بلڈوزر دہشت گردی
تحریر: ڈاکٹر غلام زرقانی :: بلڈوزر دہشت گردی موجودہ حکومت جسے اپنی شناخت بنارہی ہے ، وہ خود اس کے لیے تباہ کن ثابت ہوگی
بلڈوزر دہشت گردی
جس طرح وبائی مرض کورونا کی نئی شکلیں (New Variant)پئے درپئے سامنے آرہی ہیں ، ٹھیک اسی طرح ہندوستان میں دہشت گردی کی بھی ایک نئی شکل متعارف ہوچکی ہے ۔ بس فرق اس قدر ہے کہ کورونا کی نت نئی شکلیں نہ تودین وملت کے درمیان تمییز کررہی ہیں
اور نہ ہی رنگ ونسل اور زبان وتہذیب کے درمیان ، بلکہ سارے انسان ان سے متاثر ہورہے ہیں ،جب کہ ہندوستانی سرزمین پر دہشت گردی کی جو نئی شکل سرکاری سرپرستی میں متعارف کرائی جارہی ہے، وہ بڑی ہوشیار ہے ، جس کے آہنی پنجے صرف ایک مخصوص طبقے کو نشانہ بنارہے ہیں۔
کہنے کو توبلڈوزر دہشت گردی کی عمر زیادہ طویل نہیں ہے ، لیکن اس نے اپنے ہولناک اقدامات سے ظلم وبربریت اور انہدام وانتقام کے سارے سابقہ ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں ۔ جی ہاں ، یہ’ بلڈوزر دہشت گردی ‘ بہت تیزی سے معاشرے میں پھیل رہی ہے ۔
مدھیہ پردیش ، اترپردیش اور اب دہلی کے مسلم علاقوں میں بھی داخل ہوچکی ہے ۔ چند ہفتوں پہلے رام نومی کے جلوس کے موقع پر مساجد کے سامنے طوفان بدتمیزی کے نتیجے میں پھوٹ پڑنے والے فسادات کے ممکنہ خاطیوں کو گرفتار کرنے کی بجائے ، بنام غیر قانونی تعمیرات، دن کے اجالے میں مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں پر بلڈوزر چلایا گیا۔یہی صورت حال کم وبیش دہلی کے جہانگیر پوری علاقے میں بھی پیش آئی ۔
اسی طرح مدھیہ پردیش کے ضلع ڈنڈوری میں آصف خان اور ہندو لڑکی ساکشی کے درمیان محبت کے نتیجے میں شادی ہوئی اور دونوں بھاگ گئے ۔
اخباری رپورٹ کے مطابق لڑکی کے گھر والوں نے آصف خان کے خلاف اغوا کی رپورٹ تھانے میں درج کرادی۔ کہتے ہیں کہ تھانے میں پولس کے سامنے آصف کے والد نے اپنے بیٹے کو سمجھانے کی کوشش کی اور منت سماجت کی کہ وہ لڑکی کو واپس لے آئے ۔ تاہم آصف خان نے کہا کہ لڑکی خود گھر سے بھاگ کر میرے پاس آئی ہے
اب میں اسے جبرا کسی طرح واپس نہیں بھیج سکتا، ہاں اگر وہ خود واپس چلی جائے ، تومجھے کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ بہر کیف لڑکی نے سب کے سامنے گھر واپس ہونے سے نہ صرف انکارکردیا، بلکہ واپسی کے لیے سختی کرنے پر خود کشی کی دھمکی بھی دے دی۔
اس طرح ہونا تویہ چاہیے تھا کہ آصف اور اس کے خاندان والوں سے کوئی مواخذہ نہ کیا جاتا، لیکن ضلع کلکٹر رتنا جھانے بلڈوزر بھیج دیا اور غیر قانونی تعمیرکا بہانہ بناکر دن کے اجالے میں آصف خاں کے گھر اور دکان دونوں مسمار کردیے گئے ۔
آپ محسوس کررہے ہیں کہ بلڈوزر اب دھیرے دھیرے ایک سوچھی سمجھی سازش کے تحت مسلمانوں پر دہشت طاری کرنے کے لیے ایک زبردست ہتھیار کے طورپر استعمال کیا جارہاہے ۔ ظاہر ہے کہ ایک جمہوری ملک میں اس طرح کی روایت نہایت ہی خطرناک ہے ۔
ہونا تویہ چاہیے کہ اگر کہیں بھی کوئی غیر قانونی تعمیرات ہیں ، توضابطہ کے مطابق انتظامیہ عدالت میں مقدمہ دائر کرے اور گھروں اور دکانوں کے مالکوں کوآزادانہ دفاع کا موقع دے ، تاکہ عدل وانصاف کے طے شدہ تقاضے پورے کیے جاسکیں ۔
اور اسی کے ساتھ یہ بھی پیش نگاہ رہے کہ غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کاروائی کسی خاص طبقے اور مخصوص مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف نہ ہو، بلکہ بلاتفریق مذہب وملت ہر خاطی کے خلاف قانون کی روشنی میں اقدامات کیے جائیں ۔
بہر کیف، متذکرہ بالا مثالوں سے یہ امر آفتاب نیم روز کی طرح عیاں ہوچکا ہے کہ اب انتظامیہ نے مسلمانوں کو دہشت زدہ کرنے کی پالیسی پر عملی اقدامات شروع کردیا ہے ۔
اور آثار صاف بتارہے ہیں کہ ۔العیاذ باللہ۔ اب یہ سلسلہ وسیع تر ہوتاجائے گااور کسی بھی طرح کے ممکنہ الزامات کے سہارےبلڈوزر دہشت گردی کی تباہ کاریاں روز مرہ کا معمول بن جائیں گی۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اب ہم کیا کریں ؟
ویسے تو جمہوری ملک میں احتجاجی مظاہرے موثرثابت ہوتے ہیں
لیکن موجودہ حکومت نے ماضی میں یہ اشارہ دے دیا ہے کہ اس کے نزدیک مسلمانوں کے احتجاجی مظاہرے اور برہم جلوس کی کوئی وقعت نہیں ہے ۔
مزید برآں ، انتخابات کے نتیجے میں بھی میری نگاہیں مستقل قریب میں کسی تبدیلی کے آثار محسوس نہیں کررہی ہیں ۔ اس لیے اب ہمیں کوئی دوسرا طریقہ اپنا نا چاہیے ۔
میں نے سابقہ کالم میں لکھا تھا کہ مسلمان حکمت عملی کے مطابق اکثریتی طبقے سے تعلق رکھنے والے انصاف پسندافراد سے روابط مضبوط کرنے کی کوشش کریں ، تاکہ مشکل وقت میں وہ ہمارے کسی کام آسکیں ۔ اس حوالے سے اب ایک اور اقدام کیا جائے توبہتر ہے ۔
اور وہ یہ کہ ملک میں مسلمانوں کی مضبوط ملی اور سیاسی تنظیمیں مشاورتی اجلاس کریں ۔ اس میں سابقہ چند مہینوں کے دوران مسلمانوں کے خلاف ہونے والی زیادتیوں کی ڈاکومنٹری فلم تیار کی جائے ، جو مرئی اور غیر مرئی دونوں طرح کی ہوں۔ پھر انھیں لے کر پوری دنیا میں مؤثر ممالک کا دورہ کیا جائے اور وہاں
کے ذمہ داروں کو دکھایا جائے کہ ہندوستانی سرزمین پر مسلمانوں کی منظم نسل کشی ہورہی ہے ، جس کے تدارک کے لیے جذبۂ انسانیت کی آواز پر وہ کوئی فعال کردار ادا کریں۔
ظاہر ہے کہ جب داخلی دباؤ کسی طرح مؤثر نہیں ہو رہاہے ، توبہت ممکن ہے کہ بیرونی دباؤ کے نتیجے میں موجودہ حکومت اپنی جارحانہ پالیسی پر نظر ثانی کرنے کے لیے تیار ہوجائے اور ہمیں بلڈوزر دہشت گردی کے ہولناک نقصانات سے نجات مل جائے ۔
صاحبو! کوئی شک نہیں کہ اس وقت بھارت کے مسلمان نہایت ہی مشکل ترین دور سے گزررہے ہیں ، اور یہ صرف اس لیے نہیں کہ سرکاری سرپرستی میں ظلم وبربریت کا ننگا ناچ سربازار روا رکھاجارہاہے
بلکہ اس لیے بھی کہ فرقہ پرست عناصرکے خلاف نہ توحزب اختلاف میں دم خم موجود ہے اور نہ ہی موجودہ حکومت کے اقدامات پر نقد وجرح کرنے کے لیے کوئی مضبوط ومستحکم عالمی طاقت تیارہے۔ یعنی نہایت ہی کسم پرسی کاعالم ہے ۔
تاہم یاد رکھیے کہ ماضی میں اس سے بھی زیادہ قتل وخون، انہدام وانتقام اور زدوکوب کے دور سے ملت اسلامیہ گزری ہے ، لیکن یہ حقیقت آج بھی پتھر کی لکیر کی طرح تاریخ کے اوراق میں موجود ہے کہ ظالم وجابر ہمیں مٹانہ سکے ، بلکہ کہنے دیا جائے کہ ہردور ظلم کے بعد ملت اسلامیہ نئے حوصلہ وامنگ کے ساتھ دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوگئی۔
اس لیے دورحاضر میں جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ، وہ ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی اور تلقین صبر وضبط ہے ۔
ویسے بھی مایوسی ہماری شریعت میں درجہ کفر کے قریب پہنچادیتی ہے، اس لیے ہمارے معاشرے میں مایوسی وقنوطیت کی راہیں مکمل طورپر مسدود ہونی چاہئیں۔