سفرِ دہلی اور تاریخی عمارات کا مشاہدہ

Spread the love

سفرِ دہلی اور تاریخی عمارات کا مشاہدہ

فرحان بارہ بنکوی

عید رخصت ہوئے ابھی ایک ہفتہ گذرا تھا کہ ۳۰؍ اپریل ۲۰۲۳ء کی شام کو سفرِ دہلی در پیش تھا۔ گرچہ اس سفر کا ارادہ کافی وقت سے تھا؛ مگر تیاری عید کے دوسرے روز سے شروع ہوئی اور چار نفر (مبین، علی، ذاکر اور بندۂ راقم) پر مشتمل اس قافلے کے

سفر کے لیے عزم و استقلال کے اظہار کے بعد لکھنؤ سے دہلی جانے والی ٹرین کے درجۂ سوم کے اے سی کلاس کا ٹکٹ بنا لیا گیا۔ رفتہ رفتہ ایام گزرتے گئے اور ۳۰؍ اپریل کی شام بھی آن پہنچی۔

یہ چار نفری قافلہ بعدِ مغرب بارہ بنکی سے بہ ذریعۂ شاہ راہ ’’لکھنؤ‘‘ کے لیے نکل پڑا اور ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد لکھنؤ کی نوابی سرزمین پر قدم رنجا ہوا

چوں کہ قافلے کے ایک فرد سے سفر کے لیے ملاقات وہیں ہونی تھی؛ چنانچہ مختصر سے انتظار کے بعد تمام رفقائے سفر یکجا ہو گئے اور پھر میٹرو ٹرین کے ذریعے لکھنؤ کے چار باغ اسٹیشن پہنچے؛ چوں کہ اصل ٹرین کے روانہ ہونے میں ابھی تقریباً ۲؍ گھنٹے کا وقفہ تھا؛ بنا بریں چائے ناشتہ سے فراغت کے بعد چار باغ ریلوے اسٹیشن پر، اپنی مقررہ ٹرین میں سوار ہو گئے۔ کم و بیش آدھے گھنٹے کے بعد ٹرین روانہ ہوئی اور کل پانچ متعینہ اسٹیشن پر قیام کرتے ہوئے ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر سے ہم رفقائے سفر نئی دہلی پہنچ گیے۔

ایک مہذب شخص کو آخر صبح کیا چاہیے، بس ایک کڑک چائے کہ جو تمام تھکن کو کافور کر دے؛ چناں چہ اسٹیشن سے باہر نکل تازہ دم ہونے کی غرض سے ایک ایک چائے پی گئی اور پھر وہاں سے کچھ فاصلے پر واقع دہلی میٹرو کے راجیو چوک اسٹیشن پہنچے؛ چونکہ دہلی کی سیر و سیاحت میں سفرِ خرچ کی بنا پر معاشی بوجھ اور کسی طرح کی لوٹ پاٹ اور جیب کتروں سے بچنے کی غرض سے دہلی میٹرو ایک محفوظ ذریعہ ہے۔

اس لیے سب سے پہلے میٹرو کارڈ بنوایا گیا۔ اس کارڈ کا فائدہ یہ ہے کہ دہلی جیسے بھیڑ بھاڑ والے اور سیاحتی شہر میں، میٹرو کے ٹکٹ کی لائن کی وجہ سے آپ کا کافی وقت ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے اور کرایے میں دس سے بیس فیصد تک رعایت بھی ملتی ہے۔ اسی بنا پر اولِ مرحلہ میں میٹرو اسمارٹ کارڈ بنوایا گیا۔ اور پھر اوکھلا وِہار میں واقع ایک عزیز دوست مفتی فرحان عزیز قاسمی کی قیام گاہ تک رسائی ہوئی اور سفر کی تھکن دور کرنے کی غرض سے غسل وغیرہ حوائج سے فراغت حاصل کی گئی۔ اسی اثنا دہلی کی بارش سے بھی مستفید ہوا گیا۔ کافی زور و شور کی بارش اور دن کا اثر حصہ گزر جانے کے بعد لال قلعہ اور شاہی جامع مسجد کا رُخ متعین ہوا۔

دہلی میٹرو سے یہ سفر تقریباً ایک گھنٹے میں مکمل ہوا اور ہم سب لال قلعہ پہنچے؛ مگر شومئی قسمت! کہ لال قلعہ عوام کے لیے بند تھا۔ تمام سیاح لال قلعہ کی آرزو و تمنا لیے پزمردگی کے عالم میں پریشان، دل برداشتہ اور لال قلعہ بند ہونے کی وجہ جاننے کے لیے بے تاب تھے؛ اسی اثنا کسی نے مطلع کیا کہ پیر (دوشنبہ) کے روز لال قلعہ عوام کے لیے بند رہتا ہے۔

یہ سننا تھا کہ میرا قافلہ، جو ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا اور مختصر سے سفرِ دہلی سے زیادہ سے زیادہ استفادے کا طالب تھا، فوراً جامع مسجد کے لیے روانہ ہو گیا۔ اولاً گیسٹ ہاؤس پہنچ کر اور بھا تاؤ کرنے کے بعد نصف قیمت اور چوبیس گھنٹے کی مہلت پر ایک کمرہ لیا گیا اور ساز و سامان رکھ کر جامع مسجد کے کیے نکل پڑا۔ دہلی کی تاریخی مسجد جس کا اصل نام ’’مسجدِ جہاں نما‘‘ ہے۔

مگر عرفِ عام میں یہ شاہی جامع مسجد کے نام سے مشہور ہے۔ اس مسجد کو دیکھ کر مغل دور کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ اس مسجد کی بناوٹ، فن کاری اور کاری گری نے دل موہ لیا۔ مغل بادشاہ شاہ جہاں نے اس مسجد کو تعمیر کروا کر اپنے تعمیری ذوق کی تسکین کا سامان فراہم کیا تھا۔ یہ مسجد ۱۶۵۶ء میں تیار ہوئی۔ اس مسجد کے تین جانب دروازے ہیں؛ چونکہ مسجد کافی بلندی پر واقع ہے اسی بنا پر مسجد میں داخل ہونے کے لیے تینوں جانب زینے ہیں

جس میں کم و بیش تیس سیڑھیاں ہیں۔ مسجد کا وسیع و عریض صحن اس کی داستاں اور اہمیت کو بیان کرتا ہے۔ مسجد کے اوپر مغربی جانب تین گنبد اور دو بلند و بالا مینار ہیں۔ اس مسجد کے کشادہ صحن کے اطراف میں دالان بنے ہوئے ہیں۔ ایک گھنٹہ جامع مسجد میں قیام اور نمازِ عصر باجماعت ادا کرنے کے بعد وہاں سے رخصت لی گئی۔

 

سفرِ دہلی اور تاریخی عمارات کا مشاہدہ

رات کے وقت ہم رفقائے سفر ’’انڈیا گیٹ‘‘ کے لیے روانہ ہوئے۔ ’’انڈیا گیٹ‘‘ جسے ’’آل انڈیا وار میموریل‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس کی بنیاد ۱۹۲۱ء میں رکھی گئی تھی اور تقریباً دس سال کی مدت میں ۱۹۳۱ء میں تعمیر ہو کر تیار ہوا تھا۔ اسے پہلی جنگِ عظیم اور افغانی جنگوں میں فوت شدگان ہندوستانی فوجیوں کی یاد گار کے طور پر قائم کیا گیا تھا، جو انگریزی حکومت کے لیے فوت ہوئے تھے۔ اس عمارت پر ۱۳۲۲۰؍ مقتول ہوئے فوجیوں کے نام درج ہیں اور ان کا ہندوستان کی جنگِ آزادی کے لیے شہید ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اس ۱۳۸؍ فٹ (۴۲؍ میٹر) کی بلند و بالا عمارت کو برطانوی حکومت میں لال اور بھورے رنگ کے پتھروں سے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس عمارت کو موجودہ وقت میں مرکزی حیثیت حاصل ہے اور دہلی میں وارد ہونے والے سیاحوں کے لیے محبوب جگہ شمار کی جاتی ہے۔ جس وقت چار نفری رفقائے سفر کا قافلہ انڈیا گیٹ پہنچا

اس وقت آسمان پر کافی تاریکی چھائی ہوئی تھی اور چاند کی روشنی بالکل مدھم تھی؛ مگر انڈیا گیٹ روشنی سے نہایا ہوا تھا اور اس پر متعدد رنگوں بالخصوص ترنگے کی روشنی کا خاص نظم تھا۔ یہ وہی انڈیا گیٹ تھا جسے دیکھنے کی آرزو ایک زمانے سے دل میں ہچکولے لے رہی تھی

کم و بیش ایک گھنٹہ انڈیا گیٹ پر گزارنے، باریک بینی سے مشاہدے، لطف اندوزی اور تصویر کشی کے بعد جامع مسجد پر واقع اپنی قیام گاہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ جامع مسجد پہنچ کر عشائیہ سے شکم سیری حاصل کی گئی اور دن بھر کی تھکن کے بعد بسترِ استراحت پر پہنچتے ہی نیند کی آغوش میں چلے گئے۔

دوسری صبح پہلے سے متعنیہ پلان کے مطابق جلد ہی سب بیدار ہوئے اور معمولی تیاری کے بعد در گاہ حضرت نظام الدین اولیا کے لیے نکل پڑے۔ سفرِ دہلی کے دوران جس قدر رفاقت دہلی میٹرو نے نبھائی، اس کی مثال دہلی میں شاید کوئی دوسری ہو؛ چنانچہ دہلی میٹرو کے ذریعے ’’سرائے کالے خاں‘‘ میٹرو اسٹیشن پہنچ گئے۔

وہاں سے ایک ای رکشہ کے ذریعے درگاہِ حضرت نظام الدین اولیا کے لیے نکل پڑے۔ راستے میں متعدد قدیم عمارتوں کے ساتھ ساتھ ہمایوں کا مقبرہ نظروں کے سامنے سے گزرا۔ یہ وہی مقبرہ ہے کہ جہاں سکوتِ دہلی کے وقت آخری مغل بادشاہ اور شہ سوارِ شعر و سخن بہادر شاہ ظفر نے برٹش حکومت سے نظر پوشی کی غرض سے پناہ لی تھی؛ مگر مخبری کی بنا پر یہیں سے گرفتار ہو گئے تھے۔

اس مقبرے سے آگے بڑھتے ہوئے مرکزِ تبلیغی جماعت ’’بنگلہ والی مسجد‘‘ سے ہوتے ہوئے، درگاہِ محبوبِ الٰہی، سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیا پہنچے۔ درگاہ کے ارد گرد لوگوں کا ہجوم، گل و چادر فروشوں کی سجی ہوئی دکانیں، اور ان کی دعوتِ بیع عجب لطف پیدا کر رہی تھی۔

بہر حال! لمبی مسافت طے کرنے کے بعد درگاہ کے اندر پہنچ گئے۔ سب سے پہلے ہماری نظر سلطان الاولیا کے مرید اور ان ہی کے قدموں میں آرام فرما، طوطئ ہند حضرت امیر خسروؒ کے مزار پر پڑی۔ امیر خسرو کو اردو کا پہلا شاعر بھی مانا جاتا ہے۔ انہوں نے اردو کا نام ابتدا میں ’’ہندوی ‘‘ رکھا اور اسی زبان میں اکثر شاعری کی۔

اولاً حضرت امیر خسروؒ کے آستانے پر حاضری دے کر ایصالِ ثواب کیا گیا اور بعض رفقا نے گل پوشی کی۔ اس کے بعد اصل منزل اور سلطان الاولیا کی مزار پر حاضری ہوئی۔ لوگوں کا ہجوم، عقیدت مندوں کا اژدہام دیدینی تھا۔ محفلِ سماع کے لیے باقاعدہ ایک جگہ مختص تھی، جہاں بزمِ نشاط سجتی ہے۔

عقیدت مندوں اور حاضرین کے لیے لنگر کا نظم ہوتا ہے؛ چنانچہ لنگر خانے کے لنگر سے رفقا شکم سیر اور لطف اندوز ہوئے۔ احاطۂ درگاہ کے اندر مریدین و متوصلین کی بھی مزاریں اور قدیم طرزِ تعمیر پر مبنی ایک بلند و بالا مسجد ہے۔ کم و بیش ایک گھنٹہ درگاہِ عالیہ پر گزارنے اور وہاں سے رخصت ہونے کے بعد مرکزِ تبلیغی جماعت ’’بنگلہ والی مسجد‘‘ جانا ہوا۔ وہاں کا نظم و نسق، داعیانِ دین کی آمد سے دل مسرور ہوا۔ مختصر سا وقت وہاں گزار کر وہاں سے آنا ہو گیا۔

اس کے بعد اردو ادب کی شان ’’مرزا اسد اللہ خان غالبؔ‘‘ کے مزار پر حاضری ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ ۱۹؍ ویں صدی غالبؔ کی صدی تھی، یعنی اس صدی میں اردو جس کے نام سے جانی اور پہچانی جاتی تھی، وہ مرزا غالبؔ ہی تھے۔ مرزا غالبؔ کے مزار پر حاضری ہوئی اور ان کے اطراف و جوانب میں مدفون ان کے اہلِ خانہ کی مزارات کی زیارت ہوئی۔

اردو ادب کے اس خادم کی مزار کی دل خراش حالت، لوگوں اور انتظامیہ کی بے توجہی نے دل کو کافی چوٹ پہنچائی۔ اردو کے اس خادم کے مزار کا یہ حال اپنے آپ میں ماتم کناں تھا۔

بستی نظام الدین میں کم و بیش ۲؍ گھنٹے بسر کرنے کے بعد مہرولی میں واقع قطب مینار کے شوقِ زیارت نے ہم رفقائے سفر کو اپنی جانب دعوتِ دید دے دی؛ چنانچہ ہم لوگ وہاں سے قطب مینار کے لیے روانہ ہو گئے اور مسلسل ایک گھنٹے کے سفر کے بعد قطب مینار پہنچ گئے۔

داخلہ فیس عام ہندوستانی کے لیے ۳۵؍ روپئے تھی؛ چنانچہ یہ رقم ادا کرکے آنلائن ہی ٹکٹ حاصل کیے گئے اور پھر جانچ وغیرہ کے بعد احاطۂ قطب میں داخلے کی اجازت ہو گئی۔ احاطۂ قطب میں داخل ہوئے تو مغل دور کی شاہانہ عمارتیں اور ان فنِ تعمیری کا ذوق نظروں کے سامنے عیاں تھا۔

سرخ اینٹوں سے بنا یہ مینار، دنیا کا واحد تراشیدہ، منقش سنگ سے بنا ہوا سرو قامت مینار ہے۔ اسے عالمی ثقافتی ورثے میں بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس مینار کو قطب الدین ایبک نے افغانی فنِ تعمیر کی طرز تعمیر کرایا تھا؛ مگر اس کی تکمیل شمس الدین التمش وغیرہ نے کی۔ اس مینار پر قرآنی آیات کندہ ہیں جو کہ اپنی تاریخ، مذہبی دل چسپی کو اجاگر اور خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہیں۔

احاطے میں ہی موجود شمس الدین التمش کا مقبرہ، مسجدِ قوت الاسلام، علاؤ الدین خلجی کا مدرسہ وغیرہ وہاں کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔ ہر عمارت کے پتھروں پر نقش و نگار، گل بوٹے اور باریک نقاشی وہاں کے حسن میں دوبالدگی پیدا کرتی ہیں۔ بالآخر بہ طورِ یاد گار تصویر کشی کے بعد ہم وہاں سے باہر نکل آئے۔

اس کے بعد کچھ فاصلے پر واقع ’’خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ‘‘ کی مزار پر پیشِ خدمت ہوئے۔ درگاہ کا احاطہ کافی وسیع و عریض ہے، جس میں ایک مسجد، متعدد مزارات ہیں۔ اصل اور اہم مزار خواجہ بختیار کاکیؒ کا ہے۔ مقبرہ متعدد ستونوں پر مشتمل ہے، جو سنہرے رنگ سے مزین اور لائق دید ہے۔

بہر حال! رفقا نے گل پوشی کی اور تلاوت و ایصال ثواب کے بعد تنگئ وقت کی بنا پر وہاں سے فوراً رخصت ہونا پڑا اور واپس آ کر مع ساز و سامان اپنے وطن کے لیے نکل پڑے۔ کشمیری گیٹ پر واقع بس اسٹینڈ سے بذریعۂ بس لکھنؤ کے لیے روانہ ہوئے اور صبح تڑکے اپنے وطن پہنچ گیے۔

One thought on “سفرِ دہلی اور تاریخی عمارات کا مشاہدہ

Leave a reply

  • Default Comments (1)
  • Facebook Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *