کوایک شعرسنایا۔ ‘‘ سنومیاں!کسی شاعر نے کیاہی عمدہ شعرکہا ہے۔کیسی سچّی،پکّی اورپتے کی بات کہی ہے۔’’

دانش مند ـ:۔‘‘ارشاد،،،، ارشاد….مگرصرف شعر۔تمہید بالکل نہیں۔’’

پھول چندـ:۔‘‘ملاحظہ ہو۔شاعرنے عرض کیاہے۔’’

اک نظرسے سب کودیکھے یہ صفت کانے میں ہے

الغرض دل کی صفائی آنکھ بہہ جانے میں ہے پھول چندنے دادطلب اندازمیں دیکھا۔ لیکن دانش مندخاموش رہے۔کچھ دیر سرجھکائے غورو فکر کرتے رہے پھربڑے عالمانہ اندازمیں بولے۔ ‘‘دانشمندـ:۔یہ شعرکسی کانے شاعرکاکاناشعرمعلوم ہوتاہے۔’’

‘‘پھول چند:۔(خفگی سے) پھرتم نے میخ نکالی۔میں کہتاہوں کہ میں نے شاعرکودیکھاہے اورشرط لگانے کوتیارہوں ۔وہ شاعرکاناہرگزنہیں ہے۔

’’ دانش مند:۔‘‘توپھرتم کانے ہو۔’’

پھول چند:۔‘‘کیاکہا۔؟میں کاناہوں۔…..میں کاناہوں۔؟ابے کہیں تیری آنکھیں تونہیں پھوٹ گئیں۔دیکھ یہ دیکھ ۔میری دونوں آنکھیں۔کیامیں تجھے کانادکھائی دیتاہوں۔؟؟’’

دانش مند:۔‘‘کاناہونے میں بُرائی کیاہے۔؟ مثال کے طورپر اگرتم کانے ہوتے تولوگ اپنی دونوں آنکھوں سے تمھاری ایک آنکھ دیکھتے مگرتم اپنی ایک آنکھ سے لوگوں کی دونوں آنکھیں دیکھتے۔کمال کی بات ہے کہ نہیں۔؟ویسے بھی آپے سے باہرہونے کی ضرورت نہیں۔جامے کے اندرہی رہو۔مطلب تومیراتم سمجھے نہیں اوربکواس کرنے لگے۔’’ پھول چندـ:۔‘‘اب مطلب بھی سمجھادوبیٹا!کاناواناتوپہلے ہی بناڈالا۔

اب اورکیالولا،لنگڑابھی بناؤگے۔؟’’

دانش مندـ:۔(ہنستے ہوئے)‘‘ نہیں پیارے!ایسانہیں ہے۔میرے کہنے کامطلب تویہ تھاکہ شاعریک چشم رہاہوگااورتمھارے دیکھنے میں غلطی ہوئی ہوگی۔اوراگرتم نے شاعرکودیکھاہے اورغورسے دیکھاہے تومجھے تمھاری بینائی پرشک ہے کہ وہ کمزورہوچکی ہے۔بُرامت ماننالیکن شعرسننے کے بعد مجھے یقین آگیاہے کہ یہ کاناشعرضرورکسی کانے شاعرنے اپنی صفائی میں کہاہے۔’’ پھول چند:۔‘‘اورتم نے جومجھے کاناکہاہے اس کاکیامطلب؟’’

دانشمند:۔‘‘پیارے!ناراض نہ ہو۔ وہ تومیں نے تمھیں محاورۃََ کاناکہاتھا۔سچ مچ کاکاناتھوڑے ہی کہاتھا۔’’

پھول چند:۔‘‘توگویامیں تمھارے نزدیک اُردومحاورہ میں کاناہوں۔کیوں۔؟اورمحاورہ کی آڑمیں دوبارجوتم نے کاناکاناکہاہے وہ کس کھاتے میں لکھاجائے گابیٹا۔؟’’

دانشمند:۔‘‘ تم اُردوزبان کو کیاسمجھتے ہو۔؟یہ توصرف محاورہ ہے۔اس کی گالیاں اگرپتھرپر لکھ دی جائیں تووہ بھی پگھل کرپانی پانی ہوجائے۔کیاکاناصرف وہ ہوتاہے جس کے آنکھیں نہ ہوں۔کیااسے کانانہیں کہیں گے جوآنکھیں رکھتے ہوئے بھی نہیں دیکھتا۔ اورتم نے بھی تومجھے آنکھیں پھوٹاکہاتھا۔نہیں کہاتھاکیاکہ تمھاری آنکھیں پھوٹ گئی ہیں۔؟’’

پھول چند:۔‘‘وہ تومیں نے غصہ میں کہاتھا۔سچ مچ توکہانہیں تھا۔غصہ میں غلطی ولطی توہوہی جاتی ہے۔مگرایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔جب تم شعرنہیں کہتے۔شعرکہہ نہیں پاتے۔تمھارے اندرشعر گوئی کی صلاحیت نہیں ہے توپھرتم شعروں پرتنقید کیسے کرتے ہو۔؟کیاحق ہے تمھاراتنقید کرنے کا۔؟’’

دانشمند:۔‘‘میں خدائی فوجداراوراُردوشاعری کاٹھیکیدارہوں۔بس اتناجان لوکہ میں نے انڈے کبھی نہیں دیے لیکن آملیٹ کے بارے میں مرغیوں سے زیادہ جانتاہوں۔تم نے غصہ میں غلطی کی اورمجھے آنکھیں پھوٹاکہا۔چلوچھوڑو۔جانے دوپیارے!میں نے تمھیں ہزاربارمعاف کیا۔تم چاہوتودل کی صفائی کے لیے دوچاربارایسی ہی غلطیاں اورکرسکتے ہو ۔میں بُرانہیں مانوں گالیکن میں یہ ماننے کے لیے تیارنہیں ہوں کہ جوشعرتم نے سنایاہے وہ کسی کانے شاعرکاشعرنہیں ہے۔

ارے پھولن میاں!اب توپتھرکی بنی ہوئی ایسی ایسی آنکھیں آنے لگی ہیں کہ اصلی آنکھیں جھک ماریں۔ہاں توپیارے!وہ شعر ذراایک بارپھر سناؤ۔اچھاشعرہے۔’’

پھول چند:۔‘‘بڑے دوغلے ہو۔دل میں کچھ اورزبان پر کچھ۔شعرسن لومگراب اس کے بعدمیں تمھیں کبھی شعرنہیں سناؤں گا۔’’

دانشمند:۔‘‘مجھے منظورہے۔میں جانتاہوں کہ تمھاراعہدبھی ہمارے لیڈروں کے وعدوں جیساہے جوکبھی پورانہیں ہوتا۔شعرسناؤ۔’’

اک نظرسے سب کودیکھے یہ صفت کانے میں ہے

الغرض دل کی صفائی آنکھ بہہ جانے میں ہے

انس مسرورانصاری

قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (رجسٹرڈ)

سکراول۔اردوبازار۔ٹانڈہ۔ امبیڈکر نگر(یوپی )

رابطہ/9453347784

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *