پرنٹ میڈیا ضرورت و اہمیت
پرنٹ میڈیا ضرورت و اہمیت
میڈیا کسے کہتے ہیں؟ کسی بھی خبر، راے یا فکر کو دوسرے لوگوں تک پہنچانے کوابلاغ عامہ (Mass Communication) یا (Mass Media)کہا جاتاہے۔
میڈیا کی اقسام: میڈیا کی اولا دو قسمیں ہیں:
(1) روایتی میڈیا (Traditional Media)
(2) جدید میڈیا New Media)
پھر روایتی میڈیا (Traditional Media) کی تین قسمیں ہیں: 1_ طباعتی میڈیا (Print Media)
2_ نشریاتی میڈیا (Brodcast media)
3_ صوتی۔بصری میڈیا (Audio_ visual Media)
طباعتی میڈیا یعنی پرنٹ میڈیا اس میڈیا کو کہا جاتاہے جس میں کوئی خبر، راے یا خیالات کو بصورت طباعت دوسروں تک پہچایا جاتاہے۔ اس کی صورتیں درج ذیل ہیں:
(1)اخبار (News Pepar)
(2)کتابیں (Books)
(3)بینرز (Bannars)
(4)پوسٹرز (Posters)
(5)ہورڈنگ (Billboards)
(5)فلائرز (Flyers)
(6)کتابچے (Leflete)
(7)رسائل وجرائد (Magagines)
(8) نیوز کارڈز (News cards)
(9) پوسٹ کارڈز (Post cards)
(10) پمفلٹ (Pamphlet)
اخبار: اس کے بابت آپ روز مرہ کے مشاہدات اور مطالعہ سے جانتے ہیں کہ اس میں کیا کیا ہوتاہے۔
کتابیں: کتابوں سے آپ کو روزانہ سابقہ پڑتاہے آپ شب وروز اس کے مطالعے کے باعث اس کی افادیت سے انکار نہیں کرسکتے البتہ کتاب کا مضمون اگر فواہش پر مشتمل ہو تو وہ مفسد اخلاق وکردار ہوتی ہے اس میں کوئی دوراے نہیں۔
بینر اور پوسٹر: بینر اور پوسٹر میں فرق یہ ہے: کہ پوسٹرز کاغذ پر پرنٹ کیے جاتے ہیں۔ یہ سستے بھی ہوتے ہیں اور زیادہ دیر تک نہیں چلتے۔اس کے برعکس بینرز ونائل پر پرنٹ کیے جاتے ہیں یہ پوسٹر کے بالمقابل کچھ مہنگے ہوتے ہیں اور دیر پا بھی یعنی زیادہ دن تک چل سکتے ہیں۔
بل بورڈس:عام طور پر شاہراہوں یا ہائی وے چوراہوں پر جو لکڑی کے تختوں پر بینر کے مثل لگاکر کھڑا کردیا جاتاہے جس میں کسی تجارتی وصنعتی یا سیاسی پیغام ہوتاہے۔ بعض میں ڈرائوروں اور سواریوں کے لیے مفید رائیں بھی درج ہوتی ہیں اسے بل بورڈس یا خبر کا تختہ کہا جاتاہے۔
نیوز کارڈ: اس رسالے یا جریدے کو کہتے ہیں جو اخبار کے ساتھ میگزین شائع ہوتی ہے اس میں کچھ اہم مضامین، پیغام رساں تصاویر وغیرہ ہوتی ہیں۔
پوسٹ کارڈ: یہ موٹے کاغذ کا ایک مستطیل ہوتاہے جو کارڈ بورڈ کی جانب سے بناہوتاہے اس کا فائدہ یہ ہے: کہ یہ بغیر لفافے کے ڈاک بھیجا جاسکتاہے۔ یہ غیر مستطیل بھی ہوسکتاہے۔
لفلیٹ: یعنی کتابچہ عام طور پر جب بنکوں میں جاتے ہیں تو وہاں کچھ چھوٹے چھوٹے پرچے مطبوعہ دستیاب ہوتے ہیں جن میں بنک کی سہولیات مندرج ہوتی ہیں کبھی کبھی اخبار کے ساتھ بھی اس طرح کے چھوٹے ورق آتے ہیں جس میں کسی کمپنی کا اشتہار پرچار وغیرہ ہوتاہے۔
فلائرس: یہ چھوٹے سائز اور ہلکے کاغذ پر چھاپے گئے پرچے ہوتے ہیں جن میں عموما انتخابات میں کسی بھی پارٹی کی ہدایات اور وعدے یا کسی اسکول کے پرچار کے مطبوعہ اوراق ہوتے ہیں جن میں اس اسکول یا کالج کی سہولیات اور خوبیوں کا تذکرہ ہوتاہے۔
پمفلٹ:اس کا بنیادی مقصد ہمیشہ کسی متنازعہ لہجے میں خیالات ، مقامات ، نقطۂ نظر اور کسی چیز پر تنقید کا نشر کرنا ہوتاہے۔
لہذا یہ سب سے بڑھ کر، سیاسی پروپیگنڈا اور نظریاتی لڑائی کے ساتھ ساتھ، کسی کے اور کسی کام کی مذمت کرنے کے لیے استعمال ہوتاہے۔ پمفلٹ عام طور پر جارحانہ اور سامنے والے کے لہجے میں لکھے جاتے ہیں ، جس میں مختلف ادبی آلات ، طنز ، ستم ظریفی اور مزاح کا استعمال کیا جاتا ہے جس سے اس کے کہنے والے کو مخالفین کے طور پر جان لیا جاتاہے ۔ پرنٹنگ پریس کی ایجاد کب ہوئی؟
یہ ساری چیزیں پرنٹنگ پریس سے وجود میں آتی ہیں۔ جس کی ایجاد جرمنی کے یوہنیس گوٹن برگ نے 1950ء میں کی جس سے کتابوں، رسائل وجرائد وغیرہ کا عام آدمی کے ہاتھوں میں پہنچنا آسان ہوگیا۔
جب کہ ہندوستان میں سب سے پہلی پرنٹنگ پریس مشین 1556ء میں گوا میں لگائی گئی۔انڈیا میں سب سے پہلا اخبار دی بنگال گزٹ جیمس اگسٹس نے پرنٹ میڈیا کی صورت میں بھارت میں جاری کیا۔
2_ نشریاتی میڈیا(Brodcast Media) اس میڈیا کو کہتے ہیں جس میں صرف آواز سنائی دے لیکن بولنے والا نظر نہ آۓ اس سے خبروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ نشر کیا جتاہے۔جیسے: ریڈیو،ایف_ایم_ وغیرہ۔
3_ صوتی_ بصری میڈیا (Audio_ visual Media) اس میڈیا میں بولنے والے کی آواز آتی ہے اور اس کا چہرہ بھی نظر آتاہے اس کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ جیسے: ٹی۔وی ، ایل۔سی۔ڈی وغیرہ۔ اب اس کا استعمال جائز ہے یا نہیں یہ ایک الگ فقہی مسئلہ ہے جس پر ہم قطعا بحث نہیں کریں گے جسے اس کی تفصیل وحکم شرعی جاننا ہو وہ فقہاے عظام اور مفتیان زمانہ سے رجوع کرے۔
2_ جدید میڈیا (New Media) کی تین قسمیں ہیں:
موبائل فون (Mobile phone)
انٹرنیٹ (Internet)
کمپیوٹر (Computer)
ان تینوں کے متعلق روز مرہ کے استعمال کی وجہ سے ہر ایک کا مفہوم آپ بخوبی جانتے ہیں لہذا اس پر قطعا گفتگو کی ضروت نہیں۔ جدید میڈیا کی بعض نئی صورتیں یہ ہیں:
1_ واٹس ایپ (Whats app)
2_ فیس بک (Facebook)
3_ انسٹا گرام (Instagram)
4_ گوگل (Google)
5_ یوٹیوب (You Tube)
6_ ٹویٹر (Twitter)
7_ ٹیلی گرام (Telegram) وغیرہ۔
یہ سب بھی آۓ دن سب کے استعمال میں رہتی ہیں۔اس لیے مزید وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں۔
میڈیا کی تمام اقسام ذہن نشین کرلینے کے بعد پرنٹ میڈیا پر کچھ تفصلی گفتگو کی جاۓ تاکہ اس کی اہمیت و ضرورت اور افادیت معلوم ہو۔ پرنٹ میڈیا کی ایک قسم رسائل وجرائد ہے جسے انگریزی میں میگزین کہا جاتاہے۔ یہ مختلف قسموں کی ہوتی ہیں۔ جو درج ذیل ہیں:
1_ ہفت روزہ: جس کی اشاعت سات دن میں ہو۔
2_ پندرہ روزہ:جس کی اشاعت پندرہ دن میں ہو۔
3_ ماہنامہ: جس کی اشاعت ہر مہینہ ہو۔
4_ دوماہی: جس کی اشاعت ہر دوماہ میں ہو۔
5_ سہ ماہی: جس کی اشاعت ہر تین ماہ میں ہو۔
6_سالنامہ: جس کی اشاعت سال میں ایک بار ہو۔
پرنٹ میڈیا مثلا اخبار الیکٹرانک میڈیا مثلا نیوز چینلز وغیرہ کے اغراض ومقاصد حسب ذیل ہیں :
1_جمہوری ملک میں سرکار کی خامیوں کو اجاگر کرکے ان کی اصلاح کرانے کی کوشش کرنا،تنقید کرنا۔ اس کے تئیں حکومت کو جواب دہ ہونا پڑتاہے۔ اس میں میڈیا جس کی حمایت کردے عوام بھی اسی کی حمایت کرتی ہے۔ اس لیے میڈیا کو کسی کے دباو میں کام نہیں کرنا چاہیے نہ حکومت کے نہ پرائویٹ سیکٹر کے۔ کیوں کہ عوام کو اس پر بھروسہ ہوتاہے اور اور یہ حکومت اور عوام کے بیچ رابطے کا کام کرتی ہے۔لیکن حالات اب گوناگوں مختلف ہوگئے ہیں۔
2_ میڈیا پروپیگنڈا: جس کا مطلب ہے کہ میڈیا کسی بھی شخص کو راتوں رات ہیرو یا زیرو بنا سکتاہے جیساکہ 2014ء کے مرکزی انتخابات میں کیا گیا کہ ہر چینل ہر ڈیبیٹس ہر نشریاتی پروگرام پر ایک ہی جملہ تھا۔ مودی لہر، نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ 3_ خبر فراہم کرنا۔
4_ تعلیم دینا۔ پرنٹ میڈیا مثلا اخبار وغیرہ کا ضمنی مقصد لوگوں کو تعلیم دینا بھی ہے۔ انقلاب پیپر میں مسلسل دو لفظ انگریزی اور دو لفظ اردو کے معنی کے ساتھ شائع ہوتے ہیں علاوہ ازیں جو مضامین ومقالات کے کالم ہوتے ہیں ان میں بیشتر مضامین اسی سے متعلق ہوتے ہیں۔
5_ تفنن اور لطیفہ۔ کچھ کالم لطف اندوزی یا منورنجن وغیرہ کے بھی شامل ہوتے ہیں۔ تاکہ قاری کا دل اکتاہٹ کا شکار نہ ہو۔
6_ سرکار پر اس کی خامیوں کے باعث دباو بنانا۔
7_ ایجنڈا۔ مثلا ملک و بیرون ممالک کے جو حالات چل رہے ہوں ان کا منظر نامہ پیش کرنا اور انھیں دور کرنا اور جو سرد پڑگئے ہوں انھیں نہ دکھانا یا نہ چھاپنا ایجنڈا کہلاتاہے۔جیسے اس وقت یوکرین ورسیا تنازعہ جاری ہے تو اس کی کوریج کرنا اور افغانستان وامریکہ کے تنازعہ سرد پڑگیا تو اسے نہ دکھانا ایجنڈا یا مدعی کہلاتاہے۔ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کی بنسبت پرنٹ میڈیا کے فائدے:
پرنٹ میڈیا سے بہت سے وہ فائدے حاصل ہوتے ہیں جو الیکٹرانک میڈیا یا سوشل میڈیا سے حاصل نہیں ہوسکتے۔ مثلا:
کتاب یا رسالے سے ہم اپنی من پسند خبر یا مضمون پڑھ سکتے ہیں جب کہ ریڈیو یا ٹیلی ویژن میں خبر پڑھنے والے یا سنانے والے کا پابند رہنا پڑتاہے۔ یوں ہی وقت کی قلت کو ملحوظ رکھتے ہوۓ ایک ہی مضمون یا کئی ایک میں متفرق پیرا گراف سے کتب ورسائل کا مطالعہ کیا جاسکتاہے ریڈیو یا ٹی۔وی پر نشرکیے جانے والی خبروں میں ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔
دل چسپ اور معلوماتی تحریروں کو اخبارو جرائد کے ذریعہ محفوظ کیا جاسکتاہے جب کہ الیکٹرانک میڈیا یا سوشل میڈیا یعنی واٹس ایپ فیس بک وغیرہ پر وہ تحریریں غائب ہوجاتی ہیں سواے ان کے جو خود پوسٹ کیں ہوں وہ بھی ناتمام۔
مضمون نگار کے لیے مواقع کی فراہمی اور اپنی زبان پر کماحقہ گرفت جب کہ سوشل میڈیا یا الیکٹرانک میڈیا نے زبان وادب کے معاملے میں لوگوں کو بے دست وپا کردیا۔ تعلیم کا فروغ۔ اس لیے کہ اس سے ہر کس وناکس استفادہ نہیں کرسکتاہے بلکہ پہلے علم حاصل کرے گا پھر کچھ لکھ یا پڑھ سکتاہے۔جب کہ نشریاتی پروگرامس کو ہر خواندہ وناخواندہ سن سکتاہے۔
رموز اوقاف کی پہچان اس کے برعکس دونوں میڈیا پر اس کی معرفت حاصل ہونا دشوار یا نادر ضرور ہے۔
علما کے لیے کتب ورسائل کی طباعت واشاعت نہایت ناگزیر!
