اس حساس مسئلے پر بھارت کے علماے دین کامتفقہ فیصلہ آنا چاہیے

Spread the love

اس حساس مسئلے پر بھارت کے علماے دین کامتفقہ فیصلہ آنا چاہیے

آئی.اے.قادری برکاتی

معزز قارئین! ایک نام ہے جو بہت ہی محترم و عظیم و مبارک ہے، جسے بولا جائے تو لب آپس میں ایک دوسرے کا بوسہ لیتے ہیں، جسے ادا کرتے ہی درود پاک کے پھول برسنے لگتے ہیں، جسے دیکھتے ہی آنکھوں میں ستارے چمکنے لگتے ہیں، جسے پڑھتے ہی دلوں کی وادیوں میں سکون کی شبنم کا نزول شروع ہو جاتا ہے، جسے سنتے ہی جسم و روح میں کیف ونشاط اتر جاتاہے، جس کا ورد کرتے ہی رحمتوں کے قافلے سوئے دل اترنے لگتے ہیں وہ مقدس نام نامی اسم گرامی ،،محمد،، صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ہے-مسلمانوں نے اس نام پاک سے پروانہ وار محبت کی ہے

یہ نام مسلمانوں کی آنکھوں کا نور اور دلوں کا سرور ہے- یہ اسم مبارک مسلمانوں کی حیات کی علامت ہے- یہ نام مبارک مسلمانوں کی محبتوں کا محور اور عقیدتوں کا مرکز ہے- یہ نام مبارک مسلمانوں کے ایمان کی علامت آنکھوں کی ٹھنڈک اور زندگی کا اثاثہ ہے۔

تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ جب بھی اس نام مبارک پر کوئی آنچ آئی تو مسلمانوں نے اس کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں نچھاور کر دیں- اپنے بچوں کو اور اپنے مال و اسباب کو لٹا دیا اپنے گھروں کو خیرآباد کہہ دیا، اپنے وطن کو داغ مفارقت دے دیا، اپنے عزیز و اقارب کو چھوڑ دیا، لیکن اس نام پاک کی حرمت پر آنچ نہیں آنے دی

موجودہ وقت میں کچھ فرقہ پرست لوگ اپنی سیاست کو چمکانے کی غرض سے اس نام مبارک پر جاہلانہ جملے بول رہے ہیں، اور طرح طرح کی بکواس کر رہے ہیں ان کو شرم آنی چاہیے کہ وہ کس مبارک ذات پر حملہ کررہے ہیں انہیں نہیں معلوم! حکومت وقت ایسے لوگوں پر جلد سے جلد قانونی کارروائی کرے تاکہ مستقبل میں کوئی دوسرا اس ناپاک حرکت کی جسارت نہ کرسکے۔

ویسے تو مذہب اسلام میں گستاخ رسول کی بڑی سخت سزا ہے کہ جو رسولِ کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کرے اسے سخت سے سخت سزا دی جائے

مگر افسوس کہ آج کے اس دور میں سخت سزا یا قانونی کارروائی تو کجا مجرم کو اس کی حفاظت کے لیے سیکورٹی فورسز فراہم کی جارہی ہے- حضرتِ انس رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن رسولِ کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ تشریف فرما تھے- کسی نے حضور صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کیا کہ حضور آپ کی شان میں توہین کرنے والا ابنِ حنظل کعبہ کے پردوں میں لپٹا ہوا ہے آپ نے فرمایا:،، اقتلو،، اسے قتل کردو- (بخاری شریف/ صفحہ نمبر /249 جلد/ اول)۔

 

یہ عبد الله بن حنظال مرتد تھا ارتداد کے بعد اس نے کچھ ناحق قتل کیے رسولِ کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ہجو میں شعر کہ کر حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں توہین و تنقیص کیا کرتا تھا- اس نے دو گانے والی لونڈیاں اس لیے رکھی ہوئی تھیں کہ وہ حضور کی ہجو میں اشعار گایا کریں- جب حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا حکم دیا تو اسے غلاف کعبہ سے باہر نکال کر باندھا گیا اور مسجد حرام میں مقام ابراہیم اور زم زم کے درمیان اس کی گردن مار دی گئی- ( فتح الباری/ صفحہ نمبر 13/ جلد تین، عمدہ القاری صفحہ نمبر 347/جلد نمبر 8/ )

یہ صحیح ہے کہ اس دن ایک ساعت کے لئے حرم مکہ کو حضور صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے لیے حلال قرار دے دیا گیا تھا- لیکن بالخصوص مسجد حرام میں مقام ابراہیم اور زم زم کے درمیان اس کا قتل کیا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ گستاخ رسول صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم باقی مرتدین سے بدرجہا بدتر بد حال ہے۔

محمد بن سحنون نے فرمایا کہ علمائے امت کا اجماع ہے کہ نبی کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو گالی دینے والا حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی توہین کرنے والا کافر ہے، اور اس کے لئے الله رب العزت کے عذاب کی وعید جاری ہے- اور امت کے نزدیک اس کا حکم قتل ہے جو اس کے کفر اور عذاب میں شک کرے وہ بھی کافر ہے-( الشفاء صفحہ نمبر 215/216جلد نمبر 8نسیم الریاض شرح الشفاء صفحہ نمبر 338/ جلد نمبر چار)۔

امام ابو سلیمان الخطابی رحمتہ الله تعالیٰ علیہ نے فرمایا جب مسلمان کہلانے والا نبی کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کا مرتکب ہو تو میرے علم میں کوئی ایسا مسلمان نہیں جس نے اس کے قتل میں اختلاف کیا ہو-( فتح القدیر شرح ہدایہ صفحہ نمبر 407/ جلد نمبر 4)۔

امام ابو بکر بن منذر نے فرمایا کہ عامہ علماء اسلام کا اجماع ہے کہ جو شخص نبی کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کرے قتل کیا جائے- ان ہی میں سے مالک بن انس، لیث، احمد، اسحاق رحھم الله ہیں اور یہی امام شافعی کا مذہب ہے قاضی عیاض نے فرمایا حضرتِ ابو بکر صدیق رضی الله تعالیٰ عنہ کا یہی مقتضی ہے- پھر فرماتے ہیں کہ ان آئمہ کے نزدیک اس کی توبہ بھی قبول نہیں کی جائے گی۔

امام اعظم ابو حنیفہ رضی الله تعالیٰ عنہ ان کے شاگردوں امام ثوری کوفہ کے دوسرے علماء اور امام اوزاعی کا قول بھی اسی طرح ہے ان کے نزدیک یہ درست ہے- الشفاء صفحہ نمبر 215/ جلد نمبر 2)۔

بے شک ہر وہ شخص جس نے نبی کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو گالی دی یا حضور کی طرف کسی عیب کو منسوب کیا یا حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ذاتِ اقدس، آپ کے نسب، یا آپ کی کسی خصلت سے کسی نقص کی یا آپ پر طعنہ زنی کی جس نے بطریق اہانت یا تحقیر شان مبارکہ یا ذات مقدسہ کی طرف کسی عیب کو منسوب کرنے کے لیے حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی کسی چیز سے تشبیہ دی وہ حضور کی صراحتہ توہین ہو یا اشارتاً یا کنایتا اور یہ سب علما امت اور اہل فتویٰ کا اجماع ہے عہد صحابہ سے لے کر آج تک۔

خلاصہ یہ کہ نبی کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو گالے دینے والے کے کفر اور اس کے مستحق قتل ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں چاروں آئمہ امام اعظم ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل،سے یہی منقول ہے-کسی مسلمان کو اس میں اختلاف نہیں کہ جس شخص نے نبی کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی اھانت و ایذا رسانی کا قصد کیا اور وہ مسلمان کہلاتا ہے وہ مرتد مستحق قتل ہے- یہاں تک ہمارے بیان سے یہ بات واضح ہو گئی کہ کتاب وسنت، اجماع امت اور اقوال علماے دین کے مطابق گستاخ رسول کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کیا جائے۔

بارگاہ رسالت کی توہین و تنقیص کو موجب جدجرم قرار دینے کے لیے یہ شرط صحیح نہیں کہ گستاخی کرنے والے نے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے کی غرض سے گستاخی کی ہو- یہ شرط ہر گستاخ رسول کے تحفظ کے مترادف ہوگی اور توہینِ رسالت کا دروازہ کھل جائے گا- ہر گستاخ رسول اپنے جرم کی سزا سے بچنے کے لیے یہ کہ کر چھوٹ جائے گا کہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات مشتعل کرنا میری غرض نہ تھی- علاوہ ازیں یہ شرط کتاب الله کے بھی منافی ہے۔

سورہ توبہ کی آیت میں ہے کہ توہین کرنے والے منافقوں کا یہ عذر کہ ہم تو آپس میں دل لگی کرتے تھے- ہماری غرض توہین نہ تھی نہ مسلمان کے مذہبی جذبات مشتعل کرنا ہمارا مقصد تھا- الله رب العزت نے مسترد کر دیا

اور واضح طور پر فرمایا: لاتعتذروا قد کفرتم بعد ایمانکم، بہانے نہ بناؤ ایمان کے بعد تم نے کفر کیا- صریح توہین میں نیت کا اعتبار نہیں راعنا کہنے کی ممانعت کے بعد اگر کوئی صحابی نیت توہین کے بغیر حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو راعنا کہتا تو وہ: ،، واسمعو وللکفرین عذاب الیم،، کی قرآنی وعید کا مستحق قرار پاتا جو اس بات کی دلیل ہے کہ نیت توہین کے بغیر بھی حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں توہین کا کلمہ کہنا کفر ہے۔

امام شہاب الدین خفاجی حنفی ارقام فرماتے ہیں: توہینِ رسالت پر حکم کفر کا مدار ظاہر الفاظ پر ہے توہین کرنے والے کے قصد و نیت اور اس کے قرائن حال کو نہیں دیکھا جائے گا- ورنہ توہین رسالت کا دروازہ کبھی بند نہ ہوسکے گا کیونکہ ہر گستاخ یہ کہ کر بری ہو جائے گا کہ میری نیت اور ارادہ توہین کرنے کا نہ تھا۔

لہذا! ضروری ہے کہ توہینِ صریح میں کسی گستاخ نبوت کی نیت اور قصد کا اعتبار نہ کیا جائے- آخر میں عرض کروں گا کہ توہینِ رسالت کی حد اسی پر جاری ہوسکے گی جس کا یہ جرم قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہوجائے اس کے بغیر کسی کو اس جرم کا مرتکب قرار دے کر قتل کرنا ہرگز ہرگز جائز نہیں اور تواتر بھی دلیل قطعی ہے۔

اگر کوئی شخص توہین کے کلمات صریحہ بول کر یا لکھ کر اس بات کا اعتراف کرے کہ یہ کلمات میں نے بولے یا میں نے لکھے ہیں تو یقیناً وہ واجب القتل ہے خواہ وہ کتنے ہی بہانے بنائے اور کہتا پھرے کہ میری نیت توہین کی نہ تھی، یا ان کلمات سے میری غرض یہ نہ تھی کہ میں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچاؤں- فی الحال ایسے شخص پر کارروائی ہونی چاہیے-تاکہ مستقبل میں کوئی ایسی ناپاک حرکت نہ کر سکے

کریم گنج، پورن پور، پیلی بھیت، مغربی اتر پردیش

iftikharahmadquadri@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *