انسان ہونا ایک عظیم نعمت ہے
از قلم: ناظرہ فاطمہ رضویہ صدر ادارہ علم الہدی آن لائن انسان ہونا ایک عظیم نعمت ہے
انسان ہونا ایک عظیم نعمت ہے
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ( بے شک ہم نے آدمی کو اچھی صورت پر بنایا) مخلوق خداوند میں کئی انواع ہیں انسان، حیوانات، چرند، پرند، فرشتے وجنات سب کے الگ الگ خصائص و کمالات ہیں کسی کو اُڑنے کی خوبی عطاء فرمائی
کسی کا نمو عطا فرمایا کسی کو ناطق بنایا کسی کو غیر ناطق بنایا کسی کو معصوم منی الخطاء رکھا سب کو جدا جدا درجات عطاء فرمائے باوجود اتنی انواع کے، باوجود اتنی مخلوقات کے انسان ایسی مخلوق ہے جس کو اشرف المخلوقات کیا گیا ہے
انسان فرشتوں اور حیوانات کی کے مابین ایک مخلوق ہے عقل اور خواہشات کا جامع ہے۔ تو جو انسان خواہشاتِ نفسانی کو خود پر غالب کرلیتا ہے وہ مانند حیوانات کے ہے۔ جن کو کسی چیز کا شعور نہیں اور وہ انسان جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور احکام خداوند پر عمل کرے وہ ان لوگوں میں ہے
جن پر خداۓ تعالیٰ کی چشم رضا ہے۔ اشرف المخلوق کے عادات و اخلاق کیسے ہونے چاہیے؟؟؟
جس طرح انسان اشرف المخلوق ہے اسکے اخلاق بھی اشرف ہونے چاہئیے۔ شارع علیہ السلام محمد ﷺ کی حیات طاہرہ ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے انسانوں کو چاہیے کہ آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ سے اخذکرلیں اور ان پر عمل کریں تاکہ ہماری زندگی بھی کامیاب ہوسکے۔
چند اچھی عادتیں:
حلم
غصہ کو برداشت کر لینا۔ اور غصہ دلانے والی باتوں پر غصہ نہ کرنا اس کو حلم اور بردباری کہتے ہیں۔ یہ بہت بلند اور اچھی عادت ہے۔
جس بندے میں یہ عادت ہو اسے خداۓ تعالیٰ بہت پسند فرماتا ہے۔ اور دنیا و آخرت میں بڑے بڑے مراتب و درجات عطا فرماتا ہے۔
قرآن مجید رب قدیر ایسے بندوں کے متعلق فرماتا ہے: غصہ کو پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کر دینے والوں اور اسی قسم کے اچھے اچھے کام کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ اپنا محبوب بنالیتا ہے۔
کوئی بندہ یا بندی اللہ تعالیٰ کا محبوب اور پیارا بن جائے اس سے بڑھ کر اور کونسی دوسری نعمت ہوسکتی ہے۔
عفو و درگذر
اگر کوئی شخص تمہارے ساتھ ظلم و زیادتی کر بیٹھے۔ یا کسی طرح کی کوئی تکلیف پہنچاۓ یا کوئی نقصان پہنچاۓ تو بدلہ و انتقام لینے کے بجائے اسے معاف کر دینا درگذر کہلاتا ہے۔ یہ بہت ہی بہترین عادت ہے۔
لوگوں کی خطاؤں کو معاف کر دینا قرآن مجید کا حکم اور رسولوں کا مبارک طریقہ ہے۔ خداوند قدس نے فرمایا فَاعْفُوا وَاصْفَحوا یعنی لوگوں کی خطاؤں کو معاف کر دو۔ اور درگذر کی خصلت اختیار کرو۔
تمہارے رسول ﷺ نے مکہ کے ان مجرموں اور خطا کاروں کو جنہوں نے برسوں سے آپ پر طرح طرح کے ظلم کئے تھے۔ فتح مکہ کے دن جب یہ سب مجرمین آپ کے سامنے لرزنے اور کانپتے ہوۓ آئے۔
تو آپ نے ان سب مجرموں کی خطاء کو معاف فرمادیا اور کسی سے بھی کوئی انتقام نہیں لیا۔ جس کا یہ اثر ہوا کہ تمام کفار مکہ نے اس اخلاق محمدی ﷺ سے متاثر ہوکر کلمہ پڑھ لیا۔
تواضع و انکساری
خود کو دوسروں سے چھوٹا اور کمتر سمجھ کر دوسروں کی تعظیم و تکریم کرنا اس عادت کو تواضع و انکساری کہتے ہیں ۔ یہ عادت وہ نایاب جوہر ہے کہ جس شخص میں یہ عادت ہو وہ خیر کثیر کا مالک ہوتا ہے۔
جو بھی شخص ہر ایک کو اپنے سے بہتر اور اپنے کو سب سے کمتر سمجھتا ہے وہ ہمیشہ گھمنڈ اور شیطانی خصلتوں سے بچارہتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے مَاتَوَاضِعَ اَحَدُللَّہِ اِلَّا وَفَعَہُ اللہُ۔ (احیاءالعلوم ج-۲, ص-۲۲۰)
یعنی جو شخص اللہ کی رضا جوئی کے لیے تواضع و انکساری کی خصلت اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو سربلندی عطاء فرمائے گا۔
صبر و شکر
بڑی بڑی جسمانی اور جانی تکالیف اور مصیبتوں میں اپنے نفس کو اس طرح قابو میں رکھنا کہ نہ زبان سے کوئی برا لفظ نکلے نہ پریشان حال ہوکر ادھر ادھر بھٹکتا پھرے۔ بڑی بڑی آفتوں اور پریشانیوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑا رہے۔ اسکا نام صبر ہے۔
قرآن مجید میں صبر کی فضیلت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ صبر کرنے والوں کے ساتھ اللہ کی مدد ہوا کرتی ہے۔
حیاء
ہر آدمی خصوصاََ عورت کے لیے حیا انمول زیور ہے جو عفت اور پاک دامنی کا دارومدار ہے۔ حیاءایسی صفت ہے جو انسان کو برائیوں اور گناہوں سے روکتی ہے اور نیکیوں کی طرف لے جاتی ہے۔ اسلام میں حیاء کا بہت بڑا مقام ہے
چناں چہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:-اَلْحَیَاءُ شُعْبَۃُ مِنَ الْاِیْمان۔ یعنی حیاء درحقیقت، ایمان کی بہت بڑی شاخ ہے۔ (بخاری شریف، ج-1 کتاب الایمان )
تو مسلمانوں کو چاہیے کے حیاء کے زیور سے ہمیشہ مؤزیّن رہیں۔ قرآن و حدیث سے ہمیں جن اچھے اخلاق کی تعلیم دی گئی ہے اگر مسلمان اس پر پوری طرح عمل کرے تو جس طرح حضور ﷺ کی حیات طاہرہ میں مسلمان کی شان تھی دورحاظرہ میں بھی وہ شان قائم ہوجائے۔
اللہ تعالیٰ ہم تماموں کو نیکیوں کی ہدایت عطاء فرمائے۔ آمین۔ جو نبی کو میرے قبول ہوں وہی کاش میرے اصول ہوں۔ وہی صبر ہو وہی گفتگو وہی سادگی وہی عاجزی
از قلم : ناظرہ فاطمہ رضویہ
صدر ادارہ علم الہدی آن لائن