احتجاجی جلوس سڑک پر نہیں بلکہ مسلم محلوں تک محدود رکھاجائے
درپردہ سازش سے ہوشیار رہیے احتجاجی جلوس سڑک پر نہیں بلکہ مسلم محلوں تک محدود رکھاجائے :: از : ڈاکٹر غلام زرقانی ، چیرمین حجاز فاؤنڈیشن ، امریکہ
بی جے پی کی نمائندہ نوپور شرما نے جس طرح شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں دریدہ دہنی کی ہے ،اس کے خبریں برقی ذرائع ابلاغ کے دوش پر روئے زمین کے کونے کونے تک پہنچ چکی ہیں ۔
عرب ممالک میں سے چند نے باضابطہ اپنے اپنے ملکوں میں متعین کردہ ہندوستانی سفیروں کووزارت خارجہ بلاکر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔ اوآئی سی اور عرب لیگ نے بھی صدائے احتجاج بلند کیا ہے ، نیز مذہبی آزادی کے حوالے سے جائزہ رپورٹ جاری کرنے والے حکومت امریکہ کے مخصوص محکمے نے بھی ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے سلوک پرگہری تشویش کا اظہار کیا ہے ۔
ظاہر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مقدس میں گستاخی ایک غیر ت مند مسلمان کبھی بھی برداشت نہیں کرسکتا ، اس لیے انسانی فطرت کے تقاضے پر پورے ہندوستان میں متذکرہ گستاخانہ جرأت کے خلاف مسلمانوں نے احتجاجی جلوس نکالے ہیں ۔ عام طور پر یہ احتجاجات پرامن رہے ہیں
لیکن کئی علاقے ایسے بھی رہے ، جہاں پرامن جلوس کے شرکاقتل وخون اور مصائب وآلام سے دوچار ہوئے ۔ مثال کے لیے رانچی ، کان پور ، علی گڑھ اورسہارن پور وغیرہ کے حالیہ احتجاجات بطور مثال پیش کیے جاسکتے ہیں۔ رانچی میں توپولس نے بربریت کی حیرت انگیز مثال قائم کی ہے ۔ عام طورپر دنیا میں کہیں بھی احتجاجی جلوس نکالنے کی اطلاع مل جائے توشہری انتظامیہ پہلے ہی سے حساس علاقوں میںڈنڈے بردار پولس، ڈمکل ، آنسو گیس اور ربر کی گولیاں تیار رکھتی ہے ۔
اگر کسی سبب سے بھیڑ بے قابو ہوجائے ، توسب سے پہلے آنسو کے گولے داغے جاتے ہیں اور پانی کے تیز جھٹکے سے مجمعے کو ڈرانے کی کوشش کی جاتی ہے ، اور اگرپھر بھی بھیڑ آپے سے باہر ہوجائے ، تو ہوائی فائرنگ اور ربر کی گولیاںچلائی جاتی ہیں ۔
تاہم رانچی کے افسوسناک واقعے نے ہر انصاف پسند کو سکتے میں ڈال دیا ہے ۔ویڈیوکلپ میں صاف دکھائی دے رہاہے کہ چند فوجی جوان براہ راست نشانہ لگا کر گولیاں چلا رہے ہیں اور پس پردہ آواز آرہی ہے کہ گولی چلاؤ، انھیں نشانہ بناؤ۔اس کے نتیجے میں ایک نوجوان کے سر میں گولی لگی اور وہ جام شہادت نوش کرگیا، جب کہ ایک دوسرے نوجوان کے پیٹ میں گولی لگی اور وہ شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچائے گئے ۔ دوچار دنوں تک موت وحیات کے درمیان تکالیف وشدائد جھیلتے رہے ۔
بالآخر وہ بھی جہان فانی سے رخصت ہوگئے ۔ یہی حال کان پور اور سہارن پور وغیرہ کا ہوا، جہاں صوبائی حکومت نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے الزامات مسلمانوں کے سر مڑھ کر ان کے مکانا ت زمیں بوس کرڈالے اور بڑی ہی بے شرمی سے یہ کہہ دیا کہ یہ مکانات غیر قانونی تھے ، لہذا انھیں بلڈور سے توڑا جارہاہے ۔
یہاں دوباتیں قابل ذکر ہیں ، پہلی تویہ کہ سزا دینا عدالت کی ذمہ داری ہے ، حکومت کی نہیں ۔اور دوسری بات یہ کہ جس علاقے میں مسلمانوں کے گھر مسمار کیے گئے ، کیاوہاں دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے غیر قانونی مکانات نہیں ہیں ؟۔
اور اگر ہیں ، توکیا حکومت نے سارے غیر قانونی مکانات مسمار کرنے کے اقدامات کیے ہیں ؟ ۔
ظاہرہے کہ متذکرہ دونوں باتیںدرست نہیں ہیں ۔اس لیے اسے ’سرکاری دہشت گردی ‘ سے معنون کرناچاہیے ۔
بہر کیف ، یہ تورہی ایک بات۔ اب آئیے ذرا ایک دوسرے پہلو پربات کرتے ہیں ۔ آپ مانیں یا نہ مانیں ، مجھے توایسا محسوس ہورہاہے کہ فرقہ پرست طاقتیں پوری کوشش کررہی ہیں کہ کسی طرح مسلمان اور پولس آپس میں بھڑجائیںاور اس طرح اپنے دامن میں خون کے ایک دھبے کے بغیر ہی درپردہ مقاصد میں کامیابی حاصل ہوجائے ۔
مزید وضاحت کے لیے یوں سمجھیے کہ سب سے پہلے مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے والے بیانات دیے جاتے ہیں اور انھیں زیادہ سے زیادہ اچھالنے کے لیے زرخرید ذرائع ابلاغ بحث ومباحثے کا دروازہ کھولتاہے ۔
پھر جب مسلمان اپنے آئینی حقوق پر عمل کرتے ہوئے پرامن جلوس نکالتے ہیں ، توراستےمیں پڑنے والے چند مکانات پر اپنے لوگ تیار رکھے جاتے ہیں ، یا نوجوانوں کو ورغلانے کے لیے اپنے آدمی جلوس میں بھیج دیے جاتے ہیں۔
اب جوں ہی بھیڑ زیادہ ہوئی ، منصوبہ بند طریقے سے کہیں تو مسلم نوجوانوں کو حساس مقامات پر آگے بڑھنے پراکسایا جاتاہے ، کہیں چھت سے دوچار پتھر جلوس میں پھینک دیے جاتے ہیں ، اور کہیں کسی خفیہ مقام سے مجمعے میں گولی داغ دی جاتی ہے ۔
اب ہوتایہ ہے کہ مجمعے میں شامل مسلم نوجوان آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور سامنے کھڑی پولس پر غصہ نکالنے کے لیے دوچار پتھر پھینک دیتے ہیں ۔ اس طرح پولس جوابی کاروائی کرتی ہے اور حالا ت خراب ہوجاتے ہیں ۔
میرے تجزیے پر یقین نہیں ہے ، توآپ خود حالیہ احتجاجی جلوسوں میں بھگدڑ اور قتل وخون کے پس پردہ اسباب تلاش کرنے کی کوشش کرکے دیکھ لیجیے ، آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔
اس لیے اب ہمارے لیے حتجاج کے طریقہ ٔ کار پر غور کرنا لازم ہوگیا ہے اور یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہندوستان میں مذہبی فضا نہایت ہی مسموم ہوتی جارہی ہے ۔ ایسا لگتاہے کہ شر پسند عناصرمسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے بہانے ڈھونڈنے کی کوشش کررہے ہیں ، بلکہ یہ کہنا زیادہ قرین قیاس ہے کہ نت نئے بہانے پیدا کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔
بہر کیف، احتجاجی جلوس کے حوالے سے میری تجاویز مندرجہ ذیل ہیں
پہلی تجویز: احتجاجی جلوس سڑکوں پر نہ نکالے جائیں ، بلکہ مسلم اکثریتی علاقے کے کسی میدان میں لوگ جمع ہوجائیں اور مطالبات منظور کیے جانے کے بعد چار چھ افراد پر مشتمل ایک نمائندہ وفد علاقے کے ذمہ داروں تک میمورنڈم پہنچادے ۔
دوسری تجویز: کام یاب احتجاجی جلوس صرف یہ نہیں ہے کہ بہت بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوجائیں ، بلکہ مکمل کامیابی یہ ہے کہ لوگ امن وسکون سے جلوس میں شریک ہوں اور امن وسکون کے سائے میں اپنے اپنے گھروں تک بھی پہنچ جائیں ۔
اس لیے ضروری ہے کہ ابتدامیں اگر چار چھ خطابات جوشیلے ہوجائیں ، تواخیر میں کم ازکم دوخطابات نہایت ہی سلجھے ہوئے ہوں ، تاکہ شرکاکے بھڑکے ہوئے جذبات کسی حدتک واپسی کے وقت سرد رہیں اور راستے میں کسی بھی انہونی کی توقع کم سے کم ہوجائے ۔
تیسری تجویز: جہاں احتجاجی جلوس ہورہے ہوں ، وہاں اطراف وجوانب میں سیکوریٹی کیمرے نصب کیے جائیں ، تاکہ بوقت ضرورت آپ کے پاس شواہدرہیں ۔
چوتھی تجویز: احتجاجی جلوس کو کنڑول کرنے کے لیے پولس کی مدد نہ لی جائے ، بلکہ اپنے رضاکار تیار کیے جائیں ، تاکہ وہ بوقت ضرورت اپنے ساتھیوں کی مدد سے جوشیلے نوجوانوں پر نظر رکھیں ۔
صاحبو! حالات بہت خراب ہیں ، لیکن یاد رکھیے کہ ہرتیرہ وتاریک رات کے بعد صبح امید طلوع ہوتی ہے ۔ظلم وبربریت کی بنیاد پر عارضی کام یابی ضرور حاصل کی جاسکتی ہے ، لیکن دائمی نہیں ۔ اس لیے مشکل ترین حالات میں حکمت عملی ، صبر وضبط اور تسبیح ودعا کے سہارے اپنے شب وروز گزارنے کی کوشش کیجیے ۔
ghulamzarquani@yahoo.com
Pingback: سفر نامہ زیارت حرمین شریفین ⋆ مفتی خالد ایوب مصباحی
Pingback: سفر نامہ زیارت حرمین شریفین قسط دوم ⋆ اردو دنیا از : خالد ایوب مصباحی
Pingback: الجامعتہ القادریہ ریچھا کا دورہ ⋆
Pingback: سفرنامہ زیارت حرمین شریفین قسط چہارم ⋆ از: خالد ایوب مصباحی شیرانی
Pingback: جامعہ اشرفیہ میں جشن یوم مفتی اعظم 10دسمبر کو ⋆
Pingback: حضرت سراج ملت رحمہ اللہ کی زندگی خدمت دین کے لیے وقف تھی ⋆
Pingback: اعلیٰ حضرت نے ترجمۂ کنز الایمان میں تفاسیر کی روح کو سمیٹ دیا ⋆
Pingback: کچھ دینے کی بھی عادت بنائیے ⋆ ڈاکٹر غلام زرقانی
Pingback: حقیقی تصوف اسلام کی سچی تصویر ہے ⋆ ڈاکٹر غلام زرقانی
Pingback: میر آزاد بلگرامی کی شاعرانہ عظمت پر شبلی نعمانی کی یلغار ⋆ انصار احمد مصباحی
Pingback: فتنۂ ارتداد حقیقت یا فسانہ ⋆ غلام مصطفیٰ رضوی
Pingback: نفاذ یکساں سول کوڈ کے امکانات ⋆ ڈاکٹر غلام زرقانی چیئر مین حجاز فاؤنڈیشن ، امریکا
Pingback: جانوروں سے محبت کی آڑ میں انسانوں کو خطرے کے حوالے کرنا دانش مندی نہیں
Pingback: جنگِ آزادی کی تحریکات اور علما کا کردار ⋆ اردو دنیا
Pingback: کجا ماند مسلمانی غلام مصطفےٰ نعیمی
Pingback: بات طاقت نہیں غیرت ایمانی کی ہے ⋆ غلام مصطفےٰ نعیمی
Pingback: تھوڑا سا گلہ بھی سن لے ⋆ ڈاکٹر غلام زرقانی
Pingback: علامہ یٰسین اختر مصباحی قائدِ اہل سنت کے خطوط کی روشنی میں ⋆ طفیل احمد مصباحی