قربانی اور زکات کے درمیان کیا فرق ہے

Spread the love

قربانی اور زکوٰۃ کے درمیان کیا فرق ہے ؟

شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی

امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار

قربانی ہر اس مسلمان عاقل، بالغ مقیم پر واجب ہوتی ہے جس کی ملک میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کا مال اس کی حاجت اصلیہ سے زائد موجود ہو یہ مال خواہ سونا چاندی یا اس کے زیورات ہوں، یا مال تجارت یا ضرورت سے زائد گھریلو سامان، یا مسکونہ مکان سے زائد کوئی مکان، پلاٹ وغیرہ (فتاویٰ شامی )

قربانی کے معاملے میں اس مال پر سال بھر گزرنا بھی شرط نہیں ( بدائع الصنائع ) بچہ اور مجنون کی ملک میں اگر اتنا مال ہو بھی تو اس پر یا اس کی طرف سے اس کے ولی پر قربانی واجب نہیں ( بدائع الصنائع )۔

اسی طرح جو شخص شرعی قائد کے موافق مسافر ہو اس پر بھی قربانی لازم نہیں ( فتاویٰ شامی)

جس شخص پر قربانی لازم نہ تھی اگر اس نے قربانی کی نیت سے کوئی جانور خرید لیا تو اس پر قربانی واجب ہوگی (عالمگیری)

وجوب قربانی کا نصاب

سونا چاندی اور دیگر گھریلو سامان خواہ استعمال ہونے والا ہو یا نہ ہو ان سب کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کو پہنچ جائے تو اس پر قربانی واجب ہے ( حاشیہ ردالمختار )

قربانی اور زکوٰۃ کے درمیان کیا فرق ہے ؟

زکات بھی صاحب نصاب پر واجب ہوتی ہے اور قربانی بھی صاحب نصاب ہی پر واجب ہے مگر دونوں کے درمیان دو وجہ سے فرق ہے ایک یہ کہ زکوٰۃ کے واجب ہونے کے لیے شرط ہے کہ نصاب پر سال گزر گیا ہو جب تک سال پورا نہیں ہوگا زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی ( در مختار)

قربانی کے واجب ہونے کے لیے سال کا گزرنا کوئی شرط نہیں بلکہ اگر کوئی شخص عین قربانی کے دن صاحب نصاب ہو گیا تو اس پر قربانی واجب ہے ( فتاویٰ عالمگیری)

جب کہ زکات سال کے بعد واجب ہوگی ۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ زکات کے واجب ہونے کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ نصاب” نامی” ( بڑھنے والا) ہو شریعت کی اصطلاح میں سونا چاندی نقد روپیہ مال تجارت اور چرنے والے جانور مال نامی کہلاتے ہیں ( تنویر الابصار)

اگر کسی کے پاس ان چیزوں میں سے کوئی چیز نصاب کے برابر ہو اور اس پر سال بھی گزر جائے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔ مگر قربانی کے لیے مال کا نامی ہونا بھی شرط نہیں ۔مثال کے طور پر کسی کے پاس اپنی زمین کا غلہ اس کی ضروریات سے زائد ہے اور زائد ضرورت کی قیمت

2625 روپے کے برابر ہے چونکہ یہ غلہ مال نامی نہیں اس لیے اس پر زکوۃ واجب نہیں چاہے سال بھر پڑا رہے لیکن اس پر قربانی واجب ہے ( فتاویٰ عالمگیری) ۔

میاں بیوی میں سے کس پر قربانی واجب ہے ؟ اگر میاں بیوی دونوں صاحب نصاب ہوں تو دونوں پر الگ الگ قربانی واجب ہے (حاشیہ ردالمختار)

گھر کا سر براہ جس کی طرف سے قربانی کرے گا ثواب اسی کو ملے گا گھر کا سربراہ اگر قربانی کرتا ہے تو قربانی کا ثواب صرف اسی کو ملے گا دوسرے لوگوں کو نہیں اگرچہ وہ اس کی کفالت میں ہی کیوں نہ ہو۔

گھر کا سربراہ اگر اپنی طرف سے قربانی کرنے کے بجائے اپنے گھر والوں میں سے کسی کی طرف سے قربانی کرتا ہے تو جس کی طرف سے قربانی کر رہا ہے اس کی طرف سے تو قربانی صحیح ہو جائے گی اور ثواب بھی اسی کو ملے گا چاہے جس کی طرف سے قربانی کی جا رہی ہے اس پر قربانی واجب ہو یا نہیں۔ لیکن گھر کے سربراہ کے سلسلے میں دو صورتیں ہیں

پہلی صورت یہ ہے کہ اگر سربراہ پر بھی قربانی واجب ہے تو اب سربراہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی طرف سے مستقل قربانی کرے اور نہ کرنے کی صورت میں گناہ گار ہو گا کسی دوسرے کی طرف سے قربانی کرنے سے اپنا ذمہ ساقط نہیں ہوتا ( بدائع الصنائع)

دوسری صورت یہ ہے کہ سربراہ پر شرعی طور پر قربانی واجب نہیں ہے لیکن وہ کسی دوسرے کی طرف سے قربانی کرتا ہے تو اس صورت میں جس کی طرف سے قربانی کی ہے اس کی طرف سے قربانی صحیح ہو گی اور گھر کے سربراہ پر چونکہ قربانی واجب نہیں تھی اس لیے اس کو مستقل قربانی کی ضرورت نہیں ( الفقہ الاسلامی)۔

قربانی کے بدلے میں صدقہ و خیرات کرنا ۔

اگر قربانی کے دن گزر گئے ناواقفیت یا غفلت یا کسی عذر سے قربانی نہ کر سکا تو قربانی کی قیمت فقراء و مساکین پر صدقہ کرنا واجب ہے ( بدائع الصنائع)

لیکن قربانی کے تین دنوں میں جانور کی قیمت صدقہ کردینے سے یہ واجب ادا نہ ہوگا ہمیشہ گناہ گار رہے گا کیوں کہ قربانی ایک مستقل عبادت ہے جیسے نماز پڑھنے سے روزہ اور روزہ رکھنے سے نماز ادا نہیں ہوتی زکوٰۃ ادا کرنے سے حج ادا نہیں ہوتا ایسے ہی صدقہ خیرات کرنے سے قربانی ادا نہیں ہوتی رسول کریم ﷺ کے ارشادات اور تعامل اور پھر اجماع صحابہ اس پر شاہد ہیں ( بدائع الصنائع)

اور جس کے ذمہ قربانی واجب نہیں اس کو اختیار ہے خواہ قربانی کرے یا غریبوں کو پیسے دے دے لیکن دوسری صورت میں قربانی کا ثواب نہیں ہوگا صدقے کا ثواب ہوگا ۔ قربانی کا جانور اگر فروخت کردیا تو رقم کو کیا کرے ؟

رقم صدقہ کر دے اور استغفار کرے اور اگر اس پر قربانی واجب تھی تو پھر دوسرا جانور خرید کر قربانی کے دنوں میں قربانی کرے (ردالمختار)

قربانی کا جانور گم ہو جائے تو کیا کرے ؟

جس شخص پر قربانی واجب تھی اگر اس نے قربانی کا جانور خرید لیا پھر وہ گم ہوگیا یا چوری ہو گیا یا مر گیا تو واحب ہے کہ اس کی جگہ دوسری قربانی کرے اگر دوسری قربانی کرنے کے بعد پہلا جانور مل جائے تو بہتر یہ ہے کہ اس کی بھی قربانی کردے لیکن اس کی قربانی اس پر واجب نہیں اگر یہ غریب ہے جس پر پہلے سے قربانی واجب نہیں تھی نفلی طور پر اس نے قربانی کے لیے جانور خرید لیا پھر وہ مر گیا یا گم ہو گیا تو اس کے ذمہ دوسری قربانی واجب نہیں۔

ہاں اگر گم شدہ جانور قربانی کے دنوں میں مل جائے تو اس کی قربانی کرنا واجب ہے اور ایام قربانی کے بعد ملے تو اس جانور کا یا اس کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے بدائع الصنائع)

گابھن جانور کی قربانی کرنا ۔

گابھن گائے وغیرہ کی قربانی جائز ہے دوبارہ قربانی کرنے کی ضرورت نہیں بچہ اگر زندہ نکلے تو اس کو بھی ذبح کر لیا جائے اور اگر مردہ نکلے تو اس کا کھانا درست نہیں اس کو پھینک دیا جائے بہرحال حاملہ جانور کی قربانی میں کوئی کراہت نہیں (در مختار)

اگر قربانی کے جانور کا سینگ ٹوٹ جائے ؟

سینگ اگر جڑ سے اکھڑ جائے تو قربانی درست نہیں (فتاویٰ عالمگیری)۔

اور اگر اوپر کا خول اتر جائے یا ٹوٹ جائے مگر اندر سے گودا سالم ہو تو قربانی درست ہے (رد المحتار)

کیا مقروض پر قربانی واجب ہے ؟

اگر قرض ادا کرنے کے بعد اس کی ملکیت میں ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت حاجات اصلیہ سے زائد موجود ہو تو قربانی واجب ہے ورنہ نہیں (فتاویٰ شامی) نابالغ بچے کی قربانی اس کے مال سے جائز نہیں ۔ نابالغ بچے کے مال پر نہ زکوۃ فرض ہے ( ھدایۃ)

نہ قربانی واجب ہے اس لیے ولی کو ان کے مال سے زکوۃ اور قربانی کی اجازت نہیں (بدائع الصنائع)

البتہ ان کے مال سے ان کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرے اور ان کی دیگر ضروریات پر خرچ کرے (الدر المختار مع الرد المختار)

قربانی کا گوشت ۔

قربانی کا گوشت اگر کئی آدمیوں کے درمیان مشترک ہو تو اس کو اٹکل سے تقسیم کرنا جائز نہیں بلکہ خوب ا حتیاط سے تول کر برابر حصہ کرنا درست ہے ہاں اگر کسی کے حصے میں سر اور پاؤں لگا دیئے جائیں تو اس کے وزن کے حصے میں کمی جائز ہے (حاشیہ ردالمختار)

قربانی کا گوشت خود کھا ۓ دوست احباب میں تقسیم کرے غریبوں مسکینوں کو دے اور بہتر یہ ہے کہ اس کے تین حصے کرے ایک اپنے لئے ایک دوست احباب اور عزیز و اقارب کو ہدیہ دینے کے لیے اور ایک ضرورت مند ناداروں میں تقسیم کرنے کے لئے الغرض کم از کم تہائی حصہ خیرات کر دے لیکن اگر کسی نے تہائی سے کم گوشت خیرات کیا باقی سب کھا لیا یا عزیز و اقارب کو دے دیا تب بھی گناہ نہیں (حاشیہ رد المحتار)

قربانی کے خون میں پاؤں ڈبونا ۔

یہ خون نجس ہوتا ہے اور نجاست سے بدن کو آلودہ کرنا دین و مذہب کی رو سے عبادت نہیں ہو سکتا اس لیے یہ اعتقاد گناہ اور یہ فعل نا جائز ہے (حلبی کبیر)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *