شادی کے وقت ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک ایک تنقیدی جائزہ
از قلم : فیاض احمدبرکاتی مصباحی شادی کے وقت ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک ایک تنقیدی جائزہ
اعلان نبوت کے بعد رحمہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے شب وروز جس پریشانی اور کٹھنائ کے عالم میں گزرے وہ ہر صاحب علم وفضل پر آشکارا ہے ۔
زندگی کا ہر لمحہ دعوتی و تبلیغی کاموں میں صرف ہوتا ، خدا کی دی ہوئی امانت قوم تک پہونچانے کا جو حقیقی احساس تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ہر لمحے سے عیاں ہے ۔
الزام تراشی ، طعنہ زنی ، بد تمیزی کا وہ کون سا پتھر ہے جو آپ کی جانب نہیں اچھالا گیا ۔ پورا عرب آپ کی دشمنی پر آمادہ تھا حتی کہ خاندان کے افراد بھی اس میں پیش پیش تھے ۔ ظلم وستم کی ہر آندھی آپ کے دوش مبارک کو چھوکر گزرتی رہی ۔
کاہن ، جادو گر ، شاعر اور نہ جانے کیا کیا کہ کر پکارا جانے لگا جن کا کردار آئنہ کی طرح پورے سماج کے سامنے تھا انہوں نے جوں ہی دعوت حق کا بیڑا اٹھایا ریگستان کے خاموش سمندر میں بد تمیزی کا طوفان انگڑائیاں لینے لگا ۔
خدا کی نصرت و حمایت کے علاوہ اس زمین پر صرف چند حمایتی تھے جو آپ کے زخموں کا مداوا کرسکتے تھے بالآخر خدا کی مرضی سے ان میں سے دو سب سے اہم اور قریبی مونس وغم خوار بھی ہمیشہ کے لیے داغ مفارقت دے گئے ۔ ایک آپ کے چچا اور اسلام کے سچے محسن وبہی خواہ جناب ابو طالب اور دوسری آپ صلی اللہ علیہ وسلم رفیقہ حیات اور اسلام کی محسنہ اول حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا ۔
جناب ابوطالب کا معاملہ تو یہ تھا کہ باہری حملہ آور آپ کی شخصیت سے مرعوب تھے کہ کوئ نقصان پہونچانے کی کوشش نہ کرسکا اور اگر کیا بھی تو آپ کی حکمت عملی نے اسے ناکام بنادیا
لیکن حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا کی مقدس ذات آپ کے لیے پریشانی اور غموں کے دنوں میں نسیم صبح کا ٹھنڈا سویرا تھیں ۔ محسنہ اسلام کے پیام اجل کو لبیک کہنے کے بعد آپ پر ذمہ داریاں بڑھ گئیں تھیں ۔ دعوتی کام کے علاوہ گھر میں بچوں کی دیکھ بھال کا معاملہ بھی آپ کو کبیدہ خاطر رکھنے لگا تھا ۔
بشری تقاضے کے تحت ان پریشانیوں سے مضمحل ہونا ایک فطری بات تھی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم کے جسمان مبارک اور چہرہ منور سے عیاں ہونے لگیں تھیں ۔ ان حالات کو ماننے والوں نے بھی محسوس کیا ہوگا ، ممکن ہے آپس میں مشورے بھی ہوئے ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھریلو ذمہ داریوں سے پریشان ہیں اس وقت کوئ مناسب رشتہ مل جائے تو بہتر ہوگا ۔
ایسے وقت میں جب کہ پورا عرب آپ کی جان کے درپے تھا کسی مشرک قبیلے سے رشتہ کی امید جوئے شیر لانے جیسا تھا پھر یہ مناسب بھی نہیں تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں کسی مشرکہ کو لے آیا جائے جو دعوتی کام میں معاون و مددگار ہونے کے بجائے نفسیاتی پریشانی کا باعث بن جائے۔
آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھنے والی ایک خاتون حضرت خولہ رضی اللہ عنہا نے اس جانب پیش رفت کی اور بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ عریضہ پیش کیا کہ ” حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوش مبارک پر گھریلو ذمہ داریاں بھی آگئیں ہیں
الجھنیں چہرہ مبارک سے ظاہر ہیں اگر اجازت دیں تو کہیں رشتے کی بات کی جائے ؟” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے کی صورت حال جانتے ہوئے پوچھا کہ کیا کوئ رشتہ ہے ؟
یہاں یہ بات ذہن نشیں رہنی چاہیے کہ اللہ تعالی نے عقل و خرد کی انتہا ہمارے نبی صلی اللہ پر کردی تھی اس لیے ان حالات میں ایک عقل مند انسان کو معاشرتی نظریے سے جیسا معاشرہ کو دیکھنا تھا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے زیادہ گہرائ سے معاشرہ کو دیکھ رہے تھے اور یہ سمجھ رہے تھے
اگرچہ تعدد ازدواج عرب تہذیب کا حصہ ہے لیکن جن دعوتی مشن کے ساتھ وہ آگے بڑھ رہے ہیں کوئ بھی اپنی بیٹی کا رشتہ آپ سے کرنے کی حامی نہیں بھرےگا ۔ اس کی بے شمار وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسے مشرکین مکہ کے خلاف کھلے عام بغاوت کرنی تھی اور سماجی بائیکاٹ کے ساتھ زندگی تنگ کیے جانے کا بھی خوف تھا ۔
ان تمام حقائق اور پس منظر کو سامنے رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ اس پس منظر میں شادی کے وقت ام المؤمنین کی عمر مبارک کا جائزہ لیں تو اپنے ذوق کے مطابق خود فیصلہ کریں کہ حالات کس عمر کے متقاضی تھے ۔ غلط اعداد یا روایات کی تاویل مناسب ہے یا پھر اسے دوبارہ ایڈٹ کرنے کی ضرورت ہے ۔
اب ہم حضرت خولہ رضی اللہ عنہا کی پیش کش اور اس کا پورا واقعہ بیان کرتے ہیں ۔ ان سارے پس منظر میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی جو حکمت بیان کی جاتی ہے اسے بھی بنظر غائر دیکھیں اور تصور کریں کہ حالات کیا اتنے ہی نارمل تھے جتنا کہ بیان کردیا جاتا ہے ۔؟
حضرت خولہ نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسری شادی کے متعلق استفسار کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا کوئ مناسب رشتہ ہے ؟
جواب میں حضرت خولہ نے عرض کیا کہ ہاں ! یارسول اللہ ۔ ایک شوہر دیدہ خاتون سودہ ہیں جو آپ کا کلمہ پڑھ چکی ہیں جب کہ دوسری آپ کے جاں نثار حضرت ابوبکر کی بیٹی ہیں ۔ آپ نے حضرت سودہ کی طرف ان کے لیے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ کی طرف ان کی بیٹی کے لیے رشتہ بھیجوایا ۔ حضرت سوداء نے رشتہ قبول کرلیا ۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے یہاں سے جواب آیا کہ (حضرت ) عائشہ تو پہلے سے ہی مطعم بن عدی سے منسوب ہیں لیکن اب وہ لوگ رخصتی نہیں کرا رہے ہیں اور ہمارے نئے دین قبول کرنے کی وجہ سے رشتہ نبھانے کے لیے آمادہ بھی نہیں ہیں ۔ غالبا یہی وجہ رہی ہوگی کہ حضرت عائشہ صدیقہ سے رشتہ میں تاخیر ہوئ ؟
جب تک مطعم کے گھر والوں کی طرف سے مکمل جواب نہیں اگیا ہوگا ، عرب روایات اور حضرت ابوبکر کی شرافت کے پیش نظر یہی امید رکھنی چاہیے کہ ان کی طرف سے انکار کے بعد نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم سے رشتے کی ہامی بھری گئی ہوگی ۔
اس کے بعد مکہ کے حالات نہایت ناگفتہ بہ ہوچکے تھے ، ہر لمحہ پریشانیاں بڑھتی جارہی تھیں ، مسلمانوں کو ہجرت کرنے پر مجبور ہونا پڑ رہا تھا ۔ انہی سب وجوہات کی وجہ سے رخصتی مکہ میں نہیں ہوسکی اور مدینہ شریف پہونچنے کے بعد بھی حالات یکلخت اچھے نہیں ہوگئے تھے
ظاہر سی بات ہے کہ گھر سنبھالنے کے لیے حضرت سودا آچکی تھیں اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرف توجہ نہیں دے سکے ۔ پھر جب حالات بہتر ہوئے اور یاد دہانی کرائ گئی تو رخصتی ہو ۔
خود غور کیجیے کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جیسی رفاقت ، بچوں کی پرورش اور گھریلو ذمہ داری ادا کرنے والی خاتون کی ضرورت تھی وہ چھ سالہ بچی میں نظر آتی ہے ۔ ؟ دوسری اہم بات یہ کہ کیا چھ سالہ عمر سے پہلے ہی حضرت عائشہ مطعم بن عدی سے منسوب ہوگئیں تھی اور ان کے والدین رخصتی کا انتظار کررہے تھے ؟
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جیسے دانش مند انسان کے گھرانے میں ایسی روایت قبول نہیں کی جاسکتی ہے جب کہ عرب میں بھی اس طرح کی کسی عام روایت کا تصورنہ ہو ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک کیا تھی ؟ کیا اس کا تعلق عقیدے سے ہے ؟
کیا قرآن وسنت کی کوئ نص اس پر موجود ہے ؟ کیا یہ تاریخ کا سوال ہے یا حدیث کا ؟ اس طرح کے بے شمار سوالات ذہن میں گردش کرتے ہیں ۔
شادی کے وقت ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک کا تعلق اسلامی عقیدے سے قطعی نہیں ہے ۔ نہ ہی عمر مبارک پر قرآنی نص موجود ہے ، نہ سنت رسول صلی اللہ علیہ سلم اس سے وابستہ ہے اور نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کو ئ قول اس حوالے سے موجود ہے کہ اس عمر کو حتمی مان لیا جائے اور مورخین سے سماع میں یا نقل کرنے میں کسی غلطی کے امکان کا خارج کردیا جائے ۔ ۔
البتہ بعد میں کچھ فقہی اصول اس پر مرتب ہوئے ہیں جن کا تعلق سماجی مسائل سے ہے ۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ اگر اس عمر کی کسی بچی سے بڑی عمر کے مرد کی شادی مان بھی لی جائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذوق اس کو تسلیم کرتا دکھائ دیتا ہے ؟ اگر ایک غلط رسم عرب میں عام رہی ہے تو کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی اس روایت کا اپنانا متصور ہے ؟
جب کہ باندی سے جماع کا تصور عام تھا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اس کے بالکل خلاف ہے ۔ ایک بات ہم یہ مانتے ہیں اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ماضی ، حال اور مستقبل کے تمام عیوب سے محفوظ رکھا ہے تو کیا اللہ تعالی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس عام سماجی روایت سے ملتبس ہونا گوارا کرے گا جس پر بعد میں چہ مہ گوئیاں ہورہی ہیں ۔؟
کفار عرب جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ میں ہر آن عیوب تلاش کرتے تھے کیا ان کی نظر اس سمت نہیں گئی ؟
منافقین نے اس پر شور وغوغا کیوں نہیں مچایا ؟ سب سے خاص بات یہ کہ یہ واقعہ مئورخانہ ہے جسے بہت سے اہل علم محدثانہ طور پر دیکھتے ہیں ۔ میں یہاں پر ایک معروف قلم کار ڈاکٹر جہاں گیر حسن کا ایک چھوٹا سا مضمون پیش کرتا ہوں جو افادیت سے خالی نہیں ہے ۔
ام المومنین حضرت عائشہ کی رخصتی 19/ سال کی عمر میں ہوئی، 9/ سال میں نہیں
ام المومنین حضرت عائشہ کی رخصتی 19/سال کی عمر میں ہوئی، نو/سال کی عمر میں نہیں۔ کیوں کہ یہ جمہور کے نزدیک روایتا، درایتا اور تاریخا صحیح ہے کہ ہجرت کے وقت حضرت اسما بنت ابی بکر کی عمر 27/سال تھی اور اس کے ساتھ یہ بھی بطور سند متحقق ہے کہ حضرت عائشہ اپنی بڑی بہن سے عمر میں دس سال چھوٹی تھیں۔ گویا حضرت عائشہ کی عمر ہجرت کے سال 17/سال تھی، چھ سال نہیں۔
صحیح بخاری کتاب التفاسیر میں ہے، ام المومنین حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ بل الساعة موعدهم الخ (القمر:46) نازل ہوئی تو اس وقت میں چھوٹی اور اپنی ہمجولیوں کے ساتھ کھیلا کرتی تھی۔ اور مفسرین کا بیان ہے کہ مذکورہ آیت بمقام منی ہجرت سے 5/سال پہلے 4/ نبوی سال میں نازل ہوئی۔
اس روایت سے واضح ہوتا ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ مذکورہ آیت کے نزول کے وقت کم سے کم پانچ-چھ سال کی رہی ہوں گی۔ جب حضرت ہشام کی روایت سے پتا چلتا ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ 5/نبوی سال میں پیدا ہوئیں۔ اور یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک بچہ/ بچی اپنی پیدائش سے پہلے اپنی ہمجولیوں کے کھیلے بھی اور جو کچھ واقعہ اس کے بچپنے میں پیش آئے اسے یاد بھی رکھے۔ ہے نا تعجب خیز بات!!!
لہذا اس روایت کی رو سے ام المومنین حضرت عائشہ کی عمر چھ سال مان لیا جائے (جو روایتا اور درایتا بھی درست ہے) تو اس حساب سے ہجرت کے وقت ان کی عمر 17/ سال متحقق ہوجاتی ہے اور رخصتی اس کے دوسال بعد ہوئی تو گویا رخصتی 19/ سال میں ہوئی۔
ابن حجر عسقلانی اس بات کے قائل ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ کی رخصتی 9/ سال کی عمر میں ہوئی۔ جب کہ دوسری طرف اس بات کے بھی قائل ہیں کہ حضرت فاطمہ سے ام المومنین حضرت عائشہ 5/ سال چھوٹی تھیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ام المومنین حضرت عائشہ ہجرت کے وقت 13/ سال کی ہوتی ہیں کیوں کہ ہجرت کے وقت حضرت فاطمہ 18/ سال کی تھیں۔
پس ابن حجر کا قول اول خود بخود ان کے قول ثانی کی تردید کر دیتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک لڑکی ایک ہی وقت میں 9/ سال کی ہو اور 15/ سال کی بھی۔
چناں چہ بنا بریں بعض محققین نے کہا ہے کہ حضرت عروہ کی روایت جسے ہشام سے امام بخاری نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے وہ محل نظر ہے۔ ان کے نزدیک ممکن ہے کہ “تسع” دراصل “تسع عشر” ہو۔ یہ اور سہوا “تسع” نقل ہوگیا ہو اور “عشر” کا لفظ نقل کرنے یا سننے سے رہ گیا اور یہی لفظ ” تسع” متعارف و مشہور ہوگیا۔
پھر یہ روایت جناب ہشام سے اہل عراق نے نقل کیا ہے اور جب عراق میں جناب ہشام نے قیام کیا تو یہ عمر کے اس پڑاؤ پر تھے جہاں بتقاضائے بشری بالعموم قوت حافظہ کمزور ہوجاتا ہے اور بیان میں ثقاہت باقی نہیں رہتی۔
چناں چہ عہد عراق میں جناب ہشام کے بیان کردہ روایات پر اہل مدینہ نے عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے اور جناب ہشام کی عراقی روایات کو ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔
مزید لطف کی بات یہ ہے کہ امام مالک، جو جناب ہشام کے شاگرد ہیں انھوں نے جناب ہشام سے بہت ساری روایات کو اپنی کتاب “موطا” میں درج کیا ہے لیکن یہ نکاح اور رخصتی والی روایت درج نہیں۔ آخر کیوں؟ یہ پہلو بھی قابل توجہ ہے۔
آخری بات: چوں کہ ام المومنین حضرت عائشہ کی عمر ایک تاریخی معاملہ ہے اس لیے اس معاملے میں صرف اور صرف مورخین کی بات معتبر ہوگی، اور تاریخی اعتبار درست یہی ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ کی عمر رخصتی کے وقت 19/ سال قرار پاتی ہے 9/ سال نہیں۔
ہمارے خیال سے جو محقیقین 9/ سال کے قائل ہیں وہ مستشرقین کے اعتراضات سے مرعوب و متاثر ہوئے بغیر اور عقیدت میں مبتلا ہوئے بغیر حقائق سے نظریں ملائیں اور حقائق کو قبول کریں، عند اللہ وہ ضرور بالضرور ماجور ہوں گے۔ ان شاءاللہ
اس کے ساتھ ہمارے محققین کو بھی چاہیے کہ حقائق سے پرے محض روایتی تاویل کے گھوڑے پر سوار نہ ہوں، بلکہ دائرے میں رہتے ہوئے کچھ درایت کا بھی سہارا لیں۔
ڈاکٹر صاحب کے اس مضمون سے اور ہمارے بیان کردہ اصول کو مد نظر رکھ کر اگر حقائق کا بغور مطالعہ کریں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ام المؤمنین کی عمر مبارک نقل کرنے میں بعض کوتاہیاں ہوئیں ہیں جس پر ابتداء توجہ نہیں دی گئی لیکن اب اسے دوبارہ ایڈٹ کرنے کی ضرورت ہے ۔
فیاض احمدبرکاتی مصباحی