ویلن ٹائن ڈے کی حقیقت کا پیغام امت مسلمہ کے نام

Spread the love

از قلمم : حمد مجیب احمد فیضی،استاذ/دارالعلوم محبوبیہ رموا پور کلاں اترولہ، بلرام پور، ویلن ٹائن ڈے کی حقیقت کا پیغام امت مسلمہ کے نام :

ویلن ٹائن ڈے کی حقیقت کا پیغام امت مسلمہ کے نام

ہر تہوار چا ہے اس کا تعلق مذہب سے ہو یا ثقافت سے ، اس کا کچھ نہ کچھ پس منظر ضرور ہوتا ہے ،جس کو بعض حضرات جاننے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں،اس کی تہہ تک پہونچنے کے لیے شب و روز بڑی عرق ریزی اور تگ ودو کرتے ہیں 

اور بعض جاننے کی بھی کوشش نہیں کرتے۔ کیوں کہ انہیں اس میں دلچسپی نہیں ہوتی ہے۔

انہیں تہواروں میں سے ایک غیر مذہبی تہوار ویلنٹائن ڈے ہے ،جو ہر سال 14/ فروری کو عالمی “یوم محبت” کے طور منایا جاتا ہے۔

ویلنٹائن ڈے بھی ایک کھوکھلی تاریخ رکھتا ہے۔

مگر اس خاص تاریخ سے قطع نظر یہ دن اب مغرب میں محبت کے اظہار ،بے قرار دلوں کے قرار، اور مچلتے ہوئے جذبوں کے لیے ایک لہو ولعب کا خاص دن بن گیا ہے۔

لیکن جب ہم اسلامی تعلیمات کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ مذہب اسلام محبت و اخوت کا دین ہے ،اسلام چاہتا ہے کہ تمام لوگ محبت، پیار ،اور اخوت کے ساتھ زندگی بسر کریں۔اسلامی تہذیب میں خوشیاں بھی عبادت میں شامل ہیں۔

خوشیاں منانا،خوشیوں کا اہتمام کرنا،خوشیوں میں شامل رہنا،خود خوش رہنا،اور دوسروں کو خوش رکھنا،کسی سے ملاقات کے وقت مسکرا کر ملنا،چھوٹے چھوٹے بچوں کو دیکھ کر انہیں پیار و محبت سے بے تابانہ طور پر اپنی آغوش میں اٹھا لینا،ان سے محبت کرنا،شفقت سے ان کا بوسہ لینا، خوشی وانبساط کے وہ مظاہر ہیں جو روزانہ گلیوں ،کوچوں ،محلوں اور بازاروں میں نظر آتے ہیں۔

اگر چہ اسلام میں بھی خوشیاں اور تہوار زندگی کا حصہ ہیں، مگر اسلامی تہذیب نے ان خوشیوں کے آغاز کو اللہ عزوجل کی یاد، عبادت ،اور سجدۂ شکر سے جوڑ دیا ہے۔اسی لیے مسلمانوں کی دو عظیم تہوار عیدالفطر اور عیدالاضحی کا آغاز اللہ رب العزت کے سجدۂ شکر سے ہوتا ہے

یہ خوشی بھی اس بات کا اعلان ہے کہ خوشی کے اس موقع پر بھی میں نفس کے قابو میں نہیں ہوں اور اپنے رب کے در پر حاضر ہوں۔

یہ حاضری اور حضوری اس بات کا وعدہ

اس عہد کا اعادہ اور اس یقین کا اظہار ہے کہ میں خوشی کے پےپناہ خوشے چننے کے باوجود بھی اعتدال ومیانہ روی کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑوں گا۔اور میں ایسا کوئی کام ہرگز ہر گز نہ کروں گا جو میرے مالک کو نا پسند اور کل یوم جزاء کے دن میرے حق میں باعث شرم وعار اور اخروی ذلت کا باعث ہو۔

یہ عہد وپیمان ہماری خوشیوں ، تہواروں اور نئے موسموں میں سادگی ،متانت ،سنجیدگی، بردباری اور میانہ روی کے خوب صورت رنگ گھولتا ہے۔

لیکن افسوس کرنے کی بات یہ کہ ہمارے معاشرے میں محبت کو غلط رنگ دے کر محبت کو بدنام کیا گیا اور اب اس معاشرے میں محبت کی بہت ساری شقیں جنم لے چکی ہیں ،اس محبت کی ایک زندہ مثال ویلنٹائن ڈے بھی ہے۔

اس دن جو بھی جس سے محبت کا دعویدار ہوتا ہے اسے پھولوں سے بھرا گلدستہ اپنے ہاتھوں اے پیش کرتا ہے ۔یہ غیر مذہبی تہوار ہرسال ملک وبیرون ملک میں دیمک کے مانند پھیلتے ہی جا رہا ہے۔

خوشی کے جذبات کے اظہار کا یہ تو مطلب نہیں کہ دوسرروں کے جذبات کو مشتعل اور مجروح کردئیے جائیں۔سر مستی اور سر شاری میں بڑا فاصلہ ہے۔ان فاصلوں کا برقرار رکھنا ہی تہذیب کا حسن اور تمدن کا کمال ہے۔

خوشیاں کون نہیں مناتا اور یہ کسے نہیں اچھی لگتیں جب ہر سو خوشی کا عالم ہو تو ایسا منظر کس کو برا لگتا ہے مگر مسرت اور بےحیائی،شوخی اور پھکڑپن ،خوشی اور بازاری پن میں بے پناہ فاصلہ ہے۔زندگی نہ بھڑک اٹھنے کا نہ فورا بجھ جانے کا نام ہے بلکہ زندگی سلگتے رہنے کا نام ہے۔

(ویلنٹائن ڈے کی شرم ناک تاریخ)

اس بے شرم تاریخ کے متعلق جو روایت سامنے آتی ہے وہ صرف انساکلوپیڈیا بر ٹانیکا کی ہے جس میں لکھا ہے:

ویلنٹائن ڈے کے بارے میں سب سے پہلی روایت روم میں قبل مسیح دورسے ملتی ہے۔

جب روم کے بت پرست مشرکین ۱۵/فروری جشن مناتے تھے جو feas of lupercaoius کے نام سے جانا جاتا ہے۔یہ جشن وہ اپنی دیوی دیوتاؤں کے اعزاز اور انہیں خوش کرنے کے لیے کرتے تھے۔ان دیوی دیوتاؤں میں pan (فطرت کا دیوتا ) Februata jano (عورتوں اور شادی کی دیوی )gol lupercalius pastroal
(رومی دیوتا جس کے کئی رومی دیوؤں کے ساتھ عشق ومحبت کے تعلقات تھے)

شامل ہیں۔اس موقع پر ایک برتن میں تمام نوجوان لڑکوں کے نام لکھ کر ڈالے جاتے جس میں سے تمام لڑکے باری باری ایک ایک پرچی اٹھاتے اور اس طرح قرعہ اندازی سے منتخب ہونے والی لڑکی اس لڑکے کی ایک دن، ایک سال یا پھرعمر بھر کی ساتھی قرار پاتی۔

یہ دونوں اظہار محبت کے طور پر آپس میں تحفہ تحائف کا تبادلہ کرتے اور بعض اوقات شادی بھی کرلیتے تھے۔

اسی طرح ویلنٹائن ڈے کارڈ پر دکھائی جانے والی نیم برہنہ اور تیر کمان اٹھائے ہوئے کیوپڈ cupid اور اس کی تصویر ویلنٹائن کی خاص علامت ہے۔اور رومن عقیدے کی رو سے وینس (محبت اور خوبصورتی کی دیوی )کا بیٹا ہے۔ جو کہ لوگوں کو اپنے تیر سے نشانہ بنا کربازار محبت میں مبتلا کر دیتا ہے۔

آج ویلنٹائن ڈے کے موقع پر ہمارے نوجوان غیر مسلموں کے ایجاد کردہ گناہوں سے رسم رواج اور تہواروں کے نام پر غلاظت میں بھر پور ڈبکیاں لگا رہے ہیں۔اس تہوار کا آغاز مغربی ممالک سے ہوا،جہاں غیر مسلم مادر پدر آزادی کے ساتھ رہتے ہیں

اور انہیں وہاں فحاشی وعریانی اور جنسی بے راہ روی کا قانونی تحفظ حاصل ہے۔اور اس تہوار کے منانے کا انداز یہ ہوتا ہے کہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی بے پردگی و بے حیائی کے ساتھ میل ملاپ ،تحفے تحائف کا لین دین سے لے کر فحاشی وعریانی کے ہر مظاہرے کا حتی الامکان ارتکاب کیا جاتا ہے۔

شراب وکباب کا بے تحاشہ استعمال ہوتا ہے۔اسلامی معاشرہ میں پلنے ،بڑھنے ،اور رہنے والا نوجوان بھی اس تاریخ میں کھلم کھلا گناہوں کا ارتکاب کرکے اپنے نامۂ اعمال کو سیاہ کرتا ہے ،اور معاشرے کی پاکیزگی کو تارتار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ بدکاری تک کی نوبت اس دن منانے نتائج ہیں۔

دوسروں کی بہن بیٹیوں کی عزتیں نیلام اور تار تار ہوتی ہیں

خلاصہ یہ کہ اس دن اسلام جیسے مہذب دین کے اصول وقوانین کو نفس کے پجاری پاش پاش کرتے ہیں،جبکہ اسلام اس کی قطعی اجازت نہیں دیتا ہے کہ غیر محرموں کے ساتھ دوستی کا ناطہ جوڑا جائے،بلکہ اسلام تو ہمیشہ حیاء اور پاکیزگی کادرس دیتا ہے۔

جیساکہ اللہ عزوجل نے قرآن میں فرمایا : “اے نبی !!صلی اللہ علیہ وسلم آپ مسلمان مردوں سے فرمادیجئے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچی رکھیں اور اپنے شرم گاہ کی حفاظت کریں یہ ان کے لئے بہت پاکیزہ ہے اور بیشک اللہ باخبر ہے ان کے کاموں سے” (النور)

اور حدیث پاک میں ہے ہاتھ کا زنا نامحرم کا ہاتھ پکڑنا ہے ،پاؤں کا زنا اس کی طرف چل کر جانا ہے،اور منہ کا زنا اس کا بوسہ لینا ہے۔( ابوداؤد )

مندرجہ ذیل دلائل وحقائق سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ 14/فروری کو ہر سال منانے جانے والا عالمی یوم محبت یعنی ویلنٹائن ڈے ایک غیرمذہبی رسم ہے ،جس کو مسلمان کبھی بھی اپنے معاشرے میں پپھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

اور نہ شریعت مطہرہ اس کے کرنے کی کبھی اجازت دے سکتی ہے۔یہ کام بالخصوص نوجوان طلبہ وطالبات کا ہے کہ وہ قوم وملت کو اسلام دشمنوں کی جارحیت سے اپنے آپ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔

اللہ رب العزت امت مسلمہ کو داخلی وخارجی فتنوں سے ہمیشہ محفوظ ومامون رکھے ۔آمین،

از قلم : محمد مجیب احمد فیضی

استاذ/دارالعلوم محبوبیہ رموا پور کلاں اترولہ، بلرام پور

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *