جھوٹ سے بچیں اور سچائی اختیار کرنے والے بنیں

Spread the love

از : محمد قاسم ٹانڈؔوی جھوٹ سے بچیں اور سچائی اختیار کرنے والے بنیں (اپریل فول: باطل پسندوں کا شیوہ ہے

اسلام ایک کامل و مکمل دین ہے، اور ہمیں جو شریعت عطا کی گئی ہے وہ بھی جامع شریعت ہے، جو اپنے ماننے والوں کی رہبری اور راہ حق کی طرف بھرپور رہنمائی کرتی ہے۔

ہمیں عطا کی گئی یہ شریعت زندگی میں پیش آمدہ تمام معاملات اور رونما ہونے والے حادثات و واقعات کے وقت نہ صرف ثبات قدمی کی تعلیم دیتی ہے، بلکہ یہ شریعت اپنے ماننے والوں کو یہ تاکید بھی کرتی ہے کہ اس موقع پر ہمیں کونسی راہ اختیار کرنی ہے اور کونسے نسخے و فارمولے پر عمل پیرا ہوکر حالات سے نمٹنا اور ان سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہے؟

الغرض ہماری زندگی کا کوئی لمحہ اور گوشہ ایسا نہیں، جہاں شریعت ہماری راہنمائی اور فوز و فلاح کے اسباب مہیا نہ کراتی ہو۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے اندر مکمل طور پر دین پر چلنے کا داعیہ پیدا کرے اور ایسی تمام باتوں و رسم و رواج سے اجتناب کرے، جو خدا کی ناراضگی کا سبب اور اس کے غضب کو دعوت دینے والی ہوں۔

قرآن لوگوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے اور ان کو یہ حکم دیتا ہے کہ وہ خود کو مکمل طور پر دین پر چلنے کا عادی بنائیں اور ایک اللہ کے دین میں داخل ہو کر اپنے دشمن کی راہ چلنے سے خود کو محفوظ رکھیں، ارشاد باری تعالی ہے: “اے ایمان والوں! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر مت چلو بلاشبہ وہ تمہارا کھلا ہوا ہے دشمن ہے”۔ (ألبقرۃ:208)

قرآن مجید کی اس آیت کریمہ کے اندر اہل ایمان کو اپنے ظاہر و باطن کے ساتھ پوری طرح اسلام میں داخل ہو جانے اور قول، فعل و عمل کے درمیان پائے جانے والے تضاد و اختلاف کو دور کر ان میں یکسانیت پیدا کرنے کا حکم اور تاکید کی جا رہی ہے، بجز اس کے کوئی کامل ایمان والا نہیں ہوسکتا۔

آج اگر فی زمانہ دیکھا جائے تو قرآن کے اس مطالبہ پر اکثروں کی زندگی پوری اترتی نظر نہیں آتی، اس لیے کہ لوگوں کے اعمال ان کے دعووں کی نفی کرتے ہیں، ان کے قول و فعل میں بلا کا تضاد پائے جانے اور گہرے اختلاف کے سبب۔

کیوں کہ جو بات ان کی طرف سے کہی جاتی ہے، وہ ان کے اعمال میں پائی نہیں جاتی اور جن چیزوں کا صدور و وقوع ان کی ذات سے ہوتا نظر آتا ہے، ایسی تمام باتوں سے ان کے بیانات خالی ہوتے ہیں، جبکہ قرآن کی تعلیم اس سلسلے میں یہ ہے: “اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو ایسی بات کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں، اللہ کے نزدیک یہ بڑی سخت ناراضگی کی بات ہے کہ تم وہ کہو جو نہ کرو”۔ (سورۃ الصّف:2-3)

گویا قرآن نے لوگوں کے اس عیب اور کمی کو واضح کر دیا ہے، جسے وہ دوسروں سے کرنے کےلیے تو بولتے ہیں؛ لیکن خود اسے نہیں کرتے، یا جسے وہ خود کرتے ہیں، اسے وہ دوسروں سے نہیں کہتے۔ اس لیے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے امور کی انجام دہی میں مخلص و شائستہ ہونا چاہیے اور خود کو مکمل طور پر شریعت کا حامل و پابند بنانا چاہیے

۔ قول و فعل کا تضاد اور اعمال کا اختلاف در اصل ایک منافقانہ روش ہے، کہ جہاں دل نے چاہا، وہاں تو اس کی مرضی کی بات قبول کر لی اور جہاں نفس نے لذت و اشتہا پر آمادہ کیا وہاں نفس کو راضی کرنے لگ گئے، ایسا نہیں ہونا چاہیے

بلکہ ہر موقع اور ہر کام میں دین اسلام کی بتائی ہوئی ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی نیت اور پختہ عزم کرنا چاہیے اور اپنی ہر اس روش اور طریقہ کو ترک کرنا چاہیے جو آدمی کو منافقت کی راہ پر لے جاتا ہو۔

آپ (ﷺ) نے منافق آدمی کی بہت سی علامات بتائی ہیں، ان میں سے ایک علامت “جھوٹ بولنا” ہے؛ فرمایا گیا چار باتیں جس میں پائی جائیں گی وہ پکا منافق ہوگا:

1)جب بات کرے تو جھوٹ بولے

2)جب کوئی معاہدہ کرے تو غداری کرے

3)جب وعدہ کرے تو وعدہ کی خلاف ورزی کرے، اور 4)جب کسی سے لڑائی کرے تو گالم گلوچ پر اتر آئے۔ (متفق علیہ) اس حدیث رسول کی تشریح میں محدثین کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہاں نفاق سے مراد عملی نفاق مراد ہے، یعنی اگر کوئی مسلمان مذکورہ امور کو انجام دینے میں ان باتوں کو اختیار کرتا ہے اور اس میں یہ صفات پائی جاتی ہیں تو ایسے شخص کو کافر تو نہیں کہا جائے گا؛ البتہ کافروں والی مشابہت اختیار کرنے کی وجہ سے اسے فاسق و بےدین کہا جائےگا، اور جھوٹ ان میں سے پہلی علامت ہے۔

واضح رہے مذہب اسلام کا ماننے والا ہی نہیں؛ بلکہ دنیا کا ہر شریف و معزز آدمی جھوٹ کو برا سمجھتا ہے اور جھوٹا آدمی لوگوں کی نظروں میں بدترین عادت و خصلت والا تصور کیا جاتا ہے اس لئے کہ جھوٹ یہ ایسی بری عادت ہے جس کی وجہ سے لوگوں کا یقین متزلزل ہوتا ہے اور اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے اور جھوٹے آدمی کو بالآخر لوگوں کی نظروں میں ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے۔ جھوٹ کتنی بری عادت ہے

اور آدمی اس کے ذریعے کیسے ذلیل و بدنام اور نقصان اٹھانے والا ہوتا ہے، اس کو ہم دینیات کی ابتدائی کتابوں میں پڑھے گئے اس واقعہ سے سمجھاتے ہیں، جس میں ایک لڑکا اپنی بکریوں کو چرانے کے واسطے روزانہ پہاڑ پر لے جایا کرتا تھا، ایک دن اسے جب شرارت سوجھی تو اس نے من کو بہلانے اور لوگوں کو پریشان کرنے کےلئے بھیڑیا بھیڑیا چلانا شروع کر دیا

آواز سن کر کھیت جنگل میں موجود لوگ جب لاٹھی ڈنڈے لےکر اس لڑکے کے پاس پہنچے تو دیکھا شور مچانے والا لڑکا ہنس رہا ہے اور وہ لوگوں کو اپنی طرف آتا دیکھ کہنے لگتا ہے کہ میں نے تو ویسے ہی مذاق کیا تھا۔

لڑکے کے اس طرح جھوٹ بولنے پر لوگوں کو غصہ تو آیا مگر بچہ ہونے کے ناطے اس سے کچھ کہے بغیر واپس ہو گئے۔ ہوا یوں کہ اگلے روز سچ مچ بھیڑیا وہاں آ پہنچتا ہے

اب بچہ بہتیرا شور و غل کرتا ہے اور اپنی مدد کےلیے لوگوں کو پکارتا ہے لیکن لوگ اس کی مدد کو نہیں پہنچتے اور یہ سمجھتے ہیں کہ بچہ ہے، کل کی طرح مذاق کر رہا ہوگا۔ چناں چہ بروقت لوگوں کے نہ پہنچنے کی صورت میں بھیڑیا اس کی بکریاں بھی کھا گیا اور خود اس کی جان کے بھی لالے پڑ گئے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹ کتنی بری عادت ہے اور اس عادت کی وجہ سے انسان کا اعتبار و اعتماد کس طرح مجروح ہو جایا کرتا ہے، اور جھوٹ کی وجہ سے جھوٹا شخص لوگوں کی نظروں میں کس طرح ذلیل و خوار ہو کر اپنے جان مال سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے؟ یہ مختصر واقعہ ہماری آنکھیں کھولنے کےلیے کافی ہے۔ قرآن کریم میں بھی ایک جگہ جھوٹ بولنے والوں پر اللہ کی طرف سے لعنت و ملامت کی گئی ہے، ارشاد ربانی ہے: “اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں”۔ (آل عمران آیت:61)

آثار صحابہ سے بھی اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ نبی اکرم (ﷺ) کو جھوٹ سے زیادہ کوئی صفت ناپسند نہ تھی، اگر کسی کے بارے میں جھوٹے ہونے کا احساس ہو جاتا تو اس وقت تک آپ کا قلب اطہر اس شخص کی طرف سے صاف نہ ہوتا جب تک کہ جھوٹا شخص توبہ نہ کر لے اور آپؐ کو اس کی توبہ کا علم نہ ہو جاتا۔

جھوٹ اور جھوٹ بولنے والے کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعہ پر ارشاد فرمایا کہ: “مومن میں ہر صفت ہو سکتی ہے؛ لیکن وہ جھوٹا نہیں ہو سکتا” مطلب یہ ہےکہ اگر کوئی جھوٹا ہوگا تو یقینا اس کے ایمان میں نقص ہوگا۔ (ایک جامع قرآنی وعظ،ص:566)

آج فیشن پرستی کے دلدادہ اور اغیار کی چال چلن سے مرعوب ہونے والے طبقہ کی طرف سے اسی عادت بد اور خصلت کریہہ کو جان بوجھ کر پروان چڑھایا جا رہا ہے، جس کے نتائج و عواقب بھیانک اور تباہی خیز ہوتے ہیں۔

یہاں تک کہ عالمی اداروں میں بیٹھے مفسد ذہن اور سماج کے تانے بانے کو منتشر کر دینے والوں نے اس بری عادت کو فروغ دینے کےلیے سال کا ایک دن مخصوص اور مقرر کر دیا ہے، جس میں جان بوجھ کر جھوٹ بولنے کو فیشن بتایا جاتا ہے اور جو اس پر لعنت و ملامت کرتے ہیں یا ان کو اس رسم بد کے انجام سے واقف و باخبر کرتے ہیں، ان کو بےوقوف اور حالات زمانہ سے بےخبر گردانا جاتا ہے۔

اس طبقہ کی طرف سے یکم اپریل کو “فرسٹ اپریل” یعنی “اپریل فول” منانے، آج کے دن عام لوگوں کو ہنسانے، خوش کرنے یا ان سے مذاق کرنے کےلیے نئے نئے چٹکلے ایجاد کئے جاتے ہیں

سیدھے سادے لوگوں کو پریشان کرنے اور مزا خوری میں ان کو ذہنی طور پر ڈسٹرب کرنے کے واسطے قسم قسم کے جھوٹ گھڑے جاتے ہیں؛ تاکہ ان کی پریشانی اور افسردگی پر لوگوں کو ہنسنے اور خوش ہونے کا موقع ملے۔ ان سب باتوں اور رسموں کو انجام دینے کےلیے جگہ جگہ مجالس منعقد ہوتی ہیں، جن کا واحد مقصد لوگوں کو پریشان کرنا اور اپنے ذہن کی تسکین کرنا ہوتا ہے

آج کے دن کی اسی خصوصیت کو اجاگر کرنے کےلیے باقاعدہ کالم لکھے جاتے ہیں تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ بڑھ چڑھ کر اس رسم بد کے حصہ دار بنیں اور دوسروں کو بنائیں اور اس پر طرہ یہ ہےکہ اسے آج کے دور کا ایک گراں قدر فن کی حیثیت سے متعارف کرایا جاتا ہے، جب کہ ہمارے نبی (ﷺ) نے اپنی امت کو از راہ شفقت مذاق میں بھی جھوٹ بولنے سے منع فرمایا ہے؛ آپؐ کا ارشاد گرامی ہے:

“جو شخص لوگوں کو ہنسانے کےلیے جھوٹ بولے اس کے لیے بربادی ہو، بربادی ہو، بربادی ہو”۔

ہم اور آپ اسی بگڑے ہوئے معاشرہ کا حصہ ہیں اور ہمارے نوجوان اسی کے حصے دار بن کر بےدھڑک اور بےخوف دھڑلے سے جھوٹ پر جھوٹ بول رہے ہیں، ان کے نزدیک مغرب کی پیش کردہ ہر شئی اور ہر مہم میں خود کو حصے دار بنانا کار ثواب سمجھا جانے لگا ہے؛ حالانکہ ایسے لوگوں کو نبی اکرم (ﷺ) کے ان فرامین و ارشادات کو بغور پڑھنا چاہئے اور اپنی آخرت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان امور بد سے بہر صورت احتراز کرنا چاہیے

اللہ کے نبی (ﷺ) کا ارشاد ہےکہ: “کوئی شخص اس وقت تک کمال ایمان حاصل نہیں کر سکتا جب تک کہ مذاق میں بھی جھوٹ بولنے اور جھگڑا کرنے سے باز نہ آجائے؛ نیز آنحضرت نے جنت کی ضمانت لی ہے اس شخص کی جو جھوٹ سے بچتا رہے (حوالہ مذکورہ)

اس لئے آج یکم اپریل؛ جس کو تخریب پسند مغربی ٹولہ نے اپریل فول سے منسوب کر رکھا ہے، اس کا نہ صرف مکمل بائیکاٹ و انقطاع کیا جائے؛ بلکہ جہاں تک ہو سکے اس کی مخالفت کرکے خود کو اس برائی سے دور رکھا جائے اور ساتھ ہی اپنے عزیزوں اور نونہالوں کو سمجھایا جائے کہ آج کی اس رسم بد سے ہمارا یا ہمارے مذہب کا کوئی تعلق و واسطہ نہیں ہے، جھوٹ کی قباحت اور اس کی گندگی سے اپنے بچوں کو متعارف کرایا جائے اور انہیں یہ تاکید بھی کی جائے کہ:

جھوٹ بہر صورت جھوٹ ہے چاہے حقیقت میں بولا جائے یا مذاق میں بولا جائے، ہمیں کسی قیمت پر نہ تو اس کا حصے دار بننا ہے اور نہ ہی اس کے فروغ میں خود کو شامل کرنا ہے اور اپنے نونہال و معصوم بچوں کے ذہن کو حدیث کے اس مفہوم سے پختہ و روشناس کرانا ہےکہ:

جب آدمیوں میں سے کوئی جھوٹ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کلمہ کی بدبو کی وجہ سے جس کا اس نے ارتکاب و تلفظ کیا ہے، رحمت کا فرشتہ اس سے ایک میل دور چلا جاتا ہے”۔ [ترمذی:1972] نیز ایسا آدمی خدا کی رحمت و عنایت سے محروم ہو کر اس کی ناراضگی اور عذاب کا مستحق ہوتا ہے۔

اس لیے جب بھی بولیں سچ بولیں، جھوٹ کبھی نہ بولیں، سچائی انسان کو نجات دلاتی ہے اور جھوٹ انسان کی تباہی و بربادی کا سبب ہوتا ہے، اور یہ بھی بتائیں کہ ایک جھوٹی بات کو سچ کرنے کےلیے سو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں؛ لیکن وہ بات جھوٹی ہی رہتی ہے، جبکہ سچ بول کر آدمی بعد کی تمام پریشانیوں اور الجھنوں سے بچ جاتا ہے پھر کیوں نہ ہم سچ اور سچائی اختیار کرنے والوں کے ہمراہی و رفیق بنیں اور جھوٹ و کذب بیانی کرنے والوں سے کنّی کاٹیں اور ان سے دوری اپنائیں؟؟؟ یہی ہمارے لیے قرآن کا حکم ہے: “کونوا مع الصّادِقین

محمد قاسم ٹانڈؔوی

09319019005)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *