جمہوریت اور ہندو راشٹر کا شاخشانہ

Spread the love

از: انصار احمد مصباحی ، پونہ ، مہاراشٹر جمہوریت اور ہندو راشٹر کا شاخشانہ

جمہوریت اور ہندو راشٹر کا شاخشانہ

جمہوری حکومت کا مطلب ہے ، ملک کی اکثریت کی راے اور ترجیح پر کام کرنے والی حکومت ، جسے سابق امریکی صدر ابراہم لنکن نے مختصر لفظوں میں یوں بیان کیا ہے:۔ “Goverment of the people, by the people and for the people”

یعنی جمہوری حکومت عوام میں سے ، عوام کی جانب سے عوام کی خاطر ہوتی ہے۔ کسی بھی جمہوریت میں عوام کی راے کو کسی نہ کسی طرح دخل ہوتا ہے۔

دنیا کی قدیم ترین جمہوریت کی ماں ملک عزیز بھارت ہی ہے ۔ 100 سال قبل مسیح میں ، گوتم بدھ سے پہلے ہند میں جزئی جمہوریت نافذ العمل تھی۔ بھارت، 15/ اگست، 1947ء کو انگریزوں کے ناجائز تسلط سے آزاد ہوا۔ بھارت کی ”مجلس دستور ساز“ نے آئین ہند ( भारत का संविधान ) کو 26/ نومبر ، 1949ء میں تسلیم کیا اور 26/ جنوری ، 1950ء کو عوام پر نافذ کیا۔ دستور ہند Givernment of India Act 1935 کو بدل کر بنایا گیا تھا

۔ ”پیور ریسرچ سینٹر“ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں 96 ایسے ممالک ہیں ، جن کا نظام جمہوریہ ہے۔ ان میں سے 86 ملکوں میں آزاد جمہوریہ ہے ، جو سیاسی اور شہری حقوق کی کسوٹی پر پورا اترتے ہیں۔ ان میں سے ہندوستان کی جمہوریت سب سے بڑی اور مثالی رہی ہے۔

یہاں کی گنگا جمنی تہذیب کی کئی ملکوں نے تقلید کی ہے۔2014ء میں بی جے پی کو حکومت بنانے میں کامیابی ملی تو بھگوا تحریرک آر ایس ایس کو نئے بال و پر مل گئے۔

سنگھ پریوار (تمام شاخوں کے ساتھ) کا نظریہ ہمیشہ سے جمہوریت مخالف اور ملک کے مفاد کے خلاف رہا۔ 1927ء سے اب تک اس تحریک کا ایک ہی مقصد رہا ہے، یعنی سیکولر بھارت کو ایک ”ہندو راشٹر“ بنانا۔

آر ایس ایس نواز بی جے پی کی حکومت بنی تو یہ تحریک اپنے دیرینہ خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ہاتھ پاوں مارنا شروع کردی۔اس کے لئے زعفرانی پارٹی نے عملی اقدام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

خاص مذہب کو نشانہ بناکر ”شہریت ترمیمی قانون“ پاس کروایا۔ اس کالے قانون کے خلاف آواز احتجاج بلند کرنے والوں کے ساتھ سوتیلا بلکہ ظالمانہ سلوک کیا 

پارٹی کے نیتا نے ایسی نفرت انگیز بیان دیا کہ دہلی میں فساد پھوٹ پڑا ، ریلیوں میں ”دیش کے غذاروں کو ، گولی مارو سالوں کو“ کے زہریلے نعرے لگائے گئے، وزیر داخلہ امیت شاہ نے مبینہ طور پر تقریر میں کہا ”بٹن اتنے زور سے دباؤ کہ اس کا کرنٹ سیدھے شاہین باغ کی عورتوں کو لگے“۔

اسی پر بس نہیں ، جس وقت اس مسلم دشمنی پر مشتمل قانون کی مخالفت ہورہی تھی، دیش کے وزیر اعظم یونیورسٹیوں کے ان پڑھے لکھے طلبہ و طالبات کو مخصوص لباس سے پہچان رہے تھے۔سرکاری خزانوں سے مندریں تعمیر کی گئیں

دستور کا خون کرتے ہوئے کرسی کی طاقت کے بل پر بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا فیصلہ کروایا ؛ احتجاج کر رہے کسانوں پر منسٹر کے بیٹے نے گاڑی دوڑا دی

علی الاعلان مسلم نسل کشی پر عوام کو اکسایا گیا ؛ شہروں کے مسلم نام تبدیل کیے گئے ؛ مسلم پیشوا مثلا اورنگ زیب عالم گیر علیہ الرحمہ وغیرہ کو ڈاکو اور لٹیرا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی 

نصاب تعلیم میں ایسی باتیں شامل کی گئیں جو کسی خاص مذہب کی تعلیمات اور شخصیات پر مشتمل ہیں ؛ محمد الطاف کی پولیس حراست میں موت ہوگئی ، تری پورہ فساد کے آزادانہ جانچ کرنے والی ”فیکٹ فائنڈنگ ٹیم “ پر ، انسداد دہشت گردی قانون “UAPA” عائد کر دیا گیا۔جنگ آزادی کے قائدین کو گالیاں دی جا رہی ہیں 

ملک کی اصل آزادی 1947ء کے بجائے 2014ء میں بتایا جا رہا ہے، گاندھی جی کی مذمت اور گوڈسے کو ہیرو ثابت کر نے کی کوشش کی جا رہی ہے، انڈیا گیٹ پر 50 سالوں سے جل رہے امر جوان جیوتی بجھا دی گئی ہے ، بیٹنگ ریٹریٹ کی تقریب سے گاندھی جی کی پسندیدہ دھن ہٹا دی گئی ہے۔

ہجومی تشدد کے شکار اخلاق احمد کے قتل کے ایک ملزم کی لاش پر بی جے پی نیتا پھول چڑھاتے نظر آئے 

علیم الدین کے آٹھ قاتلوں کا بی جے پی نیتا نے ہار پہنا کر استقبال کیا تھا۔ ریلیاں نکال کر پیغمبر اعظم ﷺ کو گالیاں دی گئیں ، عوام سے مسلمانوں کے معاشی بہسکار کی اپیلیں کی گئیں۔ باتیں اور بھی ہیں۔

آرٹیکل 370 کی منسوخی ، لنچنگ کے واقعات ، کھلی جگہ نماز پڑھنے سے روکنا اور مسلمانوں کی بے جا گرفتاریاں جیسے واردات بھی اس میں شامل کر سکتے ہیں۔ مذکورہ سارے واقعات آر ایس ایس نواز بی جے پی کے ، بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کے سفر کی ابتدا کہی جا سکتی ہے۔

لیکن ”ہنوز دلی دور است“ ۔ عوام کے ذہن میں ہندو راشٹر کی خوش فہمی اور خوف کا جو وائرس بھرا گیا ہے ، اس کی حقیقت ”ہوا میں پل تعمیر کرنے“ سے زیادہ کچھ نہیں۔ اوپر کے مذکورہ واقعات کا ایک اور رخ بھی ہے، جو مختلف اور متضاد ہے۔

بھارت کی جمہوری جڑیں کھوکھلی کرنا اتنی آسان نہیں ہے۔ اس کے مندرجہ ذیل وجوہات ہیں:۔

۔(1) فضیحت: ہری دوار دھرم سنسد ، سی اے اے اور کسان مخالف زرعی قوانین کے سبب ، بی جے پی کو عالمی طور پر کافی بدنامیوں کا سامنا ہوا ہے۔ ملکی خزانے سے کھربوں خرچ کرکے عالمی دورے کر کے مودی جی نے 

جو جھوٹی امیج بنائی تھی، ان تینوں واقعات نے اس پورے کیے دھرے پر مکمل پانی پھیر دیا۔ اقوام متحدہ کی دھمکی پر ہی مودی سرکار نے سی اے اے کو نافذ نہ کرنے کا معاہدہ نامہ جمع کرایا ہے۔ دھرم سنسد معاملے میں خود آئی آئی ایم بنگلور کے اساتذہ اور طلبہ نے خط لکھ کر ، وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی خاموشی پر تنقید کی تھی

۔ (2) عدالت / مقننہ : عدلیہ یا مقننہ جمہوریت کی اہم ستون ہے۔ موجودہ سرکار ملک کی عدالت کو اپنا آلہ کار بنانے میں کام یاب نہیں ہو پائی ہے۔

یہاں بابری مسجد کا فیصلہ ضرور آپ کے ذہن کو ضرب لگائے گا ؛ لیکن عدالت نے وہ فیصلہ پس منظر نہیں ؛ بلکہ پیش منظر کو مد نظر رکھ کر لیا تھا۔ یوں سمجھ لو کہ پورا اونٹ گزر چکا تھا ، عدالت کے پاس صرف دم بچی تھی

پچھلے چند ماہ اور گزشتہ چند ایام کا جائزہ لیں تو آپ دیکھیں گے کہ چیف جسٹس رامنا نے حکومت کی غلط پالیسیوں پر کڑی تنقیدیں کی ہے۔

بد زبان نرسمہانند اور جتیندر تیاگی کی گرفتاریاں ہوئیں ، اٹارنی جنرل نے اس کے خلاف توہین عدالت کامقدمہ چلانے کی منظوری دے دی۔ مسلم خواتین کی توہین پر مشتمل ایپ بنانے والے اور ان کے ساتھیوں کو پولیس نے بڑی جرات مندی سے گرفتار کیا

۔ (3) جمہوریہ : اقتدار کے نشے میں چور بی جے پی اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ ملک کی اکثریت اس کے ساتھ ہے ، وہ جو چاہے کرے۔ حالانکہ زمینی حقائق اس کا انکار کرتی ہیں۔

جمہوریت سے چن کر آنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ اکثریت کی حمایت مل گئی۔ ہمارے ملک میں کبھی بھی ساٹھ فیصد سے زیادہ ووٹنگ نہیں ہوتی ، اٹھارہ سال سے کم عمر والوں کو ووٹ کا اختیار نہیں۔ جتنے لوگ پولنگ بوتھ میں ووٹ ڈالتے ہیں ، انھیں حاصل کرنے کے لئے درجنوں امید وار اور پارٹیاں موجود ہوتی ہیں۔ ایسے میں جس کی جھولی میں زیادہ ووٹ آئے ، وہ فاتح قرار پاتا ہے۔

اس کا یہ مطلب کہاں ہوا کہ فاتح امید وار کو نصف سے زائد لوگوں نے اپنا پسندیدہ لیڈر مانا! پانچ سو میں سے تین سو سیٹیں حاصل کرنے والوں کو ملک کی آبادی میں سے صرف تیس سے پینتیس فیصد عوام کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ یہ تیس فیصد کبھی بھی ستر فیصد کے جمہوری حقوق کو غصب نہین کر سکتے ۔(4) عوام: ریاستی انتخابات سے بی جے پی کو بھی اس بات کا بخوبی احساس ہو گیا ہے کہ اس کا زور ٹوٹتا جا رہا ہے۔ عام آدمی کے ذہن و دماغ سے مذہبیت کا سحر ٹوٹ گیا ہے ، انھیں زیادہ دنوں تک یرغمال بناکر نہیں رکھا جا سکتا۔

مہنگائی کی مار نے ساری چوکڑی بھلا دی ہے۔ ملک کے باہر یورپ ، امریکہ اور خلیجی ممالک میں کثیر تعداد میں ہندوستانی رہتے ہیں۔ ان کی بڑی تعداد بڑی بڑی کمپنیوں میں اونچے عہدوں پر فائز ہیں۔

وہ جمہوریت مخالف حرکتوں پر تنقید کرنے میں کبھی پیچھے نہیں ہٹے ۔ چاٹو کار گودی میڈیا کی کار ستانیوں سے جنتا آگاہ ہو چکی ہے۔ بی جے پی نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ بس اتنا ہی کر سکتی ہے۔

ملک کی جمہوریت کی کچھ جڑیں تھوڑی دیر کے لیے کتری تو جا سکتی ہیں ؛ لیکن جمہوریت کو مکمل ختم کرکے اسے کسی مذہب سے منسوب کر دینے کا خواب ، ایک سراب جیسا ہے۔ ؎۔

ہزار برق گرے ، لاکھ آندھیاں اٹھیں

وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں

از: انصار احمد مصباحی

پونہ ، مہاراشٹر

 9860664476  

 

11 thoughts on “جمہوریت اور ہندو راشٹر کا شاخشانہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *