صحافی شیریں ابو عاقلہ کا قتل
صحافی شیریں ابو عاقلہ کا قتل مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
الجزیرہ نشریاتی ادارہ کے عربی زبان کے چینل کے لیے کام کرنے والی شیریں ابو عاقلہ ہمارے درمیان نہیں رہیں، اسرائیلی فوج نے فلسطین پر ہو رہے ظلم وتشدد کی رپورٹنگ کرتے ہوئے ۱۱؍ مئی ۲۰۲۲ء کو مقبوضہ مغربی کنارے پر اسے گولی مار دی ، یہ گولی ان کے سر میں لگی
او ر وہ وہیں پر جاں بحق ہو گئیں،رملہ کے کنسلٹنٹ ہسپتال میں پوسٹ مارٹم اور تجہیز وتکفین کے بعد فلسطینی پرچم میں لپیٹ کر انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا، اور پھر ان کا جسد خالی سرکردہ شخصیات کے قافلہ کے ساتھ بیت المقدس منتقل کیا گیا، جہاں فلسطینی ہلال احمر کے ذمہ داروں نے اسے وصول کیا
ان کی تدفین باب الخلیل کے رومن کیتھولک چرچ کے صہیونی قبرستان میں عمل میں آئی، اس واقعہ میںیروشلم میں مقیم القدس اخبار کے لیے کام کرنے والے ایک صحافی کے زخمی ہونے کی بھی خبر ہے ۔ اسرائیل کے اس حرکت کی عالمی پیمانے پر مذمت ہو رہی ہے ، جنگی قانون میں جن چند طبقات پرحملہ نہ کرنے کا ذکر ہے ان میں ایک صحافی بھی ہیں، شیریں ابو عاقلہ کا شمار جرأت مند صحافیوں میں ہوتا تھا
انہوں نے حقائق سامنے لانے کے لیے کبھی اپنی جان کی پرواہ نہیں کی
وہ مسلسل فلسطینیوں پر مظالم کے خلا ف آواز اٹھاتی رہی تھیں ، اس آواز کو خاموش کرنے کے لیے اسرائیلی افواج نے یہ مذموم حرکت کی، جس وقت ان کو گولی ماری گئی اس وقت انہوں نے پریس کا بیچ لگا رکھا تھا، اس کا مطلب ہے کہ اسرائیلیوں نے اسے جان بوجھ کر گولی ماری، اس حادثہ کے بعد پہلے تو اسرائیلی یہ کہتے رہے کہ اسے فلسطینیوں نے ہی گولی ماری
پھر جب حقائق سامنے آنے لگے تو اسرائیلی حکومت نے اس واقعہ کی مشترکہ جانچ کا حکم دے دیا ہے، جس میں فلسطین اور اسرائیل کے نمائندے شریک ہوں، لیکن فلسطین کے صدر محمود عباس نے اس تجویز کو رد کر دیا ہے اور کہا کہ یہ ایک سنگین نوعیت کا جرم ہے
ہم اس معاملہ کو عالمی فوجداری عدالت میں لے جائیں گے تاکہ اس واقعہ سے مجرموں کو سزا دلائی جا سکے،مشترکہ جانچ ہو یا عالمی فوجداری عدالت میں مقدمہ یہ لوگوں کی آوازکو خاموش کرنے کا ایک طریقہ ہے، ورنہ سبھی جانتے ہیں
کہ اس قسم کے واقعات میں جانچ کے ذریعہ مجرمین کو کلین چٹ دینا یا پھر لیپا پوتی کرکے بات کو ختم کرنا ہوتا ہے، اس لیے اسرائیل کے ذریعہ اس جانچ کے بعد بھی شیریں ابو عاقلہ کو انصاف ملتا نظر نہیں آتا کم از کم اتنا ہی ہوجائے کہ آئندہ صحافیوں پر حملے نہ ہوں تو بھی ہم کہہ سکیں گے کہ شیریں ابو عاقلہ کی موت نے دوسروں کو تحفظ فراہم کرنے کا کام کیا ہے۔
اسرائیلیوں کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ ایک شیریں ابو عاقلہ کے قتل سے وہ حق کی آواز کو دبا نہیں سکتے، جس کا تجربہ وہ برسوں سے کرتے آ رہے ہیں، یہ قوم ابھی بانجھ نہیں ہوئی ہے
ایک مرتا ہے تو دوسرے کئی اس کی جگہ لے لیتے ہیں، شیریں ابو عاقلہ کے معاملہ میں بھی ایسا ہی ہوگا، شیریں کے کاز کے لیے بہت سے صحافی کھڑے ہوں گے اور اسرائیلی بربریت کی تصویر پہلے سے کہیں زیادہ نمایاں ہو کر عالمی برادری کے سامنے آئے گی۔