موجودہ مرکزی قیادت کو اچھے ناموں سے یاد نہیں کیا جائے گا

Spread the love

ہوش کے ناخن لیجیے جنابہندوستان کی سیاسی تاریخ میں موجودہ مرکزی قیادت کو اچھے ناموں سے یاد نہیں کیا جائے گا

ڈاکٹر غلام زرقانی

مذہب وملت ، رنگ ونسل اور زبان وبیان سے قطع نظر روئے زمین پر انسان دو قسم کے ہوتے ہیں ؛ ایک یہ کہ اگر کوئی شخص کسی بڑے عہدے پر پہنچ جائے اور اسے قوم عزت کی نگاہ سے دیکھنے لگے ، توعام طورپر اس کی دوسری خواہش یہ ہوتی ہے کہ لوگ اسے مرنے کے بعد بھی اچھے الفاظ میں یاد رکھیں ۔

اور دوسری قسم اُن ناعاقبت اندیشوں کی ہے ، جنھیں دنیا میں قدر ومنزلت اور شہرت وناموری ملنے کے باجود اِس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ اُن کے مرنے کے بعد دنیا انھیں کس طرح یاد کرے گی، وہ سارے اخلاقی ضابطے اور دنیاوی رواداری کی حدیں توڑتے ہوئے ، صرف آگے بڑھنے پر یقین رکھتے ہیں ، بلکہ سچی بات یہ ہے کہ عارضی کامیابی کے حصول کے لیے یہ لوگ ظلم وستم ، تشدد وزیادتی اور تمام تراوچھے ہتھکنڈے تک بروئے کار لانے میں کسی طرح کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ۔

مجھے یقین کامل ہے کہ متذکرہ بالا مفروضات کے تناظر سے میری مراد آپ پر دوپہر کی دھوپ کی طرح عیاں ہوچکی ہے اور وہ یہ ہے کہ موجودہ مرکزی قیادت پہلی قسم میں کسی زوایے سے داخل ہونے کے لائق نہیں رہ گئی ہے ،بلکہ آثار وقرائن اور شواہد ومعلومات چیخ چیخ کر دوسری قسم میں سرسے پیر تک ان کے ڈوب جانے کی گواہی دے رہے ہیں ۔

آگے بڑھنے سے پہلے چند جھلکیاں ملاحظہ کرلیجیے ، تاکہ بات اچھی طرح صاف ہوجائے ۔ کوئی شک نہیں کہ ہندوستان روئے زمین پر سب سے بڑا جمہوری ملک سمجھا جاتاہے اور یہ آبادی کے لحاظ سے ہے بھی ، تاہم گذشتہ چار پانچ سالوں سے یہ’ امتیازی شرف ‘ بری طرح خطرے کی زد میں ہے ۔

 

جمہوری تقاضے برسرعام پارٹی کے ذاتی مفادات کی چوکھٹ پر قربان کیے جارہے ہیں ۔ مثال کے طورپرسابقہ انتخابات میں کانگریس پارٹی گوا میں سب سے بڑی پارٹی رہی ،لیکن اسے حکومت بنانے کی مہلت ہی نہیں دی گئی ۔

مدھیہ پردیش میں کانگریس پارٹی کی حکومت بنی ، لیکن اِسی پارٹی کے ایک قد آور لیڈرکو راجیہ سبھاکی نشست دے کر ان کےکئی حمایتی ایم ایل اے اپنے خیمے میں کر لیے گئے اور کانگریس حکومت ختم ہوگئی ۔ مہاراشٹر میں بھی شیوسینا کے کچھ ایم ایل اے الگ کرلیے گئے اور وہاں بھی مہاوکاس اگاڑی کی حکومت ختم کردی گئی ۔

بہار میں بھی بالکل یہی سازش تیار کی جارہی تھی کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو بھنک لگ گئی اور بازی پلٹ گئی۔ کرناٹک میں بھی کانگریس کی حکومت گراد ی گئی ۔ اسی طرح راجستھان اورجھارکھنڈ میں بھی صوبائی حکومتوں کوگرانے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے اپنائے جارہے ہیں ۔

یعنی جہاں بھی بائیں محاذ کی صوبائی حکومتیں ہیں ، وہاں مرکزی حکومت ہر طرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے، تاکہ کسی بھی طرح وہاں اپنی حکومت بن جائے ۔

اسی طرح یہ خبر اب ہندوستان کی سرحدوں سے نکل چکی ہے کہ مرکزی حکومت اپنے ذاتی مفادات کے لیے مرکزی ایجنسیوں کا بے دریغ استعمال کررہی ہے ۔

کہا جارہاہے کہ بی جے پی اپنے سیاسی مخالفین کی ساکھ عوام کے درمیان خراب کرنے کے لیے ای ڈی اور سی بی آئی بھیج رہی ہے ، تاکہ انھیں خوفزدہ کرکے انھیں اپنی حمایت کے لیے تیار کرے اور بظاہر اس مقصد میں جزوی کامیابی ماتھے کی آنکھ سے دکھائی بھی دے رہی ہے ۔

ویسے غیر جانبداری کے ساتھ ہندوستانی سیاسی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تویہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ مرکزمیں برسراقتدار رہنے والی تمام سیاسی پارٹیوں نے ماضی میں بھی اپنے مفادات کے لیے سرکاری ایجنسیوں کا استعمال کیاہے اور اپنے سیاسی مخالفین کو بے جا مقدمات میں الجھانے کی پوری کوشش کی ہے ۔ تاہم یہ بھی اعتراف کیجیے کہ موجودہ بی جے پی حکومت نے گذشتہ سارے ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں ۔

اگرسابقہ حکومتوں میں اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے اپنائے جانے کی دوچار مثالیں ملیں گی ، تو موجودہ حکومت میں اس کی تعداد سینکڑوں تک جاپہنچتی ہے ۔ بطور مثال صرف جولائی اور اگست ۲۰۲۲ء؁ کے درمیان ہندوستان کے طول وعرض پر ایک نگاہ ڈالیے ۔

کولکاتہ ، ممبئی ، دہلی، جھارکھنڈ اور بہار میں حزب مخالف کے دسیوں سیاسی عمائدین کے خلاف سی بی آئی اور ای ڈی کے ذریعہ پچاسوں چھاپے پڑچکے ہیں ۔ بہت ممکن ہے کہ ان میں سے بعض چھاپے حقائق وشواہد پر مبنی ہوں اور واقعی اصحاب سیاست غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہوں 

لیکن غور طلب امر یہ ہے کہ آخر سی بی آئی اور ای ڈی کی تحقیقات صرف حزب اختلاف کے ارد گرد کیوں رقص کررہی ہیں ، یہ دائرہ حزب اقتدار سے منسلک سیاسی عمائدین تک کیوں نہیں آگے بڑھ رہاہے ؟ کیا ایسا ہے کہ حزب اقتدار کے ذمہ دار دودھ کے دھلے ہوئے ہیں اور سرے سے کوئی داغ دھبہ دامن میں ہے ہی نہیں ؟ جو لوگ اصحاب سیاست کے اقدامات اور سرگرمیوں پر عقابی نگاہ رکھتے ہیں ، وہ اچھی طرح جانتے

ہیں کہ یہ میدان ہی ایسا ہے ، جہاں شاید دوچار فیصدپارسا، دیانت دار اور صاف ستھرے معاملات کے حامل نکل جائیں ، ورنہ عام طورپر کہیں نہ کہیں ، کسی نہ کسی جہت سے ہی سہی، یار لوگ غیر قانونی ذرائع سے دولت حاصل کرنے میں ملوث ہوہی جاتے ہیں ۔

صاحبو! سیاسی اختلافات اپنی جگہ پر ، لیکن جب ’اختلاف‘ بڑھتے بڑھتے ’انتقام‘ کی صورت اختیار کرجائے، تویہ نہ صرف عوام کے لیے بلکہ ملک کے لیے بھی نہایت ہی خطرناک اشارہ ہے ۔ اور کہنے دیجیے کہ پچھلے پنج سالہ دور حکومت کے مقابلے میں موجودہ دور کہیں زیادہ انتقامی سیاست اور معاندانہ اقدامات کاآئینہ دار ہورہاہے ۔

یادرہے کہ نریندرمودی کی قیادت میں بی جے پی کی مرکزی حکومت بننے سے پہلے بھی دوتین بار اٹل بہاری باجپئی وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہے ہیں ، لیکن اسے ’انتقامی ‘ سیاست کے نام سے موسوم نہیں کیا جاتاہے ۔

ہزار اختلافات کے باجود ، آج بھی ہندوستان کے سبھی سیاسی عمائدین اٹل بہاری باجپئی کا نام احترام کے ساتھ لیتے ہیں ۔ وہ تھے تواسی پارٹی کے ، لیکن وہ ملک میں جمہوریت کے فروغ کے لیے سنجیدہ رہتے تھے ۔وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ افکار وخیالات کے اختلاف سے ہی جمہوریت مستحکم ہوتی ہے ۔

تاریخ کے صفحات میں ثبت اُن کا یہ جملہ کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ جب انھوں نے گجرات فسادات کے بعد اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندرمودی کوہدایت دی تھی کہ وہ ’راج دھرم ‘ نبھائیں ۔

یہ بات کہنے کی نہیں کہ بی جے پی کی موجودہ مرکزی قیادت جس راہ پر چل پڑی ہے ، وہ ملک کے لیے تو خطرناک ہے ہی ، پارٹی کے لیے بھی نہایت تشویشناک ہے اور خود ان کے ذاتی کردار کے لیے ۔

مجھے یقین کامل ہے کہ آنے والے دور میں جب تاریخ انھیں یاد کرے گی ، تواچھے نام سے یاد نہیں کرے گا۔ کیسی عجیب بات ہے کہ سب سے بڑے جمہوری ملک کی باگ ڈور حاصل کرنے کے بعد بھی انھیں اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ ان کے مرنے کے بعد لوگ انھیں کس طرح یاد رکھیں گے ؟

ghulamzarquani@yahoo.com

17 thoughts on “موجودہ مرکزی قیادت کو اچھے ناموں سے یاد نہیں کیا جائے گا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *