مقصد زندگی جینے کی آرزو اور منزل

Spread the love

مقصد زندگی جینے کی آرزو اور منزل

ہم کسی ایک زمانے میں آنے والے زمانے کے لیے اپنا کوئی مقصد زندگی بناتے ہیں تاکہ وہ آسانی سے گزرے لیکن جب وہ زمانہ آتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ جس زمانے کا انتظار تھا وہ نہیں آیا بلکہ کچھ اور ہی آگیا۔ اس طرح مقصد کا حصول بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔

جوانی کے دور میں ہم یہ سوچتے ہوئے سرکاری ملازمت اختیار کرتے ہیں کہ بڑھاپا آسانی سے گزرے لیکن ریٹائرمنٹ کے وقت ہمیں معزولی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ سرکاری نظام کا مصنوعی ڈسپلن ہماری توانائیاں ،رعنائیاں فنا کر چکا ہوتا ہے۔ پنشن سے گزر نہیں ہوتی، نہ نیا مکان بنا سکتے ہیں نہ سرکاری مکان میں رہ سکتے ہیں۔

دور سے خوبصورت نظر آنے والا چاند قریب جا کر تاریک اور بھیانک نظر آنے لگتا ہے۔ہم تعلیم حاصل کرتے ہیں تاکہ ڈاکٹر اور انجنئیر بنیں لیکن ڈگری لینے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ نوکری کا حصول ،تعلیم سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ نوکری کے حصول کے دوران بہت سے ڈاکٹر خود نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔

زندگی کا مقصد بنانا ایک طرح سے اپنی آزادی کا اعلان ہے کہ ہم جو چاہیں بن سکتے ہیں اور جو چاہیں راستہ اختیار کر سکتے ہیں لیکن راستے بنانے والے نے ہمارے لئے کچھ اور ہی سوچ رکھا ہوتا ہے۔ عام طورپر آزاد راستےکسی پابند منزل تک ہی پہنچتے ہیں۔

انسان کی آزادی صرف اسکا احساس ہے، خوش فہمی یا غلط فہمی ہے۔ ہم جو کچھ بھی کر لیں زندگی کو ناگہانی سے نہیں بچا سکتے۔ ہم خوبصورت شہر، شفاف سڑکیں، کارخانے، ملیں اور بہت کچھ بنا سکتے ہیں لیکن قبرستان بنانا بھی ہماری مجبوری ہے۔ ہم زندگی گزارنے کا اپنا کچھ بھی پروگرام بنا لیں لیکن ضروری نہیں کہ زندگی اس پروگرام کے تحت گزرے۔

مقصد کا تعین کرنے سے پہلے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ زندگی ہماری اپنی نہیں بلکہ کسی اور ذات کی عطا ہے۔

جس نے زندگی اور صلاحیتیں عطا کی ہیں اسکا بھی کوئی پروگرام ہے۔ ہماری زندگی میں ہمارا سماج اور دین بھی شامل ہے اور یہ سماج اور دین ہم نے نہیں کسی اور نے بنایا ہے۔ ہم مجبوریوں کو دور کرنے میں لگے رہتے ہیں اور ہر مجبوری دور ہوتے ہی ایک نئی مجبوری پیدا ہوجاتی ہے۔

زندگی ریاضی کا سوال نہیں جس کا صرف ایک جواب ہو، یہ ایک ایسا معمہ ہے جس کا کوئی فارمولا نہیں۔ ہم سماج میں مرتبہ چاہتے ہیں لیکن عام طورپرصاحبان مرتبہ کا کردار وہ نہیں ہوتا جو ہونا چاہیے۔

سیاست، کاروبار، تعلیم الغرض ہر میدان زندگی میں جن صاحبان مرتبہ کے پاس دولت کی فراوانی نظر آتی ہے انہیں اگر قریب سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انکی یہ دولت جائز طورپر نہیں کمائی گئی۔ اگر ہماری زندگی کا مقصد دولت کا حصول ہے تو پھر اس کے کئی راستے ہو سکتے ہیں۔

اس میں چوری ، ڈاکہ، رشوت اور دولت جمع کرنے کا ہر طریقہ جائز ہوجائے گا لیکن اگر زندگی کا مقصد دیانتداری ہو تو نتیجہ دشواری بھی ہو سکتا ہے۔

مغربی تہذیب کا مقصد زندگی دولت اور دنیا کا حصول اورانہوں نے اپنے پاس طاقت، خزانے اور خزانوں کا علم جمع کر لیا ہے۔ اگر ہم بھی دولت اور دنیا چاہتے ہیں تو ہمارے پاس نہ طاقت ہے ، نہ خزانے اور نہ خزانوں کا علم۔ ہم صرف پیسوں کی تمنا میں سرگرداں ہیں، دلوں میں خوف ہے اور دین سے بھی تہی دامن ہوتے جا رہے ہیں۔

رب کو ماننے والوں کو رب کے بتائے ہوئے مقصد سے ہم آہنگ بھی ہونا چاہیے۔ اللہ نے تو جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت اوراپنے احکام کی بجا آوری کیلئے پیدا کیا لیکن ہمارے پاس اللہ کی عبادت اور اسکے احکامات ماننے کا وقت ہی نہیں۔ ہم صبح سے شام جن کاموں میں مصروف ہیں انکا دین سے کوئی تعلق نہیں، ہم قرآن کی تلاوت کے بجائے اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں۔

ہم خدمت خلق کے بجائے سارا وقت کاروبار میں لگاتے ہیں۔ ہم اپنے ملک کے دفاع کیلئے بھی جو اسلحہ استعمال کرتے ہیں وہ غیر مسلموں کا بنایا ہوا ہے۔ ہم یہودیوں کی بنائی ہوئی کاروں میں بیٹھتے وقت بسم اللہ پڑھ لینا کافی سمجھتے ہیں۔ اس سے ہمارا ذاتی مقصد زندگی تو آسودہ ہو سکتا ہے لیکن اجتماعی اور ملی مقصد زندگی کامیابی سے سرانجام نہیں پا سکتا۔

اگر ذاتی مقصد ملی مقصد سے متصادم ہو تو بے معنی اور اگر دینی مقصد سے مختلف ہو تو بھی بے مقصد ہے۔ لہذا مقصد زندگی تجویز کرنے والے بڑوں کو فکر و تدبر سے کام لینا چاہیے تاکہ طالب علموں کیلئے ایک کامیاب زندگی کا حصول ممکن ہو اور کامیاب قوم کا حصول بھی۔ ورنہ ذاتی کامیابیاں اجتماعی ناکامی کا باعث ہو سکتی ہیں۔

اگر سب لوگ ملک کو اپنے لئے استعمال کریں گے تو وہ لوگ کہاں سے آئیں گے جو ملک کے لئے استعمال ہوں۔ پروفیشنز کی وبا سے متاثر لوگ انفرادی کامیابی کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ یہ لوگ مال جمع کرکے گنتے رہتے ہیں اور اس کا نتیجہ کھولتی ہوئی آگ ہے!

ملک کی ترقی کے لیے مضبوط کردار، بامقصد قوم اور لگن درکار ہے جس میں اللہ کے فرمان بھی پورے ہوں اور ہمیں اس دنیا کے معیار مطابق ترقی بھی حاصل ہو۔

ملک کو قربانیاں دینے والے مضبوط بناتے ہیں، آسائشیں حاصل کرنے والوں سے ملک مضبوط نہیں ہوتا۔

ملک کی خدمت جلسے جلوسوں سے نہیں ہوتی، یہ مسلسل بیداری، مثبت سوچ اور پوری قوم کو وحدت میں پرونے سے حاصل ہوتی ہے۔ جب تک وحدت کردار حاصل نہ ہو وحدت مقصد حاصل نہیں ہو سکتی۔ سماج کی برائیاں ہر کوئی بیان کر رہا ہے لیکن آگے بڑھ کر کوئی انہیں دور کرنے کا ارادہ تک بیان کرنے کو تیار نہیں۔

مادی ترقی ایک جہاز کی مانند ہے جو پانی پر تیرتا ہے، ڈوبتا نہیں لیکن اسے معلوم نہیں کہ جانا کہاں ہے؟

بے سمت ترقی اور بے جہت مسافرت بے معنی سفر ہے۔ مقصد زندگی کا انتخاب کرتے وقت صرف یہی نہیں دیکھنا کہ پیسہ کیسے بنایا جائے بلکہ یہ بھی سوچنا ہے کہ اس ملک کے عوام کی خدمت کیسے کی جائی اور چند روزہ زندگی میں ہم اپنے مالک کو کس طرح راضی کر سکتے ہیں۔

ہمیں ایسی زندگی چاہیے جس میں ہم بھی خوش رہیں، ملک کو عروج حاصل ہو اور ہمارا اللہ بھی راضی رہے۔

