کچرے سے سونا نکالنے کی تگ ودو
کچرے سے سونا نکالنے کی تگ ودو
مفتی ناصرالدین مظاہری
’’ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن کے مضافاتی علاقے میں کچرے سے توانائی پیدا کرنے کا سب سے بڑا پروجیکٹ لگایا گیا ہے جہاں یومیہ کی بنیادوں پر ہزاروں ٹن کچرا جلایا جاتا ہے۔اس کچرے سے جو توانائی پیدا کی جاتی ہے اس سے پورے شہر کی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ دیگر مقامات پر بھی فراہم کی جاتی ہے‘‘۔(اے آروائی نیوز)
’’پنجاب حکومت نے لاہور میں کوڑے سے بجلی بنانے کے منصوبے کومنظوری دے دی ہے،اس منصوبے کے تحت روزانہ ساڑھے بارہ سوٹن کوڑے سے ۵۵میگاواٹ بجلی پیداہوگی،ایک خبرکے مطابق لاہورمیں تقریباً۴۰؍ملین ٹن کوڑا موجودہے جب کہ روزانہ کی بنیادپرپانچ ہزار ٹن مزیدجمع ہو رہا ہے‘‘ (روزنامہ دنیا)
’’ بھارت میں کوڑے سے بجلی کی پیداوار کرنے والے تہ کھنڈ ویسٹ ٹو انرجی پلانٹ کا افتتاح کیا جا چکا ہے، وزیراعظم نے دہلی کو صفائی ستھرائی کے ذریعہ سے کوڑے کچرے سے پاک کرنے کا جو عزم لیا ہے،اس کی وجہ سے دہلی میں موجود کچرے کے پہاڑ اب رفتہ رفتہ کم ہوتے جارہے ہیں،کچرے کے انتظام کے لیے متعدد پلانٹ لگائے گئے ہیں، گٹر نظام چست درست کیا گیا ہے اور کچرے کو جمع کرنے کے لیے بھی ایک سائنٹفیک نیٹ ورک ملک بھر میں بنانے کا آغاز ہوا ہے
اس پلانٹ کے شروع ہونے سے دہلی میں ہر روز دو ہزار میٹرک ٹن کوڑے کو نمٹانے کی صلاحیت اور بڑھ جائے گی ساتھ ہی یہ پلانٹ 25 میگاواٹ تک سبز توانائی کی پیداوار بھی کرے گا‘‘۔
یہ تین مثالیں صرف اس لیے پیش کی گئی ہیں تاکہ میں اپنے مافی الضمیرکوبخوبی اداکرکے اپنی بات آپ تک پہنچانے میں کام یابی حاصل کرسکوں۔
ہرمدرسہ معیارچاہتاہے،قوم بھی معیاردیکھتی ہے،تعلیم معیاری ہو،مدرسہ کانظام تعلیم معیاری ہو،نصاب تعلیم معیاری ہو،کھانا،رہائش اور بودوباش معیاری ہو،یہ معیاربہت اچھی چیزہے، ہمیں اس سے اختلاف نہیں ہے،قوم بھی یہی چاہتی ہے کہ مدارس اوران کاپورا سسٹم معیاری ہو،اسی معیار کی وجہ سے مدارس میں ابتدائی درجات کے طلبہ کوماہانہ اور وسطی اور نہائی درجات کے طلبہ کوسہ ماہی ، شش ماہی اورسالانہ امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے
میں اِن امتحانات اور ماہانہ جانچ کی تائید کرتا ہوں اور مشورہ دیتاہوں کہ ماہانہ امتحان کے علاوہ استاذکوبھی چاہیے کہ ہر ہفتہ کوئی ایسی ترتیب بنائے کہ تمام بچے اپنی جانچ کے تعلق سے فکرمند رہیں ۔ مسئلہ ہوشیار اور ہونہار بچوں کا نہیں ہے مسئلہ غبی اور کند ذہن بچوں کاہے،یہ تعداداگرچہ کم ہے لیکن ہے ہرجگہ ،یہ بچے اگرامتحان میں فیل ہوگیے توان کانام مدرسہ سے کٹ جاتاہے،کسی مدرسہ میں داخلہ لینا چاہا اورکچھ بتانہیں سکے توبھی ان کاداخلہ نہیں ہوتاہے،بلکہ امتحان میں کام یابیوں پرہی طلبہ کی امداداوران کے لیے رعایتوں کاانحصارہے۔
کند ذہن بچوں کی طرف سے عمومی طورپرہم سب بے فکرہیں ،غبی طلبہ کی بڑی تعدادکوبالکل بے یار و مددگارچھوڑدیا جاتا ہے،جب تک یہ کندذہن بچے مدارس اورتعلیم گاہوں میں رہتے ہیں اپنے اساتذہ اوراپنے ساتھیوں کا طنز،حوصلہ شکن جملوں اورمستقبل شکن حملوں سے دوچاررہتے ہیں
اورپھرجب اپنے گھر پہنچتے ہیں تووہاں بھی والدین کی کڑوی کسیلی باتوں ،بھائیوں اوربہنوں کے تمسخراوربے کارونکما ہونے کے طعنوں سے کبیدہ اور بددل ہوکراپنے بارے میں یہ تصورکرلیتے ہیں کہ میرااس دنیامیں کوئی کام اورمقام ہی نہیں ہے۔اس تصورکے بعدایسے ایسے واقعات جنم لیتے ہیں جن کومیں لکھنا اور آپ پڑھنا بھی نہیں چاہیں گے۔
آپ خودسوچیں جن طلبہ کو ہم نے نکمااورناکارہ سمجھ کراپنے ماحول اور اداروں سے دورپھینک دیاہے اب ان کے مستقبل کاکون ذمہ دار ہے،اگرقوم کے بڑے بڑے لوگ اسی طرح کرتے رہے رفتہ رفتہ ہماراماحول اورمعاشرہ کس قدرتعفن اورسڑاندکاشکارہوجائے گا۔ ایک طرف توکوڑے کرکٹ اورکچرے سے بجلی جیسی قیمتی چیزپیداکی جارہی ہے دوسری طرف انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو ’’نکمے‘‘ ہونے کی سنددی جارہی ہے۔کیااس حساس مسئلہ میں ہم حق پرہیں اورکیااس بارے میں ہم سے اللہ تعالیٰ کے یہاں پوچھ نہیں ہوگی؟
افحسبتم انماخلقناکم عبثا‘‘ اس آیت کامخاطب اگرچہ کفارہیں لیکن سوال ہم سے بھی ہوسکتاہے کہ تم جس بڑی تعداد کو ناکارہ اورنکماسمجھ رہے تھے،اس کوہم نے اپنی عبادت کے لیے پیدافرمایا تھا ، تم نے ہمارے مقصد تخلیق پرکس حدتک عمل کیاہے ،جس تعدادکوتم نے احساس کمتری میں مبتلا کر کے معاشرے کا عضو معطل بنادیا، کیا تم نے ان کو ہمارے مقصدتخلیق سے بھی واقف کرایاہے یانہیں
کیا تم نے انھیں عالم فاضل ، علامہ ،فہامہ نہ سہی کم از کم نمازروزے اورفرض عبادات کی اداے گی کا طریقہ اور تعلیم تودی ہوتی؟
کیاتم نے انھیں مساجدسے محبت اورنمازوں کی تعلیم میں رغبت دلائی تھی ، ان کو پیش آنے والے امتحانات اورآزمائشوں سے واقف اور آگاہ کرایا تھا ۔کیاان کواس لائق بنایاتھا کہ وہ اپنے مقصدتخلیق میں پورے اترسکیں؟
اگراللہ تعالیٰ نے ہم سے سوال کرلیا کہ تمہیں کس نے حق دیا تھا کہ میری پیدا فرمودہ اِس اشرف المخلوقات کو’’عبث ‘‘اور’’ بیکار محض‘‘ سمجھو؟
توہمارے پاس کیاجواب ہوگا؟
مجھے معاف فرمایاجائے اس باب میں ہم سے ناقابل معافی جرم سرزد ہورہاہے،ہم اپنے ماحول اورمعاشرہ کے ہونہاربچوں پرتواپنی صلاحیتیں صرف کرکے اچھا کام کررہے ہیں لیکن کندذہن اورغبی بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے ہمارے پاس کوئی مستقل نصاب اورنظام نہیں ہے۔
نہ ہی کبھی کسی مدرسہ کاہم نے کوئی ایسا اعلان واشتہارپڑھاہے جس نے خم ٹھونک کوایسی بڑی تعدادکواپنے یہاں لانے اور بلانے کی کوشش کی ہو؟
کیایسانہیں ہوسکتاکہ کوئی ایک مدرسہ اللہ کانام لے کراعلان کرے کہ کند ذہن اورغبی بچے احساس کمتری کاشکارنہ ہوں
کسی ادارہ میں آپ کاداخلہ نہیں ہوسکا ہے تومایوس کیوں؟ ہمارے ادارے کے دروازے ایسے تمام بچوں کے لیے کھلے ہوئے ہیں ، ہم نے ماہرین نفسیات اساتذہ کی خدمات حاصل کی ہیں ،یہ اساتذہ کم سے کم نصاب کے ذریعہ آپ کو اس لائق بنانے کی کوشش کریں گے کہ کم ازکم آپ گردن اٹھاکر اپنے ماحول اور معاشرے میں باعزت زندگی گزارسکیں،ہم آپ کواذان ، نماز، روزہ اور فرض عبادات کی ایسی تعلیم دیں گے کہ آپ اپنے آپ کو بالکل بے روزگار نہیں سمجھیں گے
ہم آپ کی تربیت اس انداز میں کریں گے کہ آپ کے اندرخوداعتمادی پیدا ہوسکے، آپ پوری قوم کی امامت کرسکیں،نمازجنازہ پڑھاسکیں،باعزت روزگار اورحلال کاروبار کرسکیں۔کیوں کہ عزت کی دو روٹیاں ذلت کے حلوے پراٹھے اور مرغ ومسلم سے بہترہوتی ہیں۔
مجھے کسی مدرسہ یا ادارہ کے تعلق سے کوئی اطلاع نہیں ہے کہ کندذہن بچوں کولے کرکوئی اجلاس یا پروگرام کیاگیاہو،کوئی سیمیناریاکوئی سمپوزیم منعقدہواہو، آخرکیوں؟
۱۹۶۳؍ میں امریکہ کے نیویارک میں بچوں کے والدین کا ایک اجلاس ہوا تھا،یہ اجلاس ایسے ہی کندذہن بچوں کے مسائل اوران کے تدارک پرمشتمل تھا،اجلاس میں مختلف امورزیربحث آئے اورلائے گئے ، بچے کیسے اپنے اسباق یادکرسکتے ہیں،سمجھنے کی دشواریوں کوکس طرح حل کیاجاناچاہیے،املاء میں درپیش مشکلات کوکس طرح دورکیاجائے،ان کے اندراحساس کمتری کونکال کراحساس برتری اور خوداعتمادی کیسے پیداکی جائے ۔
اس پروگرام میں یہ بھی طے ہواتھاکہ ایسے بچوں کا کسی دوسرے بچے سے ہرگز موازنہ نہ کیاجائے، ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ نہ کی جائے۔طنزیہ یا نفرت کالہجہ اختیار نہ کریں اور خاص طور پر ان کی شخصیت کو ہرگز نظر انداز اورعزت نفس کومجروح نہ کریں۔
یہ اجلاس ان لوگوں نے منعقد کیاتھاجن کوہم خاطر میں نہیں لاتے،جودینی تعلیم توکیادین سے ہی کوسوں دورہیں ،جن کے کانوں تک اسلام کاپیغام اورجن کے دلوں تک ایمان نہیں پہنچ سکا۔وہ اپنے کند ذہن بچوں کے لیے اس قدر فکر مند ہیں اورہم جو صاحب دین وشریعت ہیں
حامل قرآن وتصوف ہیں افسوس کہ ہمارا طرز اور ہمارا کردار صفر اور زیرو نظر آتاہے۔وہ اپنے مقصد کو پانے کے لیے کچرے سے سونا نکالنے کی تگ و دو میں مضطرب اور بے قرار ہیں اورہم اپنے بچوں کوناکارہ اورنکمابنانے کے لیے کوشاں اورکمربستہ ہیں
مفتی ناصرالدین مظاہری