آج جب الیکٹرانک میڈیا کے نشریاتی پروگرامس اور پرنٹ میڈیا میں اخبار وغیرہ پر زعفرانی رنگ کا غلبہ ہے اور ان کی شہ رگ حکومت نے دبا رکھی ہے صحیح خبر یا رپورٹ لوگوں تک بالخصوص مسلمانوں تک پہنچنا دشوار ترین ہوگیا ہے اور سوشل میڈیا پر ویسے انتظامیہ اور ایجنسیاں برابر نظر بناۓ ہوۓ ہیں تو علما کے لیے عمدہ رسالوں کی طباعت واشاعت حد درجہ ناگزیر ہوجاتی ہے تاکہ علما وطلبہ اور مسلمانوں کو ملکی وبین الاقوامی منظر نامہ کی خبر رہے۔ انھیں حالات کو مد نظر رکھتے ہوۓ اور پرنٹ میڈیا کی افادیت کو تسلیم کرتے ہوۓ سہ ماہی عرفان رضا رسالے کی بالدوام طباعت واشاعت کا عزم بالجزم کیا گیا۔
مزید برآں مضافات مراداباد کے نوخیز علما اور طلبہ کے لیے میدان صحافت میں طبع آزمائی کا ایک اچھا پلیٹ فارم ہے اور ان کے لیے گولڈن چانس سے کم نہیں۔ یقینا جو لوگ مضمون نگاری نے نابلد ہیں وہ اس سے وابستگی کے بعد استفادہ ضرورکرسکیں گے۔
رسالہ سہ ماہی عرفان رضا مراداباد تقریبا ڈھائی سالوں سے آن لائن شائع ہورہا تھا لیکن اب اس کی مقبولیت اور صحافت میں علما وطلبہ ومسلمانوں کی شراکت کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوۓ اسے پرنٹ کرکے ہارڈ کاپی میں آف لائن نکالنے کا اقدام لائق تحسین ہے جس کے لیے مدیر اعلی ومجلس ادارت ومشاورت ومعاونت سب قابل تعریف ہیں۔
مضمون نگاری پر راقم کی کئی تحریرں گوگل سائٹس پر اپلوڈ ہیں جیسے : مقالہ نگاری اصول وضوابط ، قلمکار کیسے بنیں؟ قواعد وہدایات۔ مضمون نگاری سے متعلق کچھ اہم باتیں۔وغیرہ۔
پرنٹ میڈیا کا تعلق الیکٹرانک میڈیا کی بنسبت کتابت کے اصول سے زیادہ وابستہ ہے اس کا لحاظ بے حد ضروری ہے۔
کتبہ: محمد ایوب مصباحی
پرنسپل و ناظم تعلیمات دار العلوم گلشن مصطفی بہادرگنج۔
امام مکہ مسجد عالم پورپوسٹ سلطان پور دوست ۔
رکن مجلس ادارت سہ ماہی عرفان رضا مراداباد
وساکن بایزید پور پوسٹ ڈلاری، ٹھاکردوارہ، مراداباد، یو۔پی۔
رابطہ نمبر: 8279422079