یہ بات عام انسانی سمجھ سے بالاتر ہے کہ انسان ہار جائے اور مقصد جیت جائے۔ اکثر ہارنے والوں نے منزلوں کو جیتا ہے۔ میدان کربلا میں حق والے جنگ ہار گئے مگر مقصد جیت لیا۔ امام عالی مقامؑ اپنے پیاروں کے ساتھ قربان ہوئے اور اسلام زندہ ہوا۔ قربانی اور خودکشی میں بڑا فرق ہے۔

خودکشی کرنے والے برباد ہوجاتے ہیں اور قربانی دینے والے شادابی منزل میں پہنچا دیئے جاتے ہیں۔ منزلوں پر پہنچنے والے بہت بڑے انتظامات کے قائل نہیں ہوتے، وہ ایک جذبے کے تحت سفر کرتے ہیں۔

وہ صاحبان یقین ہوتے ہیں، راستے میں دم توڑ جائیں تو بھی دامن محبوب نہیں چھوڑتے۔

منزل فاصلے کی لمبائی یاکسی قابل دید منظر کا نام نہیں بلکہ یہ وہ روشن نکتہ ہے جو انسان کے اندر موجود ہوتا ہے اور اس کے حصول کا عرفان ہی حصول منزل کہلاتا ہے۔ اگر یہ انداز نظر مل جائے تو پھر ہر ذرے میں آفتاب نظر آتا ہے، ہر قطرہ قلزم کو جنم دیتا ہے۔ فرد محض فرد ہی ہے لیکن اس سے ملتوں کا ظہور ہوتا ہے۔

فرد اس کائنات کے عظیم فنکار کا شاہکار ہے اور اس فنکار کی تلاش ہی اسکا مقصد زندگی ہے اور وہی اسکی منزل ہے۔ وہ ذات لامحدود اور لافانی ہے لیکن ہر جگہ، ہر مقام پر موجود ہے۔

کسی نے اسے آنکھ کے پردے میں دیکھا، کسی نے پردے سے باہر، کسی نے صحرائوں میں، کسی نے گلی کوچوں میں۔ کچھ لوگ خاموش رہ کر وہ مقام پاگئے، کچھ گویائی کے چراغ جلا کر روشن چراغ ہوگئے، کچھ محبوب بنا دئے گئے ، کچھ محب بنا دئے گئے۔ اس ذات کی طرف سے ملنے والی ہر شے اعجاز منزل ہے۔

مقصد سے حاصل تک سارا سفر ، تمام کیفیات، تمام تکلیفیں اور آسائشیں منزل ہی ہیں۔ نیت بھی منزل ہے، عزم سفر بھی منزل، سفر بھی منزل ہے ، ہم سفر بھی منزل اور رہنمائے سفر بھی منزل۔ منزلوں کے راستوں پر ایک ایک نقش قدم نشان منزل ہے۔ منزل کسی فارمولے سے حاصل نہیں ہوتی، یہ منزل دینے والے کا احسان ہے۔ یہ منزل کا کمال ہے کہ وہ اپنے مسافروں کو اپنے حضور طلب کرتی رہتی ہے۔

خود ہی ان میں ذوق پیدا کرتی ہے، خود ہی سفر کا انتظام کرتی ہے اور خود ہی ہم سفری کے فرائض ادا کرتی ہے۔ کسی نے دار پر چڑھ کر منزل کا جلوہ دیکھا کوئی راہ فراق میں واصل منزل ہوا۔

اس راستے میں جو بظاہر محروم منزل نظر آتے ہیں وہ محروم نہیں بلکہ ہمارے ادارک سے باہرہیں۔ یہ زندگی اللہ کا احسان ہے اگر اسے محسن کے نام پر گزارا جائے تو منزل حاصل ہوگئی۔ وہ عطا فرما دے تو اسکا شکریہ اور وہ واپس لے لے تو بھی اس کا شکریہ۔ جو ملا اسکا شکریہ اور جو نہیں ملا وہ ہمارا تھا ہی نہیں۔

ہم اپنا پروگرام کیوں بنائیں جب کہ یہ کسی اور پروگرام ہے۔ کیوں نہ ہم یہ زندگی عطا کرنے والے محسن کی معرفت حاصل کریں، اس کے مقصد، اس کی منشاء اور اس کی رضا پر راضی رہیں۔ اس کی جانب سفر ہی ہمارا مقصود زندگی اور منزل ہے۔

وہ ہمیں اس سفر کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین (ماخوذ: حرف حرف حقیقیت، واصف علی واصف)

30 thoughts on “مقصد زندگی جینے کی آرزو اور منزل

Leave a reply

  • Default Comments (30)
  • Facebook Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *