جمہوریت کا قاتل کون

Spread the love

تحریر: انصاراحمد مصباحی ۔۔۔ جمہوریت کا قاتل کون ؟۔

جمہوریت کا قاتل کون

پولیس نے محمد الطاف کو گرفتار کیا۔ الزام تھا، وہ ایک لڑکی کو لے کر فرار ہو رہا تھا۔ دوسرے دن بھلے چنگے نو جوان کی لاش ملی۔ اسے حراست میں پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

پولیس نے صفائی پیش کی، ملزم نے ٹوائلیٹ کی دو فٹ اونچی ٹونٹی سے لٹک کر خود کشی کر لی ہے؛ شاملی ضلع ، اتر پردیش کے محمد صلاح الدین کو یوپی پولیس نے 1995ء میں چار کارتوس رکھنے کے جرم میں گرفتار کیا، 1999ء میں چارج شییٹ داخل ہوئی اب 26 سال بعد، ثبوت نہ ملنے کی وجہ سے وہ بری ہوگئے ہیں۔

اس دوران اس نے 250 سے زائد تاریخوں میں کورٹ حاضر ہوئے، اپنی اور خاندان کی ساری پونجی اسی کورٹ کا چکر لگاتے لگاتے ختم ہو گئی؛ عین اس وقت ، جب حریف ملک کی جیت کے اسٹیٹس لگانے والوں کو پولیس ڈھونڈ ڈھونڈ کرگرفتار کر رہی تھی

تریپورہ کی مسجدوں سے شعلے نکل رہے تھے، مسلمانوں کی دکانیں جل رہی تھیں، بچے پس رہے تھے، عورتیں، بوڑھے اور جوان پٹ رہے تھے، اور عین اسی وقت احتجاج کر رہے کئی لاچار کسانوں کو اپنی گاڑی سے کچل کر ہلاک کردینے والا لیڈر آزاد گھوم رہا تھا 

بالواسطہ یا بلا واسطہ ملک کو سالانہ کئی سو کرور کی رقم فراہم کرنے والے مشہور اسٹار کے بیٹے کو نشے کی شبہ میں گرفتار کر لیا جاتا ہے، کئی ہفتوں کے بعد کوئی ٹھوس ثبوت نہ ملنے پر بری کردیا جاتا ہے۔ ان سب کا ایک ہی قصور تھا، یہ لوگ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں ”مسلمان“ پیدا ہوئے تھے۔

اس جمہوریت میں پہلو خان، محمد اخلاق، تبریز انصاری ، حافظ جنید، اسد عالم،DSP ضیاء الدین، محسن شیخ ، نجیب عالم سمیت درجنوں ہندوستانیوں کو بھیڑ بناکر سرعام پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا جاتا ہے، یا آواز اٹھاتے اٹھاتے وہ اچانک غائب ہو جاتے ہیں۔ انھیں موت سے پہلے ایک مخصوص مذہب کے مذہبی نعرے لگانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

اور دیکھو! اسی جمہوریت میں کبھی کہیں پر ایک تاریخی مسجد ہوا کرتی تھی، غنڈوں کی بھیڑ نے، سرکار کی پشت پناہی میں اسے بڑی بے دردی اور اہانت سے شہید کر دی۔

مقدمہ بیسوں سال زیر التوا رہا۔ شدید انتظار کے بعد برسر اقتدار حکومت کے زیر اثر کورٹ کا فیصلہ کچھ یوں آیا:مسجد کے کھنڈرات میں مندر ملنے کے کچھ شواہد موجود نہیں، ( پر مسجد کی جگہ رام مندر ہی بنے گا) ؛بابری مسجد توڑنے والے مجرم ہیں، (پر ان کی گرفتاری کب ہوگی، ان مجرموں کی سزا کیا ہے، سب سے بڑی جمہوریت کی سب سے عظیم عدالت خاموش) ۔

نومبر 2021ء کے آخر میں دو اندوہناک خبریں آئیں؛ کھانے پر ہاتھ لگانے کی وجہ سے ایک سیاسی لیڈر نے غریب دلت کا ہاتھ کاٹ ڈالا، نل سے منہ لگا کر پانی پیا تو برہمن نے ایک دلت کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی۔

یہ وہ واقعات ہیں جو سر دست ذہن کے نہاں خانے سے جھانکنے لگے ہیں ؛ ورنہ اس آزاد بھارت میں تو ؏”ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے“اس جمہوریت میں احتجاج کرنے والوں کو گھروں میں گھس کر مارا جاتا ہے، ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والے طلبہ کے ہاسٹل میں گھس کر گولیاں چلائی جاتی ہیں۔

یہاں کوئی مسلمان ہے تو اسے پولیس کی حراست میں جانے کے لیے کسی جرم کی ضرورت نہیں؛ فقط شک یا شبہ کی بنیاد پر جیل ہو سکتا ہے، بلکہ سزا بھی ہو سکتی ہے۔ مشہور سوشل ایکٹیوسٹ علی سہراب کا کاونی نے ٹھیک کہا ہے: ”اگر آپ مسلمان ہیں تو کارتوس نہ رکھنے کی بھی 26 سال سزا ہو سکتی ہے“۔

ہم بھارت کی عوام ایک ایسی جمہوریت میں رہتے ہیں ، جہاں محلے مذہب کے نام پر بسائے جاتے ہیں، مذہب کے نام پر قانون بنتے ہیں، دین پوچھ کر شہریت دی جاتی ہے

مذہب کے نام پر اساتذہ کا انتخاب ہوتا ہے؛ یہاں میڈیا کھلے عام ایک مخصوص مذہب کو نشانہ بناتی ہے، ایک مخصوص فرقہ ، جس کے تعلق سے جھوٹ، افواہ، دغا اور دجل سب جائز اور درست ہیں۔اس جمہوریت میں آپ کا مسلمان یا دلت ہونا ہی جرم ہے

پھر اگر فساد ہوا تو آپ کی دکان چاہے جس کونے میں ہو، جلے گی ضرور، فساد کے بعد پولیس آپ کو ضرور اٹھائے گی، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ نے فسادات کے دوران کتنے برادران وطن کو پناہ دیا تھا

یہ پناہ کڈنیپ میں تبدیل ہوجائے گی، آپ نے کسی بھوکے کو کھانا پانی تقسیم کیا تو یہ راشن طلسماتی طور پر اوزار اور ہتھیاروں میں تبدیل ہوجائے گا۔ فلیٹ لینا ہو تو سب سے پہلے آپ کا مذہب پوچھا جائے گا، آپ سرکاری نوکری پر بحال ہیں تو عصبیت کا شکار ہونا فطری ہے۔

آپ اپنی مرضی کا کھانا نہیں کھا سکتے، اپنی مرضی کا پہن نہیں سکتے؛ بلکہ آپ یہاں اپنی مرضی سے خوشیاں بھی نہیں منا سکتے۔ # جمہوریت کیا ہے؟سابق امریکی صدر ابراہم لنکن نے مختصر لفظوں میں جمہوریت کی تعریفچیوں کی ہے :”Goverment of the people, by the people and for the people”

یعنی جمہوری حکومت عوام میں سے ، عوام کی جانب سے عوام کی خاطر ہوتی ہے۔ کسی بھی جمہوریت میں عوام کی راے کو کسی نہ کسی طرح دخل ہوتا ہے۔ عوام کی راے سے قانون بنتے ہیں؛ پھر اسی قانون کے خطوط پر ریاست چلتی ہے۔

دنیا کی قدیم ترین جمہوریت کی ماں بھارت ہی ہے۔ 100 سال قبل مسیح میں ، گوتم بدھ سے پہلے ہند میں جمہوریت نافذ العمل تھی۔

ہمارا ملک بھارت، 15، اگست/1947ء کو انگریزوں کے ناجائز تسلط سے آزاد ہوا۔ بھارت کی ”مجلس دستور ساز“ نے آئین ہند ( भारत का संविधान ) کو 26، نومبر / 1949ء میں تسلیم کیا اور 26، جنوری / 1950ء کو عوام پر نافذ کیا۔ دستور ہند ، Givernment of India Act 1935 کو بدل کر بنایا گیا تھا۔ دستور ہند کے پہلے صفحے پر ”تمہید“ یا ”Preamble“ میں صاف صاف لکھا ہے

: “WE, THE PEOPLE OF INDIA, having solemnly resolved to constitute India into a SOVEREIGN SOCIALIST SECULAR DEMOCRATIC REPUBLIC and to secure to all its citizens:JUSTICE, social, economic and political;LIBERTY of thought, expression, belief, faith and worship;EQUALITY of status and of opportunity; and to promote among them allFRATERNITY assuring the dignity of the individual and the unity and integrity of the Nation”.

ترجمہ: ہم بھارت کی عوام متانت اور سنجیدگی سے عزم کرتے ہیں کہ بھارت کو ایک مقتدر سماج وادی، غیر مذہبی ، عوامی جمہوریہ بنائیں؛ اور اس کے تمام باشندگان کے لیے سماجی، سیاسی اور معاشی انصاف حاصل کریں؛عبادت ، اظہار خیال، عقیدہ اور دین میں سب کو آزادی ملے؛آزادی باعتبار حیثیت و موقع؛اور ان سب میں اخوت کو ترقی دیں، جس سے فرد کی عظمت ، قوم کا اتحاد اور سالمیت قائم رہے ۔

جمہوریت کا قاتل کون ؟2014ء میں بی جے پی کو حکومت بنانے میں کامیابی ملی تو بھگوا تحریرک آر ایس ایس کو نئے بال و پر مل گئے۔ سنگھ پریوار (تمام شاخوں کے ساتھ) کا نظریہ ہمیشہ سے جمہوریت مخالف اور ملک کے مفاد کے خلاف رہا

۔ 1927ء سے اب تک اس تحریک کا ایک ہی مقصد رہا ہے، یعنی سیکولر بھارت کو ایک ”ہندو راشٹر“ بنانا۔ بھارت کی جمہوریت انھیں سوئی کی طرح چبھوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی آزادی میں بھی اس تحریک کا کوئی خاص کردار نہیں رہا ہے ۔

آر ایس ایس نواز بی جے پی کی حکومت بنی تو یہ تحریک اپنے دیرینہ خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ہاتھ پاوں مارنا شروع کردی۔ بھارت کا سمویدھان ان کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ تھی

آخر یہ جمہوریت ہی سے چن کر آئے تھے، اسی دستور ہند کی جڑیں کھوکھلی کرنی شروع کردی۔ سمویدھان کے متضاد قانون بنوائے، اور عملا اس کے نفاذ کا آغاز بھی کیا۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے، آر ایس ایس کی آلہ کار زعفرانی پارٹی جب جب اپنے ناپاک منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے قدم آگے بڑھاتی ہے، آسمانی بلائیں ، خدا کا کوڑا بن کر ان پر برس پڑتی ہیں۔ بھارت سے جمہوریت ختم کرنے کے منصوبے کی تکمیل کی شروعات بی جے پی نے شروع کردی ہے۔

ملک سے ایک ایک اسلامی نام مٹایا جا رہا ہے، شہروں کے اسلامی نام بدلے جا رہے ہیں، نصاب تعلیم میں تبدیلی جاری ہے، بھارت کی نئی بھگوا تاریخ لکھی جا رہی ہے، دستور اور آئین کی بولی بولنے والوں کو قید کیا جا رہا ہے۔

قارئیں! اب آخر میں ہم اس کے ذمے دار تلاش کرتے ہیں! جمہوریت کو نوچ نوچ کر اسے خارش زدہ کرنے کے اصل ذمہ دار کون ہے؟کھلے لفظوں میں سنیے! بر سر اقتدار پارٹی کے ساتھ ساتھ، لاچار اپوزیشن اور گنگا جمنی تہذیب کا پر فریب گھونٹ پلا کر قوم کو بانجھ کرنے والے ”مصنوعی سیکولر “ ۔

ہمارے مفاد پرست ، سوداگر اور ہوا پرست مسلم لیڈران اور میر صادق و میر جعفر قسم کے علماے سوء، سب برابر کے ذمے دار ہیں۔ ایک بات یاد رکھیے! بھارت سیکولر جمہوریہ ہے اور رہے گا۔ ؏ ”پڑے خاک ہوجائے جل جانے والے“۔

تحریر: انصاراحمد مصباحی

خادم جماعت رضاے مصطفٰی

اتر دیناج پور ، مغربی بنگال

9860664476

aarmisbahi@gmail.com  

2 thoughts on “جمہوریت کا قاتل کون

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *