ووٹ جمہوری طاقت ہے ہم اس سے غافل نہیں ہو سکتے
از قلم : محمد مجیب احمد فیضی ،استاذ/دارالعلوم محبوبیہ رموا پور کلاں اترولہ بلرام پور ووٹ جمہوری طاقت ہے ہم اس سے غافل نہیں ہو سکتے
ووٹ جمہوری طاقت ہے ہم اس سے غافل نہیں ہو سکتے
ہم میں بہت سے لوگ ووٹ کی اہمیت وافادیت سے ناآشنا ہیں ۔ کچھ تو ایسے بھی ہیں جو اسے بیکار تصور کرتے ہیں ، اور اس کی تہہ تک پہونچنے اور اس کو سمجھنے کو فضول جانتے ہیں ۔
یہ بڑی کم نصیبی کی بات ہے کہ بر صغیر میں زیادہ تر عوام ووٹ کی اہمیت افادیت سے نا واقف ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے اندر ووٹنگ کے تئیں دل چسپی بہت ہی کم ہے۔
اکثر وبیشتر سرپھروں کو یہ بھی کہتے ہوئے سناگیا ہے کہ میرے ایک ووٹ سے کسی کا کیا ہونے والا ہے ۔نادان انسان!! تیرا ایک ووٹ بہت ہی قیمتی ہے جس کی قیمت کا شاید تجھے اندازہ نہیں ، تجھے یہ بھی نہیں کہ دانہ دانہ ملکر راس کی شکل اختیار کرلیتا ہے ، اور قطرہ قطرہ یکجا ہو کر دریا بن جاتا ہے
حالاں کہ ہم سب کو یہ بات اپنے خیال میں ہمیشہ رکھنا چاہیے کہ اس دور پرفتن میں بھی بے شمار سسکتی ہوئی لاش نما زندگیاں، سینکڑوں ریاستوں کی بقاء ، ملک وملت کا زوال و عروج ، سادہ لوح عوام الناس کی خوش حالی وبد حالی ودیگر امور مثلا تعلیم وتربیت ایک عمدہ اور اچھا نظام ،خوش گوار معاشرہ، پاکیزہ سوسائٹی، بہتر سے بہتر کلچر، نیز کشت وخون کا مکمل خاتمہ ،اور فتنہ وفساد کا سد باب،ان چیزوں کا انحصار ایک جمہوری ملک میں ہر منصب ہر عہدہ کا فیصلہ ووٹ ہی سے کیا جاتا ہے۔ کون حاکم بنے گا اور کوں محکوم ؟ کون PM بنےگا اور کون CM ؟زمام اقتدار کس کے ہاتھ میں جانا چاہیئے اور کس کے ہاتھ نہیں ؟
کام یاب وکامرانی کا سہرہ کس کے سجایا جائے اور کسے نظر انداز کیا جائے؟
پتہ چلا کہ جمہوری وطن میں ووٹ ایک ایسی ناقابل تردید حقیقت کا نام ہے جس کی اہمیت وافادیت سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہیے۔
جمہوری ملک میں ووٹ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ وطن عزیز ہندستان کا آئین ہمیں یہ پورا َحق دیتا ہے کہ کرسئ اقتدار پر کس کو بٹھانا ہے ،ملک سے محبت کرنے والے کو یا ملک کے دشمن غدار شخص کو، انتہائی تکلیف تب ہوتی ہے جب انسان وقتی مفاد کی خاطر تھوڑے سے لالچ اور جھانسے میں آکرالیکشن میں غلط امیدوار کو ووٹ دے کراپنا سیاسی لیڈر انتخاب کرتا ہے جس کا خمیازہ اسے الیکشن کے بعد پانچ برس تک جھیلنا پڑتا ہے۔اس کے اپنے حقوق بھی خطرے میں آجاتے ہیں۔
مرے عزیزو!!
ووٹ ایک قیمتی امانت ہے جس کے ذریعہ آپ اپنا اور اپنے ملک کا مستقبل تابناک بنا سکتے ہیں اور چاہیں تو تاریک بھی بنا سکتے ہیں۔ ووٹ ہماری آئینی حقوق ہونے کے ساتھ ہمارے ہندوستانی ہونے کا صحیح ثبوت ہے۔ ووٹ سیاسی لیڈران کو اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ ووٹ کے مادھم سے اصل طاقت عوام کے پاس ہے
وہ جسے چاہیں کرسی پر بٹھادیں اور جسے چاہیں اتاردیں، انہیں رائے دہی کا مکمل حق جو حاصل ہے ۔ پانچ سال میں ادلنے بدلنے والی حکومتوں کا انتخاب عوام کے ووٹ ہی سے ہوتا ہے ۔
بلکہ یوں کہا جائے کہ ووٹ ایک ایسا مضبوط ہتھیار ہے جو تشدد جیسی صفت نقصان سے خالی عاری ہے اس لیے ہر ناگرک ہر شہری کو وقت آنے پر اس کا صحیح استعمال ضرور کرنا چاہیے۔
تاریخ شاہد ہے کہ عوام نے اپنے ووٹوں کے ذریعہ نہ صرف سپید وسیاہ کے فرق میں اہم کردار ادا کیا ہے بلکہ ظلم وستم کی وحشت ترین تاریکی میں سپیدۂ سحر کا اعلان بھی کیا ہے۔ کیوں کہ جمہوری ملک میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ اور وطن عزیز ہندوستان چوں کہ سب سے بڑا جمہوری ملک ہے ۔
اس لیے الیکشن قریب آتے ہی چناوی سرگرمیاں شروع ہوجاتی ہے۔ جس کے ذریعہ حکومتیں بنتی اور بگڑتی ہیں اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ہی سب کا ایک ایک ووٹ کن اہمیت وافادیت کا حامل ہے۔
لیکن افسوس کہ آج کچھ لوگ اپنے آپ کو اس میدان سے بہت دور اور کنارہ کش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اور شاید تمام وجوہات میں سے ایک یہ خاص وجہ ہے کہ موجودہ دور میں آہستہ آہستہ سیاسی شعور و آگہی ہم سے تقریبا ختم ہوتی جارہی ہے، جو اپنے آپ میں مقام افسوس ہے۔
جب سے مرکز اور صوبہ میں 2014/سے لے کر اب تک بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت آئی ہے بلا تفریق مذہب وملت اہل وطن کو بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کو کن کن پریشانیوں سے دو چار ہونا پڑا ہے شاید ہی کسی باشعور سے مخفی ہو۔فرقہ پرست طبقہ نے اقلیتی طبقہ کے لوگوں کو اپنے ظلم وستم کا نشانہ بنایا۔
عام انسان کا جینا دشوار ہو گیا ہے۔اس کے خون کی کوئی قیمت نہیں پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔ کبھی لو جہاد اور گھر واپسی جیسے ایسوز کو لے کر ہمارے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کرکے ہماری شبیہ گندی کی گئی اور آپس میں ایک دوسرے کے تئیں مخالفت ومنفرت کو جنم دیا گیا،تو کبھی caa اور nrc جیسے قوانین کے ذریعہ ہماری شہریت اور ناگرکتا کو ختم کرنے کی ناپاک کوشش کی گئی
یہ اور بات ہے سوائے ذلت ورسوائی کے کچھ ہاتھ نہ آیا ،تو کبھی مسلم حجاب پر پابندی لگانے کی کوشش کی گئی،ابھی حال ہی میں کرناٹک کے اڈویپی میں ایک مسلم باحجاب اسٹوڈنس کو کلاس میں بیٹھنے سے روکر جمہوریت کا جنازہ نکالا گیا۔اور افسوس صد افسوس کہ یہ سب ایک جمہوری ملک میں ہو رہا ہے۔
مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ۔غریب ونادار طبقہ کے لوگوں جینا مشکل ہو گیا ہے ۔ریزوریشن کو مکمل ختم کرنے کا پلان کیا جارہا ہے۔عام انسان کے حقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔ جگہ بہ جگہ ہندو مسلم کےمدے کو گرما گرم کرکے عوام کو مشتعل اور گمراہ کرنے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے۔
کبھی مندر مسجد کے مدعے کو اٹھا کر ہندوستانیوں کو آپس میں لڑانے کی شازش رچی جارہی ہے۔ نوکری کے مطالبہ پر اسٹوڈنس کو پولیس کے ذریعہ پٹوایا جارہا ہے۔ انہیں اپنے حقوق مانگنے پر سب وستم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
جھوٹ بول بول کر عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے۔جھوٹ پر مشتمل تسکین کے لمبے لمبے جملے بکے جارہے ہیں۔ زعفرانی اوربھگوا دھاری حکومت میں ہرشخص خائف اور سہما ہوا ہے۔
گریجویٹ نوجوان طبقہ پکوڑے اور چائے بیچنے پر کافی حد تک مجبور ہے۔ کرونا کے مادھم سےمدارس کو بند کروایا جارہا ہے، بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کرکے انہیں جاہل بنانےکی بڑی باریک چال چلی جارہی ہے۔ اور کتنی تفصیل بتلاؤں جانے دیجیےجتنی بھی تفصیل بتاؤں گا اس سے اپنے وطن اور اہل وطن کا چہرہ داغ داراور شبیہ گندی ہوگی۔
دیکھیے!میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ آج جب الیکشن دن بہ دن قریب آجاتا ہے تو ہر سیاسی لیڈر کا یہ دعوی ہوتا ہے کہ اس کے پاس عوام کے مسائل کا مکمل حل موجود ہے، لہذاووٹر کی شکل میں انہیں ووٹ دے کر منتخب کیا جائے ،انہیں کامیاب بنایا جائے،کیوں کہ وہ سیاسی کام یابی کے بعد چٹکیوں میں عوام کے مسائل کا حل نکال لیں گے۔جبکہ عوام اپنی تقدیر پر متحیر ومتعجب ہے
آخرکب تک سیاسی لیڈران ان کے تقدیر کے ساتھ مذاق کرتے رہیں گے؟
کب تک انہیں ووٹ کے تقدس پر لوٹا جاتا رہے گا ؟ آخر کب تک؟
کب تک ان کے ساتھ مشق دہراتی جاتی رہے گی؟
منتخب نمائندوں کی طرف سے مکمل جھوٹے وعدے ،کھوکھلے نعرے بازیوں اور دعؤوں کی وجہ سے آج عوام میں ووٹ کی اہمیت افادیت تقریبا ختم ہو چکی ہے۔
اسی لیے لوگ سیاسی انتخابی محافل اور ریلیوں میں رسما شرکت کرتے ہیں۔سیاسی لیڈران کی اگر ہم بات کریں تو وہ بھی بڑے ہوشیار ہوتے ہیں انہیں یہ پتہ ہوتا ہے کہ عوام کالانام ہے، ان کا حافظہ بڑا کمزور ہوتا ہے،اس لیے اس بار بھی ہر بار کی طرح انتہائی شریرانہ
باریک اور شاطرانہ چال چل کر عوام کو بہکانے اور ان پر وعدوں کا نیا جال بننے، دعؤوں کا خوشنما دکان سجانے، اپنی جھانس میں پھنسانے میں وقتی طور پر کامیاب ہوجاتے ہیں، تعلیم یافتہ معاشروں میں وہاں کی عوام کو اس بات کا بخوبی احساس ہوتا ہے کہ ان کا ایک ووٹ ملک کے مستقبل کی تابناکی میں کس قدر اہمیت کا حامل ہے،ان کی ہلکی پلکی چونک کتنے بھیانک نتائج کا سبب بن سکتی ہے یقینا بہترین طرز حکمرانی اور جمہوریت ہی عوام کے تمام مسائل کا حل ہے۔
سسٹم کو برا بھلا کہنے ، اسے کوسنے کے بجائے سسٹم کو موثراور فعال بنائیں۔ جمہوری نظام میں جو کمیاں ہیں انہیں دور کرنے کے لئے ہر محب وطن اپنا اپنا کردار ادا کرے۔ استعمال ہونے کے بجائے اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کریں۔یقین کریں حالات خود ہی بدل جائیں گے بس تھوڑا اپنے آپ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
شعر
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا تو نہ بن اپنا تو بن
faizimujeeb46@gmail.com
از قلم : محمد مجیب احمد فیضی
استاذ/دارالعلوم محبوبیہ رموا پور کلاں اترولہ بلرام پور
Pingback: حسد کی تباہ کاریاں اور ہمارا معاشرہ ⋆ اردو دنیا ⋆ از : محمد مجیب احمد فیضی