آزمائش کی گھڑی میں مسلمان ثابت قدم رہیں
آزمائش کی گھڑی میں مسلمان ثابت قدم رہیں
تحریر: بلال احمد نظامی مندسوری،رتلام مدھیہ پردیش
رکن:تحریک علماےمالوہ
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
اس وقت امت مسلمہ ہرچہار جانب سے ابتلاء و آزمائش میں گھیری ہے۔ نظریاتی اور فکری طورپر امت کو حد سےزیادہ ہراساں کرنےکی کوشش کی جارہی ہے۔آزادیِ اظہار رائےاورحقوق انسانیت کےعلم بردار ی کے دعوےدارامت کی ہرقسم کی آزادی کو سلب کرلیناچاہتےہیں۔
بھارت جیسےجمہوری ملک میں اپنےآئینی حقوق کی بازیافت اور مظلوموں کی دادرسی کےلیے اٹھنے والی آوازوں کو قیدوبنداور ضبطیِ مال و جائداد کےجبرواستبداد کےذریعےکچل دیا جاتا ہے۔
جبرواکراہ کےذریعےتبدیلی مذہب اور غیرمذہبی نعرےلگانےپرمجبور کیاجاتا ہے،مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کاانہدام،دنگا و فساد کےذریعےجانی و مالی نقصان اورہجومی دہشت گردی کےذریعےسفر کو خوف کی علامت بنا دینا ، سادہ لوح مسلم بچیوں کو عشق ومحبت کےپرفریب وعدوں کےذریعے مرتدبنانا۔
یہ ایسےعوامل ہیں جن کےذریعےایک کمزور دل اور ناقص ایمان والا انسان ہمت ہار بیٹھتاہے،اپنےقیمتی ورثہ،قیمتی شناخت اورمذہب و ملت سے کنارہ کش ہونےکےبارےمیں سوچنےلگتاہے؛بلکہ بعض تو ایسےبھی ہوتےہیں
جو سیکولریت کابھرم رکھنےکےلیےنیزاکثریتی طبقےکو خوش کرنےکےلیےشرکیہ راہ و رسم کی ادائیگی میں ذرہ برابربھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتےہیں۔
حالاں کہ ایک بندہ مؤمن اور مسلمان کا سب سےقیمتی ورثہ اور متاع عزیز اس کا ایمان اور دین ہے۔ ایسےدل خراش،درد ناک،آلام و مصائب اور ظلم وستم کےاس ماحول میں مسلمانوں کو ثابت قدم رہتےہوئے اللہ کی نصرت و مدد پر بھروسا کرناچاہیےاور اسی کی جانب رجوع کرناچاہیے۔
ایسابھی نہیں ہےکہ ایسےحالات سےامت پہلی بار دوچار ہوئی ہے بلکہ ہمیشہ سےامت نےطوفانوں کا سینہ چیر کر،موجوں کی طغیانی سےنکل کر اپنےلیےحالات کو سازگار بنایاہے۔
رسول اعظم ﷺ کی مکی زندگی کس قدرآزمائشوں، دردبھری اور صبرآزما تھی پھربھی آپ ﷺ نے صحابہ کرام علیہم الرضوان کو گذشتہ امتوں پر آنےوالی ابتلا ومصائب کا ذکر فرماکرانھیں صبرورضاکی تلقین فرمائی۔
بخاری شریف میں ہے: حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:” رسول اللہ ﷺ کعبہ کے سائے میں اپنی چادر پر ٹیک لگائے ہوئے تھے ہم نے آپ سے عرض کیا :آپ ہمارے لیے مدد طلب کیوں نہیں فرماتے؟۔
آپ ہمارے لیے دعا کیوں نہیں کرتے ۔
آپ ﷺنے فرمایا :تم سے پہلی امتوں میں سے ایک شخص کو زمین میں دبا دیا جاتا پھر اس کے جسم پر آری رکھ کر اس کے جسم کو دو حصوں میں کاٹ دیا جاتا اور یہ ظلم اسے اس کے دین سے منحرف نہیں کرتا تھا ، اور اس کے جسم میں لوہے کی کنگھی چلا کر اس کے گوشت ، اس کی رگوں اور اس کے پٹھوں کو چھیل دیا جاتا اور یہ ظلم بھی اسے اس کے دین سے منحرف نہیں کرتا تھا ۔
اللہ اپنے اس دین کو مکمل فرمائے گا حتی کہ ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک کا سفر کرے گا اور اسے اللہ کے سوا اور کسی کا خوف نہیں ہوگا البتہ اس کو اپنی بکریوں کے متعلق بھیڑییے کا ڈر ہوگا
لیکن تم لوگ جلدی کرتے ہو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3612‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : 2649‘ سنن النسائی رقم الحدیث : 204‘ مسند احمد الحدیث : 21371)
موجودہ حالات میں مسلمان معمولی سی تکلیف، مصیبت اور غیروں کی جانب سےپائےجانےوالےخدشات کےسبب حواس باختہ ہوکر غیروں کو خوش کرنےمیں ایک دوسرےپر سبقت لےجانےلگتےہیں
حالاں کہ انھیں معلوم ہےکہ کفارومشرکین ان سےاس وقت تک راضی نہیں ہوں گےجب تک وہ اپنےدین ومذہب کو ترک نہ کردیں۔
جیساکہ قرآن نےکہاہے: ” اور یہود و نصاری آپ سے ہرگز راضی نہیں ہوں گے حتی کہ آپ ان کی ملت کی پیروی کریں۔“(البقرہ۔آیت: 120)
یہ بات بھی ذہن نشیں رہےکہ جہاں حق ہوتاہے وہاں آزمائشیں مقدر ہوتی ہیں۔اسلام ایک سچا اور آفاقی مذہب ہے،لازما ادیان باطل کےپرستاروں کو اسلام کےماننے والوں سے دشمنی بھی ہوتی ہےاور اسے مٹانے کی ہرممکن کوشش بھی کرتےہیں لیکن یہ مسلمان ہی ہیں جوآزمائشوں اور مصیبتوں میں ثابت قدم رہ کر رب کی نصرت ومدد پاتےہیں اور پھر کام یاب وکامراں ہوتےہیں۔
آزمائش کےتعلق سے اللہ رب العزت نےارشاد فرمایاہے: ترجمہ:”کیا لوگوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ ان کو یہ کہنے پر چھوڑ دیا جائے گا کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور ان کو آزمایا نہیں جائے گا۔“(العنکبوت۔آیت: 2)
دیکھیے! مذکورہ آیت پاک میں محض قول ایمان ہی کو کافی نہیں کہاگیا بلکہ انھیں آزمانےکی بات بھی ارشاد فرمائی۔ اس سےاگلی آیت میں امم سابقہ کو آزمائےجانےاور سچےوجھوٹےکو ظاہر کرنےکی بات ارشاد فرمائی ہے۔
سورہ بقرہ کی آیت 214 میں آزمائش اور نصرت الہی کاذکرت کرتےہوئے رب تبارک و تعالی فرماتاہے:
کیا تم نے یہ گمان کرلیا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے ؟ حالاں کہ بھی تم پر ایسی آزمائشیں نہیں آئیں جو تم سے پہلے لوگوں پر آئی تھیں ،ان پر آفتیں اور مصیبتیں پہنچتیں اور وہ (اس قدر) جھنجھوڑ دیے گئے کہ (اس وقت کے) رسول اور اس کے ساتھ ایمان والے پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ؟ سنو ! بیشک اللہ کی مدد عنقریب آئےگی۔(البقرہ۔آیت:214) آزمائش کےتعلق سے رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایاہے:
”حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے پوچھا : یارسول اللہ ! لوگوں میں سب سے زیادہ سخت مصیبت کس پر آتی ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا : انبیاء پر ،پھر جو ان کے قریب ہوں ،پھر جو ان کے قریب ہوں ،سو ہر شخص اپنے دین کے اعتبار سے مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے ،جو شخص اپنے دین میں سخت ہوتا ہے اس پر سخت مصیبت آتی ہے اور جو شخص اپنے دین میں نرم ہوتا ہےاس پر اپنے دین کے اعتبار سے مصیبت آتی ہے۔
بندہ مسلسل مصائب میں مبتلا ہوتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ زمین پر اس حال میں چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 2398‘)
مذکورہ آیات و احادیث میں بندہ مومن کےلیےآزمائش و مصیبت کا ذکر ہےکہ حسب حال بندےکو آزمائشوں سےگزرناپڑتاہے،ان آزمائشوں اور مصیبتوں پر صبرکرنےاور ان کےازالےکی تدابیر کرنےکےبعد بارگاہ رب سے ان کے لیے اجر عظیم ہوتا ہے۔ کبھی فرد آزمائش میں مبتلاہوتاہےتو کبھی جماعت کی جماعت آزمائش میں گھرجاتی ہے،اگر اس کےاسباب وعلل پر غوروفکر کریں تو بہت ساری وجوہات نکل کر آئےگی
لیکن اس سے قطع نظر۔اگر جماعت آزمائش کی اس گھڑی میں ثابت قدم رہتےہوئے اپنےوجود کی بقااور قیام کےلیےجدوجہد نہ کرےتو یہ آندھیاں اور طوفان اسےخس و خاشاک کی طرح بہالےجائےگی۔
امت پر جب جب ایسی آزمائش کی گھڑیاں آئی ہیں امت نےڈٹ کر ان کامقابلہ کیااور بزور بازو،عقل وفہم اور شعور وتدبیرسے ان کا ازالہ کیا۔
کبھی تاتاری،قرامطی،صلیبی جیسےطوفان مسلمانوں کی ہوا اکھاڑنےکےلیےکمر بستہ ہوئےلیکن مسلمانوں کی ثابت قدمی نے انھیں ہر موڑ پر پسپا وشکستہ خوردہ کردیا۔
آج بھی یہود ونصاری اور ہنود مسلمانوں کو صفحہ ہستی سےمٹانےکےلیےجی جان توڑ کوشش کررہےہیں،ان کی ہرصبح کسی نئے منصوبے کے ساتھ بیدار ہوتی ہے اور کوئی نئی مصیبت لے کرآتے ہیں، ایسےمیں اگر امت خوف و ہراس میں مبتلاہوئی تو یقین جانیےاس کےقدم ڈگمگاجائیں گےاور اس کےسبب ارتداد کا فتنہ اپنادائرہ وسیع کرلےگا۔
اس لیےایسےمواقع پر خوف و ہراس کی بجائے ثابت قدم رہ کر دشمنوں کے منصوبےکو سمجھ کر اس کےازالےکی تدبیر وتفکیر کی جائے۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرےمنتظر فردا رہنابھی دانش مندی نہیں ہے۔ باشعور قومیں وقت رہتےثابت قدمی کےساتھ عملی جدوجہد کرکےفلاح و نجات کی راہیں ہموار کرتی ہیں اوراپنےہدف کوحاصل کرکےکامیاب و کامراں ہوتی ہیں۔
جب امریکہ نےجاپان میں بم گراکر اسےتہس نہس کیاتھااور اس کی عسکری قوت کو تباہ کردیاتھا،تب جاپان نے غوروفکر کرکےدانش مندانہ اقدام کرتےہوئے تعلیمی پالیسی کو اختیار کیا اور مختصر وقت میں اس قدر کام یابی حاصل کی کہ جاپان کی مصنوعات کو امریکہ جیسے ملک میں قدر کی نگاہ سےدیکھاجانےلگا۔
آج بھی اگر امت مسلمہ بیجا رسم و رواج،آپسی اختلافات اور نِت نئی بدعات سےاوپر اٹھ کر محض مفاد امت کےلیے جدوجہد کرےتو جلد ہی روشن صبح کی امید کرسکتےہیں۔
تحریر: بلال احمد نظامی مندسوری،رتلام مدھیہ پردیش
رکن:تحریک علماےمالوہ
Pingback: صورت خورشید تاباں مارہرہ رہے ⋆ شاداب امجدی