ہندو راشٹر کے پرچار کرنے والو سنو

Spread the love

از قلم : افتخاراحمد قادری برکاتی ہندو راشٹر کے پرچار کرنے والو سنو ! غور سے سنو

ہندو راشٹر کے پرچار کرنے والو سنو

ملک عزیزہندوستان کے عہد ماضی اورحاضر پر غور کیجئے تو ایک نہیں،دس نہیں،سو نہیں،ہزار نہیں بلکہ ہزاروں ہزار بے گناہوں پر ظلم وتشدد،بربریت اور قتل و غارت کے وہ سارے پہاڑ توڑے گیے

جن کا تصور بھی انسانی دماغ برداشت نہیں کر سکتا-ایک بار نہیں سیکڑوں بار نہیں بلکہ ہزاروں بار جگہ جگہ یک طرفہ حملے ہوئے-جانیں،عصمتیں،عزتیں،باپ کی شفقتیں،ماں کی محبتیں لوٹی گئیں

کہیں کہیں تو ایسا سلوک کیا گیا کہ ہم جیسے ناتواں اور کمزور دل اس روح فرسا خبر سننے کی طاقت نہیں رکھتے-اور ہزارہا انسانوں کا کسی جنگ میں شہید کیا جانا کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں

لیکن ایک باقاعدہ حکومت خفیہ اسکیم کی بنا پر ہزارہا انسانوں پر درندگی سفاکی اور بربریت کے یکطرفہ پہاڑ توڑنا ایسا غیر معمولی واقعہ ہے کہ اگر امن و تحفظ اور عدل وانصاف کا ایک بھی ذرہ باقی رہتا تو ایسے واقعات رونما نہیں ہوتے جو آج ہندوستان میں ہو رہے ہیں- لیکن یہ بھی طلاطم خیز طوفان آخری طوفان نہیں آنے والے لمحات اسے بھی مات کردیں گے

جو لوگ غایت منظم طریقے پر مسلمانوں کی نسل کشی کو اپنا مقصدِ زندگی تصور کئے بیٹھے ہیں-ان کی پیاس دس ہزار بیس ہزار پچاس ہزار مسلمانوں کے خون سے نہ بجھے گی بلکہ وہ صاف طور پر اعلان کرتے پھر رہے ہیں کہ جو سلوک ہٹلر نے یہودیوں سے کیا تھا وہی سلوک مسلمانان ہند پر بھی کرنا چاہیے

آج ہماری حیثیت سبھی مذہب سے کم سمجھی جارہی ہے-آج ہمارے خون کی قیمت پانی سے بھی کم ہے آج ہم پر طرح طرح کے مصائب کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں-ظلم و اذیت کی لامحدود راہوں سے گزارے جارہے ہیں

آج ہماری بہنوں کی عزتیں پامال کی جارہی ہیں-آج ہم دہشت و ہراس اور ہلاکت و انتشار کی چلتی پھرتی مخلوق نظر آرہے ہیں

آج مسلمانوں کے بچوں کو ماں کی ممتا سے جدا کیا جارہا ہے-آج ہماری مذہبی کتابوں کی بے حرمتی کی جارہی ہے-ہماری عبادت گاہوں کے سامنے ہمیں ہی قتل کرنے کی دہمکیاں دی جارہی ہیں

گونا گوں خطرات میں مبتلا کئے جارہے ہیں-آج ہماری عبادت گاہوں پر حملے کئے جارہے ہیں-آج ہماری حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے

لیکن یہ سب تلاطم خیز طوفان آخری طوفان نہیں آنے والے لمحات اسے بھی مات کردیں گے ہمارے سر پر بھی کئی دشمن خنجر تانے ہوئے کھڑے ہیں

اور کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کب ہم پر حملہ کر دیں اور اس حملے کا مقابلہ ہم اتحاد و یکجہتی ہی سے کرسکتے ہیں لیکن ملک کا غدار فسطائ طبقہ جس کا مقصد ہی افتراق پیدا کرنا ہے-برابر اس کوشش میں لگا ہوا ہے کہ ہندو اور مسلمان میں منافرت کی خلیج اتنی بڑھ جائے کہ جو کبھی مٹ نہ سکے

لیکن میں کہتا ہوں کہ ہندو راشٹر کے پرچار کرنے والو سنو اور غور سے سنو کہ ہندوستان میں ایک سیکولر دستور نافذ ہے-یہ کسی خاص طبقہ یا مذہب والوں کا ملک نہیں ہے

بلکہ ہندوؤں،مسلمانوں،عیسائیوںسکھوں،بدھوں،پارسیوں اور سب ہی کا ملک ہے-لیکن فسطائ ذہن کے متبعین اپنے آپ کو نہ صرف اس ملت کا واحد ٹھیکدار تصور کرتے ہیں

بلکہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ اس ملت میں کوئی غیر ہندو بھی نہ دکھائی دے-اور یہ ملک خاص ہندو راشٹر بن جائے مگر حیف صد حیف ہندو راشٹر کے قائلین جو نہ شاید اس ملک کے ہندوؤں سےواقف ہیں اور نہ مسلمانوں سے

انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جس طرح ہندوستان کی سرزمین ہندوؤں کے لئے مقدس اور پوتر استھان ہے-اسی طرح مذہبی اعتبار سے مسلمانوں کے لئے بھی مقدس ہے

کیوں کہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ان کے پہلے پیغمبر حضرت آدم علیہ السلام جن کی پشت میں نور محمدی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم جلوہ گر تھا انہوں نے سب سے پہلے اسی مقدس ملک کی سرزمین پر قدم رکھا تھا-چنانچہ مسلمان اس ملک کی سرزمین پر بھی اپنی عقیدت کے نذرانے پیش کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں اور اس سرزمین کے لیے اپنی نقوش کی قربانیاں بخوشی گوارہ کر سکتے ہیں

اگر ہندوؤں کے لیے ہردوار،کاشی،بدری ناتھ اور صرف چند مقامات پوتر استھان ہیں-تو مسلمانان ہند کے لیے سیکٹروں وہ مقامات باعثِ احترام ہیں جہاں اس ملک کے اولیاء کرام آرام فرما ہیں


ان سبھوں پر ایک نظر

نفرت کا بلڈوزر

اتحاد کی بات کرتے ہو مسلک کیا ہے

 دی کشمیر فائلس کا نتیجہ یہ ہے!

ہمارے لیے آئیڈیل کون ہے ؟۔ 

مگر افسوس صد افسوس فرقہ پرست ذہنیت کے حامل لوگ جو نہ صرف ہندوستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں سے ناواقف ہیں-بلکہ ملک کی تاریخ سے بھی نابلد ہیں

اور عقل و فہم سے بھی پیدل انہیں سوچنا چاہئے آج اگر ہم یہاں مسجدوں،گردواروں، گرجاوں اور دوسری اقلیت کے عبادت خانوں کومندر بنانے کا مشورہ دیتے ہیں

تو ہو سکتا ہےکہ کل کسی اور ملک میں اس کی وجہ سے تمام مندروں کو مسجد،گردواروں اور گرجاوں میں تبدیل کردے-اگر اس ملک میں یہی ذہنیت ترقی کرتی رہی تو نہیں کہا جاسکتا کہ پوری دنیا کا انجام کیا ہوگا

ان سب مصیبتوں کے پہاڑ گرانے کے باوجود ملاحظہ فرمائیں کہ کتنی سادگی کے ساتھ اکثریتی طبقہ کو بے قصور اور مجبور محض بتایا جارہا ہے اور اقلیت کو جابر و ظالم ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے- کیسی عجیب بات ہے کہ اکثریتی طبقہ کے فرقہ پرستوں

کے ہاتھوں اقلیتوں پر طرح طرح کے مظالم ہوں ان کے خلاف منظم طریقے پر ہنگامے برپا کئے جائیں،ان کے گھروں اور دوکانوں میں آگ لگائی جائے لیکن اس کے باوجود اکثریتی طبقہ بے قصور ہے اور اقلیت کے رحم و کرم پر زندگی کے ایام گزار رہے ہیں

اس کے علاوہ یہ کس قدر حیرت انگیز ہے کہ اقلیتی طبقہ کے عبادت خانوں کو مندروں میں تبدیل کردیا جائے-ان کو لسانی اور تمدنی حقوق تک سے محروم کردیا جائے-پھر بھی اکثریتی طبقہ بے گناہ ہے بے قصور ہے اور اقلیت ہی سب سے بڑا قصوروار ہے

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام

کوئی قتل بھی کرتا ہے تو چرچا نہیں ہوتا

اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو خصوصاً اور اس ملک کی دیگر اقلیتوں کو عموماً اکثریتی طبقہ کے ظلم و بربریت برداشت کرتے ہوئے کئی سال گذر چکے ہیں-ان نام نہاد محب وطن نے ہندوستانی جمہوریت کی چولیں ہلاکررکھ دیں ہیں۔

اور ان کے رویے سے یہ بات صاف طور پر عیاں ہے کہ یہ اس جمہوریت کے قائل نہیں ہیں،جس میں کہ اکثریت اور اقلیت کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہو

بلکہ سب کو یکساں حقوق حاصل ہوں-ایسی حالت میں ہندوستانی اقلیتوں کے لیے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ اکثریتی طبقہ کی جمہوریت کش پالیسی کو ختم کرنے کا اپنا مشترکہ محاذ قائم کریں،اس ملک کی اقلیتوں کو یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہے جس میں کہ اقلیتوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے

یہاں تک کہ اس ملک کی بعض اقلیتوں کی تعداد دوسرے بعض ممالک کی آبادی سے بھی کہیں زیادہ ہے-ظاہر ہے کہ جس ملک کی اقلیتوں کی تعداد اتنی کثیر ہوں تو وہ اگر متحد ہو جائیں تو کیا کچھ نہیں کر سکتیں

لیکن اس ملک کی اقلیتی طبقوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان میں بعض تو اکثریتی طبقہ میں مدغم ہو کر رہ گئے ہیں بعض بے عمل کے مرض مہلک کے مریض ہیں،اور بعض آپسی انتشار و افتراق کے پھندے میں پھنسے ہوئے ہیں-کیونکہ آج کے سربراہان قوم و ملت قاضی کی طرح پھر ایک جزوی و فروعی اختلاف کے باعث کئی طبقوں میں انقسام قبول کئے ہوئے ہیں

اور عامتہ المسلمین بھی اپنے اپنے سربراہ کی انفرادی طور پر تقلید کر رہی ہے-اس طرح سے طاقت و توانائی اور عظمت حکومت کی نظر میں گرتی جارہی ہے

حالاں کہ جس ملک میں اقلیتوں کی اتنی بڑی تعداد ہو وہاں کی کوئی طاقتور سے طاقتور پارٹی بھی اقلیتوں کی رضا کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی-نہ صرف مسلم اقلیت بلکہ ہندوستان کی جملہ اقلیتوں خواہ آج محسوس کریں یا نہ کریں

لیکن حالات واقعات ان کو بتا رہے ہیں کہ اگر ان کو اس ملک کی اکثریتی طبقہ کی ظلم و بربریت سے نجات حاصل کرنی ہے-اور عزت کی زندگی گذارنی ہے

تو تمام اقلیتوں کو متحد ہونا پڑے گا اقلیتوں کا یہ اتحاد نہ صرف اقلیتوں کے لیے مفید ہے-بلکہ اس ملک کے نظام کو بھی بہت بڑا فائدہ پہونچے گا کیونکہ تمام اقلیتیں متحد ہو کر ملک کے دفاع استحکام اور ترقی میں بہت بڑا حصہ لے سکتی ہیں-اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے اتحاد سے اکثریتی طبقہ کے ان فرقہ پرستوں کا قدرتی طور پر خاتمہ ہوجائے گا

جنہوں نے اس ملک جمہوریت کو مسخ کر کے رکھ دیا ہے ہماری ایمان داری کے ساتھ یہ رائے ہے کہ اگر کسی نہ کسی طرح اس ملک کی تمام اقلیتیں متحد ہو جائیں تو ایک طرف تو اکثریتی طبقہ کے ان فرقہ پرستوں کا خاتمہ ہوجائے گا جو اس ملک میں کئی سالوں تک اپنی حیوانیت اور بربریت قائم رکھنا چاہتے ہیں

اور دوسری جانب اقلیتوں کی وہ تمام شکایتیں دور ہو جائیں گی جن سے وہ نالاں ہیں

لہذا میں جماعتوں کے متعلقین و مبلغین،مقررین خصوصاً عمامدین و قائدین ملت سے مؤدبانہ گزارش کروں گا کہ اپنی خدا داد صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر تمام اقلیتوں کو پستی و انحطاط اور انتشار کے دہانے سے بچانے کی سعی بلیغ فرمائیں۔

افتخار احمد قادری برکاتی

کریم گنج،پورن پور،پیلی بھیت،مغربی اتر پردیش

iftikharahmadquadri@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *