نکل کر خانقاہوں سے

Spread the love

نکل کر خانقاہوں سے

تحریر: افتخاراحمدقادری برکاتی

اس دنیا میں حق وباطل، خیر وشر، اور ظلم واحسان کی معرکہ آرائی ابتدائے آفرینش سے رہی ہے- انسان برائی کی جانب زیادہ اور بھلائی کی جانب کم متوجہ رہا ہے

تاہم خدا کی رحمت نے ہمیشہ انسان کے ساتھ خیر خواہی کی ہے- ظلم وضلالت کی تاریکی کے خوگر دل ودماغ کو جھنجھوڑنے کے لیے مصلحین امت کے مقدس قافلے آتے رہیں ہیں، مگر انبیا ومرسلین اور مصلحین زمانہ کی تمام تر برتری کے باوجود سوائے چند ساعت کے یہ دنیا کبھی صرف اور صرف ایمان وعمل صالح کی برکت سے معمور نہیں رہی، ایمان کے مقابلے میں کفر وشرک اور عمل صالح کے مقابلے میں بد اعمالی کی مسموم ہوائیں انسانیت کی ہری بھری فصلیں جھلساتی رہیں

اور کرب کی انتہا اس وقت ہوگئی جب صاحبانِ بیعت و ارادت، درویداران مسند مشخیت، اخلاص والفت الٰہی کے تمام تر دعوؤں کے باوصف انہیں کشتی نہیں ملتی انہیں ساحل نہیں ملتا کے مترادف دکھائی دینے لگے، روحانیت کا معنیٰ تبدیل ہو گیا، رنگ برنگے لباس الفت وعشق الٰہی کی جدید علامت بن گیے، آج مسلم سماج پر نظر ڈالیے تو معلوم ہوگا کہ اونچے اونچے محل اور خوب صورت زرنگار کپڑے شیوخ کی ضرورت میں شامل ہیں

پہلے لوگ اپنے شیخ کی فقیری پر ناز کیا کرتے تھے لیکن آج کے دور میں لوگ شیخ کی امیری پر ناز کرتے ہیں، میری رائے ہرگز یہ نہیں کہ شیوخ زمانہ ترقیات زمانہ سے مستفید نہ ہوں

الله رب العزت نے دیا ہے تو ضرور اچھے مکان میں رہیں، اچھے و خوبصورت لباس پہنیں، مگر یہ کہاں کی روحانیت ہے کہ یہ ضروریات مریدین کی جیب سے پورے ہوں اور مریدوں کے حلقوں میں سالانہ دورے سے حاصل ہوں

اس سے شان تقوی مجروح ہوتی ہے- اور یہ تو ایک طرح کا سوال و گداگری ہے جسے شیخ عارف کا توکل برداشت نہیں کر سکتا، اس طرح کی مثالیں اکابر و اولیاء کی زندگی میں نہیں ملتیں- اگر مسلمان دور حاضر میں اس سے نکل کر صحیح تعلیمات پر عمل پیرا ہوجائے تو غیر مسلموں کو مذہبِ اسلام کو سمجھنے کا قریب سے موقع فراہم ہوگا۔

 

ان کا دن رات ساری دنیا سے بیگانہ، گرد وپیش سے بے خبر ہوکر عاجزی سے سر نیاز بارگاہ خداوندی میں جھکا دینے کے لیے لائق دید وعبرت کا نظارہ ہوگا- کوئی بعید نہیں کہ ان کایہ نیاز بندگی دیکھ کر اور محبت الٰہی کا مشاہدہ کرکے وہ مذہبِ اسلام میں اپنا داخلہ لے لیں

اور اگر نہ لے سکے تو موجودہ زمانہ میں جو مذہب اسلام کا مفہوم شرپسندوں نے دنیا میں پھیلا رکھا ہے اس پر جرح و تنقید کا حوصلہ ضرور پیدا ہو جائے گا کہ مذہبِ اسلام دہشت گردی کا نہیں بلکہ بارگاہِ الٰہی میں سجدہ ریزی اور عجز وانکساری کا نام ہے

دور حاضر میں دنیا زبانی دعوؤں سے ہٹ کر عملی زندگی میں اسکے مظاہر دیکھنا چاہتی ہے کہ آیا دعویدار اپنے دعویٰ کے مطابق مذہب اسلام کو اپناتا ہے کہ نہیں اور واقعی اسلام واحکام کی بجاآوری میں اپنا فائدہ سمجھتا ہے کہ نہیں؟ لیکن افسوس کہ آج مسلم ممالک و افراد کے مابین انتشار کا یہ عالم ہے کہ ایک مسلم ملک دوسرے مسلم ملک کو فنا کرنے کے لیے کوشاں ہے

ایک ظالم بزورِ دولت مسلمان کے ہی ملک کو استعمال کررہا ہے اور ایک مسلمان کا قتل مسلمان کے ذریعے کرارہا ہے، مگر بے حسی کا عالم یہ ہے کہ مسلمان قال الله وقال الرسول کے بجائے قال الفاسق قال الظالم پر عمل کر رہا ہے

اور معاشرتی زندگی کا یہ عالم ہے کہ شادی بیاہ اور دیگر رسوم کی ادائیگی پر خون پسینے کی کمائی بے تحاشہ صرف ہورہی ہے، دوسری طرف چند خوراک دوا کے لیے تڑپتے انسان اور جوان بیٹی کو دیکھ دیکھ کر کڑھنے والے انسان اور دیگر ضرورت مندوں تک ضروریاتِ حیات نہیں پہنچتی

اگر ان کے تدارک کی صورت مسلمان پیدا کرلے تو کیااس سے مفلس کی جان و ایمان کی حفاظت نہ ہوگی اور اگر یہ برتاؤ غیر مسلموں کے ساتھ کیا جائے تو کیا وہ اس خلوص کو دیکھ کر مذہبِ اسلام کا مداح نہیں ہو جائے گا بلکہ عجب نہیں کہ وہ ایک دن آپ کے برتاؤ کا اثر قبول کرلے، ضروت ہے کہ ہم اپنی زندگی قرآن وسنت اور اقوالِ صوفیاء کی روشنی میں گزاریں-

کریم گنج،پورن پور،پیلی بھیت،مغربی اتر پردیش

iftikharahmadquadri@gmail.com

2 thoughts on “نکل کر خانقاہوں سے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *